حقوق نسواں

تعلیم نسواں کے بعد حقوق نسواں اور خواتین کے عالمی دن کے نام پر معزز خواتین کا ہمیشہ استحصال کیا گیا۔ اسلام نے ہی خواتین کو حقوق دلائے ۔جب کہ مغرب آج اسلام کو ہی خواتین کی ترقی میں رکاوٹ کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ یہ خواتین ماں، بہن، بیٹی، بیوی، ساس ، بہو وغیرہ جیسے مقدس رشتوں سے وابستہ نہیں بلکہ ان کا معاشرے کی تعمیر یا بگاڑ میں نمایاں کردارہے۔ اسلام تب خواتین کے تحفظ اور احترام و تقدس کے لئے میدان میں آیا جب ان کی بقا کا مسلہ تھا۔ جب انہیں زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ اسلام نے اس روایت کو دفن کردیا۔ ہم نے آج اس خاتون کو کہاں لا کھڑا کر دیا ۔ ہر گلی، چوراہے پر بڑے بڑے بورڈز پر اس کی عزت کو آویزان کر دیا ۔ اس کی آبرو کو چوراہوں پر نیلام کر دیا ۔ اسے نمائش کی چیز بنا دیا ۔ ہمارا میڈیا بھی خاتون کش پالیسی کے تقلید کرنے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ بلکہ اس سے بھی آگے نکلنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے۔ جب سے این جی اوز سامنے آئی ہیں ۔ جب سے ان کو باہر سے فنڈنگ آنے کا سلسلہ تیز ہو اہے۔ تب سے اس مسلہ نے ایک نیا رخ لیا ہے۔ آج کی خاتون کو آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اپنے مفاد کے لئے اسے آگے کر دیا جاتا ہے۔ اس کے طور طریقے، اس کی ملبوسات، اس کی سرگرمیاں انتہائی تکلیف دہ بنا دی گئی ہیں۔

جو خاتون پردہ کرنا چاہے۔ اپنی مرضی سے نقاب میں رہنے پر بضد ہو۔ اس کا جینا حرام کر دیا جاتا ہے۔ خاص طور پر مغرب میں نقاب کے خلاف ایک طرح کی جنگ شروع کی گئی ہے۔ تعلیمی اداروں، دفاتر ، بازاروں میں نقاب پوش خواتین کا داخلہ تک ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ سرکاری طور پر ایک مہم جاری ہے۔ مغرب باپردگی کا مطلبکچھ دیگر انداز میں سمجھاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ شاید کوئی زبردستی ہے۔ دباؤ سے خواتین کو مجبور کیا جاتا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس ہے۔ یورپ میں جو رویہ ہے۔ وہ جارحانہ ہے۔ یک طرفہ سوچ ہے۔ وہ خواتین کو ان کی مرضی کے بر خلاف نقاب پہننے سے روک رہے ہیں۔ جب کہ اس کے ساتھ ہی ان کی آزادی کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ یہ سب گمراہ کن ہے۔ ان کا اپنے لئے ایک انصاف ہے اور مسلمانوں کے لئے دوسرا۔ یہ دوہرا معیار انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں پایا جاتا ہے۔

اسلام نے عورت کو عزت و احترام سے نوازا ہے۔ ہر ایک ماں بہن بیٹی کا واسط بعض صنفی کمزوریوں سے بھی پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت کی گواہی کا مرد کے ساتھ مقابلہ نہیں۔ دو عورتیں ایک مرد کے برابر ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے مرد کی طرح خواتین کو بھی عقل اور شعور سے مالا مال کیا ہے۔ انہیں گھر کا نگہبان بنایا ہے جبکہ مرد گھر کا نگران ہے۔ گھر میں سے ہر ایک کی ذمہ داریاں ہیں۔ ان کی نوعیت مختلف ہے۔ سبھی ایک ٹیم کے طور پر کام کرتے ہیں۔بلکہ خواتین کی عظمت اور تربیت انسانیت میں منفرد کردار ہے۔

خواتین کو اسلامی تعلیمات اور اصولوں کی روشنی میں ان کے جائز حقوق ملنے چاہیئں۔ انہیں مرد کے بے جا تشدد ، ظلم ، نا انصافی سے بچانا بھی درست ہے۔ مگر آج این جی اوزاور ان کے ایجنٹوں کی طرف سے عورت کو گھریلو زندگی سے بغاوت کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ اسے انتشار اور افراتفری کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ گھریلو تشدد کسی بھی طور جائز نہیں ہو سکتا۔ مگر نظم و ضبط یا ڈسپلن کے لئے مرد اور عورت دونوں کے درمیان ایک ایم او یو طے پاتا ہے۔ شوہر اور بیوی کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے۔ جس سے انحراف دونوں کے لئے مناسب نہیں ہوتا۔

شوہر اور بیوی کے درمیان یہ معاہدہ پاکیزہ نکاح ہے۔ شوہر اس کی عزت اور عصمت کا محافظ بنتا ہے۔ تمام اخراجات اس کے ذمہ ہوتے ہیں۔ وہ رزق حلا ل کمائی کے لئے صبح تا شام کام کرتا ہے۔ اب تو بے چارہ مرد کئی شفٹوں میں کام کرتا ہے۔ بیوی پر انتہائی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ گھر بار، مال ، بچوں کی دیکھ بال، ان کی تربیت کوئی معمولی یا آسان کام نہیں ہے۔یہ انتہائی ذمہ دارانہ اور باوقار فریٖضہ ہے۔ لیکن مغرب نے اس عزت کی پیکر کو پردہ سے نکال کر بے پردہ کر دیا۔ اسے بازاروں اور چوراہوں کی زینت بنا دیا۔ کوئی اشتہار تب تک نامکمل سمجھا جاتا ہے جب تک اس میں کوئی خاتون نظر نہ آئے۔ ایک بارپنجاب اسمبلی نے کیا کیا۔ کوئی نئی بات نہیں۔ نیا قانون بنا یا۔ اس بل کے بارے میں اسلام پسندوں کے تحفظات تھے۔ وہ اسے خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے مترادف سمجھتے تھے۔ اگر کوئی قانون بے شرمی اور بے حیائی کو فروغ دیتا ہو۔ تو اس کی منظوری مشکوک بن جاتی ہے۔ ارکان پنجاب اسمبلی کو زن مرید یا زن مزدور کا خطاب دنیا مناسب نہ تھا۔ مگر کبھی یہ الزام بھی لگا۔ آج دنیا میں خواتین کے حقوق کا دم بھرنے کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔ خواتین کی آزادی کے نام پر ڈالر کمانے کے الزامات بھی سامنے آئے۔ یہ آزادی کیا ہے۔ عورت کو گھر سے نکال کر بازار میں بٹھا دینا۔ اسے پیسہ کمانے کی مشین بنانا۔ اسے نمائش کی چیز سمجھنا۔ خواتین پردہ میں ہوں یا غیر محرم سے دور رہیں، انہیں ایسا ماحول فراہم ہو، تو شاید اس کی کم لوگ مخالفت کریں گے۔ مجبوری میں جب کوئی مرد کمائی کرنے والا نہ ہو تو عورت کوباعزت کاروبار، ملازمت سے کوئی نہیں روک سکتا۔ کوئی کل کو اگر یہ کہہ دے کہ عورت کو نکاح سے بھی آزاد کر دیا جائے تو کیا یہ کوئی قبول کرے گا۔ ہم اسی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ رسوم و رواج انتہائی خطرناک ہیں۔ نکاح مشکل اور پیچیدہ بن رہا ہے، حرام کاری آسان بن رہی ہے۔ اس وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں خواتین گھروں میں بوڑھی ہو رہی ہیں۔ مگر ان کے گھر رشتہ کے لئے کوئی نہیں آتا۔اسمبلیوں کو اس بارے میں قانون سازی کی توجہ کرنی چاہیئے ۔مگر خواتین کو سیاست کاری کے لئے بھی استعمال کیا جا نے لگا ہے۔گزشتہ زیام میں اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے آئی ہیں۔ ہزاروں خواتین جہیز نہ ہونے کی وجہ سے کنواری رہ جاتی ہیں۔ جہیز کی لعنت کے خلاف کوئی کچھ نہیں کرتا۔ غریب بچیوں کی شادیوں کا انتظام نہیں کیا جاتا۔ اگر کوئی ادارہ بچیوں کی فلاح کے کام کرے تو اسے بھی مشکوک بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔مگر مغرب کو خوش کرنے کے نئے نئے طریقے آزمائے جا رہے ہیں۔
کوئی اسمبلی ایسی قانون سازی نہیں کر سکتی جو اسلامی نظریاتی کونسل کواعتماد میں لے کر نہ کی گئی ہو۔ تا کہ وہ یہ جان سکیں کہ آیا اس قانون میں کوئی بات اسلام سے متصادم تو نہیں۔ ہم خود ہی مفتی اور اسلامی سکالر بن کر من مانی نہیں کر سکتے۔ ہماری بھی کچھ حدود و قیود ہیں۔ جس طرح ڈاکڑ بننے کے لئے ایم ابی بی ایس ، وکیل کے لئے ایل ایل بی، انجینئر کے لئے بی ای، منیجر کے لئے ایم بی اے لازمی ہے ، اسی طرح عالم دین ، مفتی صاحب کے لئے بھی دین کا علم ، عالم فاضل ہونا ضروری ہے۔ 8مارچ عالمی یوم خواتین ہے۔ جب کہ ہر دن خواتین کی عزت و احترام اور ان کے وقار کی بلندی میں کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔مرد اور عورت خاندان کی گاڑی کے دو پیہے ہیں۔کسی ایک کے بغیر بھی خاندان نامکمل ہے۔ آج مغرب اور اس کی این جی اوز ہم جنس پرستی کو بڑھاوا دیتی ہیں تا کہ یہ نظام تباہ ہو۔ میڈیا کو بھی اسی لئے آلہ کار بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ریٹنگ یا کاروبار کے فروغ کے لئے عورت کی پاکدامنی پر حرف لانا ناقابل قبول قرار نہ پایا تو عورت کی عزت و عظمت داؤ پر لگ جائے گی۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555335 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More