تحریر: اسامہ صدیق
میں اس سے بہت زیادہ محبت کرتا تھا کبھی وہ مجھے دیکھتے ہی خوش ہو جاتی تو
کبھی اچانک مجھے دیکھتے ہی اسکا دل بجھ سا جاتا کیوںکہ جب اسکا چہرہ مجھے
دیکھتے ہی اداس ہوجاتا توتب اسکی ایک نگاہ میری طرف ہوتی اور دوسری نگاہ سے
اس معاشرے کو تک رہی ہوتی جو اسے اپنی روایات کے چنگل میں پھنسا کر مجھ سے
دور کرنے کی کوشش میں لگا تھا لیکن میں جب بھی اسکے بارے میں سوچتا تو نہ
جانے مجھ میں ایک خوبصورت زندگی کا احساس کہاں سے جھلکنے لگتا مگر عام
الفاظ نںمیں شاید اسے محبت کہا جاتا ہے۔ میں جب بھی اس سے باتیں کرنے
بیٹھتا تو اسکے میٹھے میٹھے الفاظوں میں کھو سا جاتا۔ پھر میں دل میں کہتا
کہ یہی مجھے زندگی ملے تو میں راضی ہوں۔۔ کیونکہ وہ میری خواہش نہی تھی
بلکہ زندگی کامقصد بن چکا تھا اورمیرے جیسا ضدی انسان اپنے مقصد کو اپنی
زندگی میں حاصل نہ کر سکے یہ میرے نزدیک ناممکن ساتھا کیونکہ میں نے تو
اپنی نمازوں میں بھی صرف اسی کو اپنے خدا سے مانگ رکھاتھا اور میں اکثر اسے
کہتا ہوتا تھا کہ سنو اگر ہم نہ مل سکے تو؟؟؟؟؟ کیا تم میری محبت کے احساس
کو بھلا کر کسی اور کی ہو سکتی ہو؟ تو اسکے بدن کا رنگ ماند پڑجاتا، ماتھے
پربل، آنکھوں میں پانی اور لہجہ بنا لفظ کے ہی بتادیتا وہ مجھ سے کس قدر
محبت کرتی اور چاہتی ہے پھر میں اسکی چاہت کا بھرم رکھتے اسے زور کے ساتھ
اپنی باہوں سے سینےمیں لپیٹ لیتا۔ کیونکہ ہم نے ایک ساتھ جینے مرنے کے وعدے
کر رکھے تھے اور جب ایک دوسرےسے پوچھتے کہ کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے؟
کیونکہ معاشرے میں، ڈرامہ اور فلم وغیرہ میں ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ اگر
کسی کا شوہر یا بیگم مرجاۓ تو وہ اپنی زندگی کی روانی جاری رکھتے ہوۓ دوسری
شادی کرلیتے ہیں۔ توہم ایک دوسرے کو کہا کرتے تھے کہ یہ سب فلم اور ڈرامہ
کی محبت ہوتی ہے اوریہ ایسی ہی ہوتی ہے مگر ہماری محبت کو زمانہ یاد کرے گا۔
یا پھر وہ لوگ ہماری محبت کی گواہی ضرور دینگے ''جو ہمیں ایک دوسرے سے جدا
کرنے کی کوشش کریں گے'' اور پھر یوں ہی ہوا ہماری پڑھائ مکمل ہوتے ہی ہم نے
گھر میں اپنی محبت کا اظہار کردیا۔ یہ اظہار جب میں نےاپنے گھر میں کیا
تومیرے باپ نےمجھے کہاکہ ایسا ہرگز نہی ہوسکتامیں نے تجھے اسلیے نہی
پڑھایاکہ تواپنی زندگی کا اتنا بڑافیصلہ خود لے سکے۔ میں اس وقت تو خاموش
رہا مگرمیرےدل میں اسے حاصل کرنےکی لگن اور زورپکڑگئ چونکہ وہ میری زندگی
کا سب سے پہلا اور آخری مقصد بن چکی تھی۔ مگرجب اسنے اپنےگھرمیں یے کہاکہ
میں ایک لڑکےسے محبت کرتی ہوں آپ ایک مرتبہ اسکی فیملی سے مل لیں۔ تواسکی
ماں نے ایک ہتمی فیصلہ اپنے پہلے لفظوں میں سناتے ہوۓ کہاکہ ہم غیربرادری
میں شادی نہی کرتے آیندہ ایسی بات کرنےکی ہمت بھی مت کرنا۔ اورجب اسنے مجھے
یہ بتایاتوہم نے بھی ایک آخری فیصلہ کر لیاکہ یاں توہم شادی کریں گےاور یاں
پھر ہم ایک دوسرے کی جان لے لیں گے۔
اور ہمیں اس معاشرےکا پہلے سے ہی پتہ تھاکہ محبت کویہ لوگ گالی سمجھتے ھیں۔
یے ہمیں ایک دوسرےکانہی ہونے دیں گے اورابھی تک تو میں نے کوئ کام وغیرہ
کرنابھی شروع نہی کیاتھا۔ اگرایسا ہوتاتومیں اپنی حسینہ کو اس معاشرے سے
دور کہیں لےجاتااور ایک خوبصورت زندگی فراہم کرسکتامگرابھی یہ ممکن نہی تھا
اوراسکے گھروالے اسکے لیے رشتے دیکھنے کیلیۓاِدھر ادھر ہاتھ پاؤں مار رہے
تھے۔ جس سےمیری محبوبہ بہت زیادہ پریشان رہنے لگی تھی مگرجب اسکے گھر والوں
نے اسکارشتہ کہیں اور تہ کر دیاتب اسنے مجھ سے رابطہ کیا اور کہنے لگی
ہمارا وعدہ نبھانے کا وقت آن پہنچا ہے تم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم ایک دوسرے
کے علاوہ کسی اور کے نہی ہوسکتے لہذا میں نے اسے ملنے کیلۓ کہا۔ ادھر سے وہ
اپنے گھر سے نکلی تو اِدھرسے میں نے اپنے دراز سے پستول اٹھائ اور اسے غور
سے دیکھا اور دل میں ٹھان لی کہ اگر ہماری ملاقات کے دوران کسی نے ہمیں تنگ
کیاتو میں اسے فوراً گولی سے اڑا ڈالوں گا۔۔
میرے ذہن میں طرح طرح کی باتیں جنم لے رہی تھیں میں خود کو قابو میں نہی کر
پارہا تھا سمجھ نہی آرہی تھی کہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرلوں یاکسی کی جان لے
لوں۔۔۔ کیونکہ اس ظالم معاشرے نے آج تک کسے دو محبت کرنے والوں کی عزت نہی
کی اور ناہی ملنے دیا مگر ہیر رانجھے کی محبت کو جب ایک دوسرے سے ڈسکس کرنے
بیٹھتے ھیں تو ہیر رانجھے کے دشمنوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے اور ان پر
لعن تعن کرتے نظر آتے مگر اصل میں کسی کی محبت پر یقین نہ کرتے اور
برادریوں کے علاوہ کسی اور سے نکاح کرنےکی اجازت نہ دیتے۔۔! چونکہ میں
بہاولپورمیں مقیم تھااور وہ بھی۔ پھر ہم ایک بہاولپور کے ایک شائن سٹار
ہوٹل کمرہ نمبر 504 میں ملنے کیلۓ چلے گۓ میں نے اندر سے دروازہ لاک کر
دیااوراسکےپاس جاکربیٹھ گیا اسنے حسرت بھری نگاہوں سے مجھے تکنا شروع کردیا۔
میری آنکھوں سے آنسوباہرنکلناچاہ رہے تھےمگرمیں نے انکوچھپانےکےلیۓ اسکے
ہاتھوں کو چومنے کےبہانےاپنےسرکونیچےجھکادیا جس سےاسنےبجھےکہاکہ میں صرف
تمہاری ہوں اورکسی کاہونےکاسوچ بھی نہی سکتی کیونکہ عورت وہی ہوتی ہےجواپنی
محبت کوچھوڑکر کسی اور کے پاس نہ جاۓ اسکی یہی باتیں مجھےاندرسےاوربھی
مضبوط کر رہی تھیں پھراسنے میرے منہ پرہاتھ رکھتے ہوۓکہاکہ دیکھو۔۔۔! اگرتم
چاہتےہوکہ میں کسی اورکی نہ ہوں توتم اپنے ہاتھوں سے مجھکو مارڈالو۔ میں
اسکی یہ بات سن کراندر سےٹوٹ ساگیااور اسے غور سے دیکھنےلگا اورپوچھا کہ
کیاواقعی تم مجھ سےاتنی محبت کرتی ہو؟ اسنے فوراً بولا آزما کردیکھ لو۔
چونکہ اس وقت میرے اوپرصرف اسکی محبت کاجنون سوارتھا میں نےاپنی پستول
نکالی اوراپناسر اسکےسرکےساتھ جوڑکررونے لگااور وہ تواپنی آنکھوں سے آنسوؤں
کوروک ہی نہی پارہی تھی۔ ہمیں ہمارےماں باپ کی محبت نےایک وقت کیلیۓ جھٹکا۔
مگرفوراً ہماری محبت نےجواب دیاکہ وہ اگرہم سے محبت کرتےتومعاشرےکےصرف
چندغیراسلامی روایات کی خاطرایک دوسرےسےجدا مت کرتے تاہم پھرہم نےخودکشی
کرنےکافیصلہ کیاتاکہ لوگوں کےیہ رواج بھی قائم رہیں اورہمارا یے وعدہ کہ ہم
کسی اورکےنہیں ہونگےہےبھی پوراہوسکے۔ مجھے کہنے لگی مجھ پرگولی چلاؤ میں نے
کہا نہیں پہلےمیں خود پرچلاوں گا مگرفوراً اسنے مجھے اپنی قسم دےڈالی
اوربولی میری محبت کو امرکردوتمہیں میری قسم۔۔! میرے ہاتھ کپکپانے لگے اور
اسنے یہاں پربھیمیراساتھ دیتےہوۓ پستول کی نلی کارخ اپنے ماتھے پررکھتے ہوۓ
میرے انگوٹھے پراپناانگوٹھارکھ کربناکچھ سوچے سمجھےدبادیا جس سےوہ ایک
جھٹکے سےپیچھےکی طرف گرگئ۔ میری روح بھی اسی وقت نکل چکی تھی مگراپنے دھڑ
کو اسکےپیروں میں گرانے کیلیۓ اپنےسرپرمینے خودہی گولی چلادی کیونکہ میری
زندگی سے میراساتھ دینےوالا جاچکاتھا اوروفاکی مانگ یہی تھی کہ میں بھی
اسکےساتھ اپنی زندگی کا خاتمہ کرتا۔ اورمیں نےوہی کیا جس سےمیری محبت
امرہوسکے۔ اوراسطرح ہم اپنی محبت و وفا کواپنےہاتھوں میں سمیٹ کراپنےخالقِ
حقیقی سےجاملے۔۔! اورہماری لاشیں اسی شائن سٹار ہوٹل کےکمرہ504 میں اس لیے
پڑی رہیں تاکہ اس معاشرےکواپنی غلطی کااحساس ہوسکے۔۔۔۔!
|