عورت اور اس کی اہمیت

تحریر ۔۔۔ ڈاکٹر فیاض احمد۔۔۔ لندن
دنیا میں کسی بھی چیز کو خوبصورت بنانے کے لیے کسی نہ کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہے اور دوسروں کی آنکھوں کا تارہ بنا دیتی ہے یہ گھر ہو یا زندگی کا میدان۔ اسی طرح ہر گھر کی خوبصورتی اور زندگی کا سکون عورت کے دم سے ہے
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

ہماری زندگی میں عورت کا مقام ایسا ہے جیسے پھول کے ساتھ خوشبو۔ کیونکہ خوشبو کے بغیر پھول کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے کیونکہ عورت کی کئی روپ ہوتے ہیں جیسا کہ ماں۔ بہن۔ بیوی اور بیٹی وغیرہ لیکن وہ ہر رشتے کو بڑی ہمت کے ساتھ پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے اور اپنے ہر روپ میں قربانی دیتی ہے لیکن اس کی قربانی کا احساس کسی کو نہیں ہوتا عورت کا پہلا روپ ماں کا ہوتا ہے اس روپ میں وہ بہت سی قربانیاں دیتی ہے جس کے بعد وہ اس مقام پر پہنچتی ہے کہ خداوند کریم نے اس کے پاؤں کے نیچے جنت کو رکھ دیا ہے اپنے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کرکے انہیں معاشرے کا ایک باعزت فرد بناتی ہے حتیٰ کہ ماں اپنی خوشیوں کو بھول جاتی ہے لیکن بچے جب اس قابل بن جاتے ہیں تو وہی ماں کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں کیونکہ عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں

عورت کا دوسرا روپ بہن کا ہوتا ہے بہن کا رشتہ اتنا پیارا ہوتا ہے کہ اس سے ماں جیسی خوشبو آتی ہے آجکل ہمارے معاشرے میں بہنیں بہت اہم کردار ادا کر رہی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی کیونکہ وہ ایک عورت ہے اور اس کے بارے میں کچھ اچھا کہنے سے ہماری عزت میں فرق پڑتا ہے
جو ہر مرد عیاں ہوتا ہے بے منت غیر
غیر کے ہاتھ میں ہے ہر عورت کی نمود

عورت کا تیسرا روپ بہت اہم ہوتا ہے جیسے بیوی کا نام دیتے ہیں اس میں عورت بہت احساس ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنی تمام فیملی کو چھوڑ کر آتی ہے جو اس کی پیدائش سے لے کر اس کے ساتھ تھے بیوی والا روپ بہت اچھا ہوتا ہے اگر اس کا خاوند اس کو اپنی بیوی کے ساتھ ساتھ اپنی دوست بھی سمجھے اور اس کی خوشیوں کا بھی خیال رکھے تو زندگی خوشگوار بن جاتی ہے بیوی کی تمام جائز خواہشات کو اپنی استطاعت کے مطابق پورا کرے اور ہر لحاظ سے اس کا خیال رکھے اگر شادی کے بعد آپ اپنی بیوی کے ساتھ مسکرا کر بات کریں گے تو اس کے اثرات آپ کی آنے والی نسل پر پڑتے ہے ایک عورت کی دو ہی کمزوریاں ہوتی ہے ایک عزت اور دوسری پیار ۔ لیکن ہم نے تو عورت کو غلام سمجھ رکھا ہے اس کے ساتھ باندی جیسا سلوک کرتے ہیں حالانکہ اسلام میں بھی عورت کو مرد کے برابر حقوق حاصل ہیں ہر کامیاب مرد کو کامیاب بنانے والی ایک عورت ہوتی ہے لیکن ہم عورت کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ وہ ایک عورت ہے ہم اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اس کی دل شکنی کرتے ہیں جس سے وہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتی ہے مرد سمجھتے ہیں کہ وہ کام کر کے گھر آتے ہیں اور عورت بیکار گھر بیٹھی ہے تو یہ غلط سوچ ہے کیونکہ گھر میں بچوں کی پرورش میں بیوی کا اہم کردار ہوتا ہے ہم اپنی بیوی کی تعریف کرنے کے بجائے دوسروں کے سامنے اس کی برائی بیان کرتے ہیں جس کی وجہ سے اچھے بھلے گھر تباہی کا شکار ہوجاتے ہیں
میں بھی مظلومی نسواں سے ہوں غم ناک بہت
نہیں ممکن مگر اس عقدہ مشکل کی کشود

عورت کا چوتھا روپ بیٹی کا ہوتا ہے والدین بڑے پیارومحبت کے ساتھ اپنی بیٹی کی تعلیم وتربیت کرتے ہیں اور نازونخرے اٹھاتے ہیں کیونکہ بیٹی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہوتی ہے لیکن آجکل تو تصویر بالکل اس کے برعکس ہے لوگ بیٹیوں کے اچھے رشتوں کے لئے پریشان ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں ایک جہیز نامی بیماری بہت عام ہے جس کی وجہ سے پتہ نہیں کتنی بیٹیاں گھروں میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں بیٹی کی شادی کے وقت لڑکے والے کہتے ہیں کہ کچھ نہیں چاہیے بس جو آپ کا دل کرتا ہے اپنی بیٹی کو دے دو اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہماری کوئی گاڑی یا مکان وغیرہ کی شرط نہیں ہے کیونکہ یہ جہیز ہے اور اسلام میں جائز نہیں ہے اور باقی چیزیں تو لڑکی کی ضرورت کی ہیں مثلاً فریج ۔ ٹی وی۔ فرنیچر وغیرہ ۔ اگر گاڑی اور مکان جہیز ہیں تو یہ کیا ہے اسلام میں کہاں اس کا ذکر ہے ہم دین اور دنیا دونوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے کب ان رسم ورواج سے اپنے آپ کو آزاد کریں گے خدا کے لیے ہمیں ان رسم و رواج کو بدلنے کے لیے ابھی سے کوشش کرنی چاہیے لیکن اپنی دفعہ کہتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے ہم دوسروں کی پرواہ کرتے رہتے ہیں حالانکہ آجکل کسی کو کسی کی کوئی پرواہ نہیں ہے زیادہ تر لوگ تماشا دیکھنے والے ہوتے ہیں ہیں اپنے دامن کو خود محفوظ کرنا ہے اور اپنی حیثیت کے مطابق اپنے جذبات اور اخراجات کو کنٹرول کریں تو ہم کبھی بھی مایوسی کا شکار نہ ہوں اسلام میں بہترین نکاح وہ ہے جس میں لڑکی کے گھر والوں پر کسی قسم کا بوجھ نہ ہو لیکن ہم تو بیٹی والوں کو اس قدر مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ اپنی بیٹی کا گھر آباد کرنے کے لیے خود کو برباد کر لیتے ہیں بیٹی والدین کے گھر میں بھی اپنے ماں۔باپ اور بہن و بھائیوں کے لیے قربانی دیتی ہے لیکن معاشرہ پھر بھی بیٹے کو بیٹی پر فوقیت دیتا ہے کیونکہ وہ ایک عورت ہے
حسن کردار سے نورے مجسم ہوجا
کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہو جائے

آجکل پوری دنیا میں آٹھ مارچ عورتوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے اس کے لیے مختلف تنظیمیں اور انجییوز دنیا کے مختلف ممالک میں سیمینار کرواتی ہیں اور عورتوں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر مختلف قسم کے اجلاس منعقد کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود غریبوں کی بیٹیوں کے ساتھ جہیز جیسی بیماری ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہم ان تقریبات میں عورتوں کی بیماریوں اور دوسرے مسائل کی طرف توجہ دیتے ہیں لیکن ان مسائل کی جڑ وں کو ٹھیک کرنے کی طرف رجحان نہیں کرتے جن سے یہ بیماریاں اور مسائل پیدا ہوتے ہیں تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے کہ غیر شادی شدہ عورتوں میں مختلف قسم کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں جیسا کہ بلڈپریشر ۔ڈپریشن اور عورتوں کے بہت سے پوشیدہ امراض وغیرہ

عورتیں والدین کے گھر میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں اس کی بنیادی وجہ جہیز ہے جس کی طرف ہماری توجہ ہی نہیں ہے عورتوں کا عالمی دن منانے کا مقصد ان کی مسائل کو حل کرنا ہے جہیز جیسی خطرناک بیماری کو اس معاشرے سے مکمل طور پر ختم کر کے غریبوں کی بیٹیوں کو ایک باعزت مقام حاصل کروائیں کیونکہ وہ بھی ایک عورت ہیں اور ان میں بھی احساس۔ جذبات اور خواہشات ہیں ہمیں اس مقصد پر زور دینا چاہیے اور اس کو پورا کر کے دنیاوی سکون اور آخرت کی رحت کے ساتھ ساتھ اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی بھی حاصل کرنی چاہیے جس سے سکون قلب ملتا ہے جس طرح پھول سے خوشبو حاصل کرنے کے لئے اس کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے اسی طرح عورت کو عورت بنانے کے لیے عزت دینی پڑتی ہے ہماری ایک مسکراہٹ کسی کی زندگی بدل دیتی ہے اس لیے مسکرانے سے پیسے خرچ نہیں ہوتے ایک صدقہ سمجھ کر ہی مسکرا دیا کریں
ان کے آجانے سے چہرے پے جو آ جاتی ہے رونق
لوگ کہتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 526260 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.