یوگا بطور پوجا و پرستش:-
"یوگا" محض ایک ورزش نہیں بلکہ اس کی مذہبی حیثیت رہی ہے۔یوگا ایک برہمنی
عبادت و ریاضت ہے، یہ ملک کا نہیں بلکہ ایک خاص طبقہ کا کلچر ہے، جس کی
مضبوط جڑیں ہندو دھرم میں پائی جاتی ہیں۔ ہندوؤں کی مقدس کتابوں،ویدوں اور
بھگوت گیتا وغیرہ میں یوگا کی تعلیمات ہمیں ملتی ہیں۔
جسے ہندوؤں کے مذہبی پیشوا، رشی منی، سادھوسنت اپنے مٹھوں میں برہمنی مذہبی
عقیدہ کے مطابق اپنے چیلوں کے ساتھ بطور فرض روزانہ انجام دیتے ہیں۔ "یوگا"
جسے غلط طور پر ورزش کا نام دیا جا رہا ہے۔یوگا کے مہاگرو یوگی بڑے ہی جاذب
اور دلکش انداز سے اس کی تبلیغ و ترویج میں لگے ہوئے ہیں۔مہا یوگی "یوگا"
کے کئی جسمانی و روحانی فوائد کی پر زور تبلیغ کرتے ہیں،خود ہندو مذہبی
کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ پانچ امور پر مشتمل ہے:
(۱)آسنا :جسم کو خاص ساخت میں ڈھالنا۔
(۲)دھرنا :کسی خاص چیز پر دھیان دینا۔
(۳)دھیانا :آنکھیں بند کر کے مراقبہ کرنا۔
(۴)پرانیا :روح پر گرفت حاصل کرنے کی سعی کرنا۔
(۵)سوریہ نمسکار :دونوں ہاتھ جوڑ کر سورج کو آداب بجا لانا۔
آخر دنیا کی وہ کون سی ایسی ورزش ہے جس میں ان مذکورہ امور کا التزام ہے؟
یوگ کے دوران مذہبی اشلوک کی ادائیگی بھی اس کا حصہ ہے۔ ہندوستان کے مختلف
حصوں میں ہزاروں کی تعداد میں آشرم قائم ہیں اور مزید قائم کیے جا رہے ہیں
اور حکومت کی طرف سے انہیں سرکاری امداد دی جاتی ہے۔اور اس وقت حکومت ہند
بڑے زور شور سے مختلف زبانوں میں"یوگا" کی نشرو اشاعت میں مصروف عمل ہے۔جس
کی تفصیلات آگے آ رہی ہیں۔
برہمنی دھرم کی اصطلاح میں انسان اس کی روح اور پر ماتما کے جوڑ کو یوگ
کہتے ہیں، وِدّوانوں (ماہرین) کی رائے ہے کہ ’’جیو،آتما پرماتما کے مل
جانے کو یوگ کہتے ہیں‘‘ شری کرشن جی نے ارجن جی کو یوگ کی تعلیم دی، بھاگوت
گیتا کا چھٹا باب یوگا پر مشتمل ہے اور اس باب کا نام بھی یوگا ہے ساڑھے
تین سو صفحے کی کتاب بھاگوت گیتا میں تقریباً ڈیڑھ سو صفحات پر چھٹا باب
مشتمل ہے کرشن جی نے ارجن جی کو جہاں یوگا کی تعلیم دی وہی یہ نصیحت بھی کی
کہ "یوگا" "کرمسو کو شیلم" کرم (عبادت) کو مہارت کے ساتھ کرنا یوگا ہے۔
کرشن جی کی یہ نصیحت کا مفہوم یہ ہے کہ یوگی کا یوگا یوگ اس وقت بنتا ہے جب
اس میں مہارت ہو۔
برہمنی دھرم میں شروع زمانے سے "یوگا" کو بہت اہم مقام حاصل ہے، شیوجی کو "یوگا"
کرتے دکھایا گیا ہے اور گیتا مہا بھارت اپنشد وید جیسی بنیادی دھارمک
کتابوں میں "یوگا" کی اہمیت کو بہت مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے، پتنجلی
نے "یوگا" کو ایک فن کی حیثیت دی اور اس کے بڑے فوائد گنوائے ہیں، یوگا کی
بڑی اہم خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس میں دھیان کے ذریعہ گیان کی پراپتی
ہوتی ہے اور منوش اپنی آتما اور اپنے اندر چھپے ہوئے پرماتما کو پا لیتا
ہے اس میں یہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ غیب کی چیزوں کو جان لیتا ہے۔
یوگا کا ایک بڑا مقصد دنیا کی تمام تکلیفوں اور آشائشوں سے الگ ہو جانا
اور پیدائش اور موت کے چکر سے چھٹکارا پا لینا بھی ہے، مہابھارت میں یوگ کے
مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ منوش برہما کی
دنیا میں پرویش کر سکتا ہے (داخل ہو سکتا ہے) یوگا کے جو فوائد بنیادی
دھارمک کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ یوگا روح کو پاک کرتا
ہے یوگی کو روحانی ہدایت حاصل ہوتی ہے روحانیت میں ترقی ہوتی ہے پرماتما
خوش ہوتا ہے یوگی میں ایک غیبی طاقت سما جاتی ہے، یوگی آگ پانی ہوا پر
کنٹرول کر سکتا ہے، یوگی کو پچھلے جنموں کی باتوں کا پتہ چل جاتا ہے، اور
وقت سے پہلے ہونے والے واقعات کا علم ہو جاتا ہے، یوگی کو اپنی موت کے وقت
کی خبر ہو جاتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔
یہ ساری خصوصیتیں جو یوگ کی بیان کی گئیں ہیں ان کا اثر عقیدہ اور عمل پر
پڑتا ہے،
لفظ "اوم" سے یوگا کی ابتدا ہوتی ہے اور ہر مرحلے میں "اوم" کا جاپ ہوتا ہے
لفظ اوم برہمنی عقیدہ کے مطابق پرمیشور(برہما وشنو، مہیش) کو پکارنے کیلئے
بولا جاتا ہے،
یوگا کی یہ شناخت اور پہچان خود بتا رہی ہے کہ یہ ایک مذہبی طریقہ عبادت ہے،
بالفرض اگر اس سے ورزشی فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے تو یہ اس کی ثانوی حیثیت ہے،
اس کی اصل حقیقت تو عبادت و ریاضت ہی کی ہے۔
ابوریحان بیرونی جو قدیم برہمنی مذہب کا ایک مستند مسلم عالم ہے، اس نے بھی
اپنی کتاب ”ما للہند“ عربی برہمنی مذہب کی کتابوں کے حوالے سے "یوگا" پر
مفصل بحث کی ہے۔
اس وقت بھی انٹر نیٹ پر بے شمار کتب و رسائل اور ویبسائٹ موجود ہیں جس میں
یوگا کو بطور مذہبی حیثیت پیش کیا جا رہا ہے۔
ان سب حوالوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ "یوگا" برہمنی رسومِ عبادت پر مبنی
ایک عبادت ہے۔ اس لیے جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ یوگا صرف ایک ورزش ہے عقیدہ،
دھرم اور تہذیب سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، یا تو یہ لوگ "یوگا" کی حقیقت
سے واقف نہیں ہیں، یا جان بوجھ کر جھوٹ بول رہے ہیں، اور اس جھوٹ کے ذریعہ
وہ اپنے نظریہ کو سب پر تھوپنا چاہتے ہیں۔
(جاری ہے۔۔۔۔)
نوٹ:-
یہ مختصر کتابچہ پی ڈی ایف فارمیٹ میں شائع کرنے سے قبل ایک بار قارئین کے
سامنے تبصرہ و تنقید اور تجاویز کے لیے قسط وار پیش کیا جا رہا ہے تاکہ
کوئی کمی بیشی ہو تو وہ پی ڈی ایف فارمیٹ (PDF ) میں تبدیل (convert) کرنے
سے پہلے کر لی جائے۔ اس لیے قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اپنے قیمتی تبصرے و
تنقید، اصلاح و آراء سے آگاہ فرمائیں تاکہ ضروری ترامیم کی جا سکے۔ خاص طور
پر ان لوگوں سے گذارش ہے جو اس کتاب کو ایک عالم کی نگاہ سے پڑھنا چاہتے
ہیں۔ البتہ کوشش کیجئے گا کہ تمام تبصرے 31 مارچ 2018ء تک ارسال کر
دیں۔تاکہ اس کے بعد اس کی پی ڈی ایف فارمیٹ کا اہتمام کیا جا سکے،جزاکم
اللہ خیرا۔
whatsapp: 00923462115913 |