تاریخ کے ہر دور میں نام نہاد دانشوروں کا ایک ایسا طبقہ
مو جو د رہا ہے کہ جب اُن کے سامنے اولیاء اﷲ یا روحانیت تصوف کی با ت کی
جا ئے تو وہ نفرت کینہ حسد بغض کے آتش فشاں کی طرح پھٹنے لگتے ہیں ‘منہ سے
جھاگ نکلنا شروع ہو جاتی ہے اور تصوف کے خلا ف الفا ظ کی جگا لی اور گو لہ
با ری شروع کر دیتے ہیں ‘آجکل بھی وطن عزیز اور بیرون ملک یہی طبقہ پھر تصو
ف اوراولیا ء کرام پر نفرت بغض کے تیر چلانے میں متحرک ہے ‘جب سے عمران خان
نے بی بی بشری وٹو سے تیسری شادی کی ہے تو یہ طبقہ پھر اپنی نفرت کے اظہا ر
پر لگ گیاہے ‘ ایسے مغرب نواز دانشوروں کی خدمت میں عرض ہے کہ آپ انفرادی
عمل کے نتیجے میں اجتما عی عمل پر تنقید نہیں کر سکتے جس طرح زندگی کے ہر
شعبہ میں اچھے بُرے لوگ موجود ہیں اِسی طرح تصوف سے وابستہ کسی فرد
کوانسانی غلطی نظر آتی ہے تو کر ہ ارض کے عظیم ترین نفوس قدسیہ پر الزام
نہیں لگا سکتے ‘منکرین روحانیت کی تو جہ دلا نے کے لیے عرض ہے کہ پچھلے
چودہ سو سالوں سے جن نفوس قدسیہ کی بدولت مسلم معاشرے کی عما رت پو ری شان
و شوکت سے کھڑی ہے ان میں فقہا ئے محدث علما ئے کرام اور صوفیاکرام شامل
ہیں مو جودہ دور بلا شبہ ما دیت پر ستی کا دور ہے ما دیت پر ستی کے طلسم ہو
شربا نے موجودہ انسان کو بُری طرح اپنے سنہری جال میں پھنسا یا ہوا ہے اِس
جال سے بچنے میں صوفیا کرام نے اہم کردار ادا کیا ہے اگر دنیا پر ستی کا
سیلاب رکا ہوا ہے تو یہ صوفیا کرام ہی کی تعلیما ت ہیں ‘تصوف کا ادارہ روشن
مینار کی طرح جہالت اوردنیا پرستی کے اندھیروں کو دور کر رہا ہے ‘آج اگر ہم
زوال کا شکا ر ہیں تو حکمرانوں دولت مندوں کی عیا شیاں ‘فوجی قوت کے زور پر
بد معا شیاں ‘نفس پرستی کی خا طر با ہم معرکہ آرائیاں ‘مغربی قوتوں کا جدید
علم کے زور پر کمزور عقیدہ مسلمانوں پر حملے ‘کمزور مسلمان ریا ستوں پر
مختلف زاویوں سے حملے اور محکوم بنا نے کے انداز‘ تصوف میں پیدا ہو نے والا
بگا ڑ اجتماعی بے حسی کردار سازی پر عدم توجہ ‘جہا لت اسلام سے دوری جیسے
عوامل شامل ہیں مو جودہ دور میں بھی اگر معاشرے کو حقیقی معنوں میں الٰہی
رنگ میں رنگ دیا جا ئے ‘شریعت محمدی ؐ کی پیروی کی جا ئے تو ہم دوبا رہ تر
قی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں مغرب نے جس طرح پوری دنیا پر ثقافتی یلغار
کی ہے ما دیت کی عالمگیر قوتوں نے شیطانی منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے ایسے
طریقے ایجا د کر لیے ہیں کہ ہر انسان نفس پرستی کے جنون میں مبتلا ہو چکا
ہے موجود ہ دور کی مصنوعی تر قی ‘رنگ و نور کے سیلا ب نے مسلم افراد کے
ایمان کو خطرے میں ڈال دیا ہے برداشت صبر توکل ختم ہو کر رہ گیا ہے ‘دنیا
وی خدا ؤں پر بھروسے کی وجہ اور خدا سے دوری کی وجہ سے ہر فرد ذہنی دبا ؤ
کا شکا ر نظر آتا ہے اِن حالات میں صوفیا کرام کی صحبت ضروری ہو گئی ہے مو
جودہ دور میں نفس پر ستی کی عالمگیر تحریک نے جو سیلاب کی حالت بر پا کر
رکھی ہے اِس سے بچنے کے لیے خدا اور رسول کریم ﷺ سے حقیقی تعلق کے ساتھ
احسان کی کیفیت کو اپنے مزاجوں میں لا نا ہو گا نفس پر ستی خو د پر ستی ہر
دور میں مو جود رہی ہے لیکن مو جو دہ دور میں نفس پر ستی اپنے عروج پر نظر
آتی ہے نفس کے عنصر کو ما رنے کے لیے علما ئے کرام کے ساتھ حق پرست اولیا
کرام کی صحبت میں بیٹھنا ضروری ہو گیا ہے کردار سازی کے اِس گروہ میں شمو
لیت کے بعد ہی قلب و روح کو وہ انوار حاصل ہو تے ہیں جس سے نفس پر ستی کی
داخلی خا رجی قوتوں کا قلع قمع ہو سکتا ہے تصوف پر تنقید کر نے والوں کی خد
مت میں عرض ہے کہ پہلے یہ تو جان لیں کہ تصوف ہے کیا ؟تصوف خدا کو تر جیح
اول بنا نے کا نام ہے خود کو الٰہی رنگ میں ڈھالنے کا نام خدا کو حقیقی ما
لک ماننے کا نام ہے تصوف توپسندیدہ اخلا ق کانام ہے اخلا ق حسنہ کا نام ہے
جس کا جتنا اچھا خلق ہے اُس کو اتنا ہی اچھا تصوف حاصل ہے تصوف یہ ہے کہ
آدمی پر جو کچھ بھی گزرے اُسے خدا کی طرف سے جانے اور خدا کے ساتھ اِس طرح
رہے کہ اُس کے سوا کسی کو نہ جا نے ‘تصوف تو سراسر ادب و احترام اورمحبت ہے
‘ظا ہری با طنی گندگی دور کر نے کا نام تصوف ہے صوفی خو د غر ضی کوتر ک کر
دیتا ہے وہ یہ بھو ل جاتا ہے کہ غرور تکبر کیا ہے ‘ اپنی ذات کی تکمیل کے
بعد وہ دوسرو ں کی تن من سے مدد کر تا ہے ‘تصوف زہداور دنیا سے استغنیٰ
‘تمام امیدیں صرف حق تعالیٰ سے ‘دنیا کی بجا ئے ہر سانس کے ساتھ آخر ت پر
نظر ‘مخلوق خدا سے حقیقی محبت‘ رواداری کا اظہار ‘انسانوں کی اصلاح بہتری
کے لئے ہر لمحہ بے چین ‘کمر بستہ رہنا ‘فہم و فراست سے ایسی کو ششیں کرنا
‘اسلام کے ظا ہری با طنی خدو خا ل پر پورا عمل کر نا ‘تکبر غرور سے پاک ہو
کرعاجز فقیر بن کر معا شرے میں اپنا کر دار ادا کر نا ‘منفی قوتوں کے خلا ف
ہمہ وقت چوکس رہنا ‘متشدد افراد کے خلا ف صبر و برداشت کا اعلیٰ مظا ہر ہ
کر نا ‘رز ق کے لیے صرف حق تعالیٰ پر بھر وسہ کر نا‘ خدا کو ہی مقصود مطلوب
بنا ئے رکھنا ‘سنت رسول ﷺ پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا رہنا ‘حکمرانوں کے
شر سے محفوظ رہنے کے لیے اُن سے دور رہنا ‘اُن کی اصلاح کے لئے متفکر رہنا
‘دنیا وی معا ملات میں دنیا وی خدا ؤں پر بھرو سہ نہ کر نا ‘ہر قسم کے خو ف
سے دور رہنا ‘خدا ئے بزرگ و بر رتر کی محبت ‘اسلام کی فکر ‘آخر ت کی فکر
‘اصلاح معاشرہ کی فکر کے علا وہ تما م فکروں سے آزاد رہنا ‘ہر وقت اپنے
محاسبے پر کمر بستہ رہنا ‘نفس و شیطان کے حر بوں سے ہر وقت چوکنا رہنا
‘شہرت کے عروج پر بھی خو د کو سیا ہ کار گنا ہ گار سمجھنا ‘عاجز رہنا بحث و
مبا حثہ سے پر ہیز کر نا ‘دوسروں کی دل آزاری نہ کر نا‘ محض اﷲ کی محبت کی
خا طر گفتگو کر نا ‘معا شرتی بگا ڑ میں اپنی اصلاح کا خیال کر نا ‘حق و
صداقت کے لیے بڑی سے بڑی قربانی کے لیے تیا ر رہنا ‘حق تعالیٰ کے لیے جینے
مرنے کا حو صلہ رکھنا ‘ہر وقت اﷲ کے دیکھنے کا یقین رکھنا ‘خدا کی کا ئنات
اور خدا کی بنا ئی ہو ئی ہر چیز سے حقیقی پیا ر کر نا ‘یہ تصوف کی تعلیما ت
کا خا صہ ہے لیکن آجکل منکرین تصوف تہمتوں پر تہمتیں لگا تے جا رہے ہیں
‘جنہوں نے تصوف کا ایک قطرہ بھی نہیں چکھا وہ کتنے آرام سے اہل تصوف پر
الزام لگا رہے ہیں ‘جناب آپ فطری طور پر تصوف عشق الٰہی کا رحجان نہیں
رکھتے آپ اُس ذائقے سے محروم ہیں جن سے اہل تصوف ہر وقت دوچار رہتے ہیں
‘دوسری با ت عمران خان کی پیرنی سے شادی تو یہ ایک انفرادی عمل ہے جس سے
تصوف کی شاندار عما رت کو کو ئی نقصان نہیں ہو سکتا ‘ایسے مشکل مرحلے جب
اہل تصوف پر آئے تو انہوں نے خوبصورتی سے اپنا دامن بچا یا ‘ایسا ہی لمحہ
بلھے شاہ ؒ کی زندگی میں بھی آیا مر شد کے حکم پر جب قصور میں سکونت اختیار
کی تو قصور کے نوا ب خاندان جو حکمران تھے کی بہن قیمتی نذر تحا ئف لے کر
آپ کی خد مت میں حا ضر ہو ئی بلھے شاہ ؒ سید زادے تھے ‘تیس سال کی عمر خو
بصورت نوجوان اوپر سے سید زادہ رنگ اورجلا ل ہر وقت چہرے سے ٹپکتا
تھادیکھنے والا سحر میں مبتلا ہو جاتا ‘حکمران رانجھے خان کی بہن نے سید
زادے کو دیکھا آپ ؒ کے حسن کی تاب نہ لا تے ہو ئے دل ہا ر گئی عقیدت مادی
محبت میں تبدیل ہو گئی ‘بو لی آپ ؒ کی شہرت سن کر آئی ہوں مریض عشق ہوں
درویش بے نیاز میری بھی مسیحائی فر مائیں بیما ر عشق ہوں میں قصور کے
حکمران خاندان سے ہوں لیکن آپ ؒ کی کنیز بن جا ؤں تو شان سمجھوں گی ‘عورت
کو مان تھا کہ اُس کے حسب نسب سے بلھے شاہ ؒ متا ثر ہو گا لیکن بے نیاز
درویش نے اپنا منہ مو ڑ لیا ‘عورت بو لی آج پتہ چلا درویش کے سامنے دنیا وی
اقتدار کچھ نہیں ہو تا ‘بلھے شاہ ؒ نے منہ دوسری طرف مو ڑ لیا تو خو برو
عورت بو لی یہ کہاں کی مہمان نوازی ہے کہ آپ ؒ منہ دوسری طرف پھیر رہے ہیں
تو سید زادہ بو لا جیسا سوال ویسا ہی جواب ‘آپ ؒ اپنے قیمتی تحائف واپس لے
جائیں پھر کبھی درویش کو تنگ نہ کریں عورت بو لی میراقصور کیا ہے میری غلطی
بتا ئی جا ئے ‘تو بلھے شاہ بولے کہ آپ کی نیت صاف ہو تو سوکھی رو ٹی بھی
لذیذ کھانوں سے بہتر ہے نیت خراب ہو تو ہیرے جو اہرات بھی مٹی کا ڈھیر ہو
تے ہیں آپ مجھے بیٹا بھی تو کہہ سکتی تھیں چھو ٹا بھا ئی بھی اگر میرے پاس
آنا چاہتی ہیں تو ان میں سے ایک رشتہ بنا لیں عورت بلھے شاہ ؒ کی قوت مکا
شفہ پر ششدرہ گئی تو بہ کی اور بلھے شاہ ؒ کو اپنا منہ بو لا بیٹا بنا لیا
اِس طرح بلھے شاہ ؒ نے فقیری کے رنگ کو داغ دار ہو نے سے بچا لیا۔ |