حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے بیوی سے حسن سلوک کی تلقین فرمائی
’’ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اﷲ! میرا
نام فلاں فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے اور میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم واپس چلے جاؤ اور اپنی
بیوی کے ساتھ حج کرو۔
:: بخاری شریف، کتاب الجهاد، 3 : 1114، رقم : 2896=3 : 1094، رقم : 2844
بیوی کے حقوق اور صحابہ کرام کا برتاؤ
زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں مکہ مکرمہ کے سفر میں حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے ساتھ تھا انہیں اپنی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ
بنت ابوعبید کے بارے میں خبر پہنچی کہ وہ سخت بیمار ہیں۔ انہوں نے رفتار
تیز کر دی اور مغرب کے بعد جب شفق غائب ہو گئی تو سواری سے اترے اور مغرب
کی نماز ادا کر کے نماز عشاء بھی اس کے ساتھ ملا کر پڑھ لی اور فرمایا کہ
میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر طے
کرنے میں جلدی ہوتی تو مغرب میں دیر کر کے مغرب و عشاء کو جمع فرما لیتے۔
:: بخاری شریف،2 : 639، رقم : 1711
حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ سے متعلق بیان ہوا ہے۔ حضرت عثمان بہت
عبادت گزار اور راہبانہ زندگی بسر کرنے والے تھے۔ ایک دن ان کی بیوی خولہ
بنت حکیم حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے پاس آئیں، تو اُنہوں نے دیکھا کہ وہ ہر
طرح کے زنانہ بناؤ سنگھار سے عاری ہیں۔ پوچھا کہ کیا سبب ہے؟ بولیں کہ میرے
میاں دن بھر روزہ رکھتے ہیں، رات بھر نمازیں پڑھتے ہیں۔ میں سنگھار کس کے
لیے کروں؟ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے قصہ
بیان کیا۔ اس پر حضور علیہ السلام عثمان کے پاس گئے اور اُن سے فرمایا
عثمان ہمیں رہبانیت کا حکم نہیں ہوا ہے۔ کیا تمہارے لیے میرا طرزِ زندگی
پیروی کے لائق نہیں؟
:: صفوة الصفوه، 1 : 452،ابن جوزی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے مخطاب ہوکر فرمایا
’’خدا کی قسم، میں تمہاری نسبت خدا سے بہت زیادہ ڈرتا ہوں اور بہت متقی
ہوں۔ اس کے باوجود روزہ بھی رکھتا ہوں، اور افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز بھی
پڑھتا ہوں، سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ پس جو میری سنت
سے روگردانی کرے گا، وہ میرے طریقے پر نہیں۔
:: بخاری شریف،کتاب النکاح، 5 : 1949، رقم : 4776
ایک رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ حسبِ معمول شہر میں گشت کر رہے تھے کہ
اُنہوں نے ایک عورت کی زبان سے یہ شعر سنے :
تطاول هذا الليل تسري کواکبه
وارَّقني ان لاضجيع ألاعبه
فواﷲ لولا اﷲ تخشي عواقبه
لَزُحزِحَ من هذا السرير جوانبه
(یہ رات کس قدر لمبی ہو گئی ہے۔ اور اس کے کنارے کس قدر چھوٹے ہو گئے ہیں
اور میں رو رہی ہوں کہ میرا شوہر میرے پاس نہیں ہے کہ اس کے ساتھ ہنس کھیل
کر اس رات کو گزار دوں۔ خدا کی قسم خدا کا ڈر نہ ہوتا تو اس تخت کے پائے
ہلا دیئے جاتے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سُن کر افسوس کیا اور فوراً اپنی صاحبزادی اُم
المؤمنین حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کے پاس گئے اور پوچھا بیٹی! ایک عورت شوہر
کے بغیر کتنے دن گزار سکتی ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا : ’’چار ماہ۔‘‘ اس کے
بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حکم جاری کر دیا کہ کوئی شخص چار ماہ سے
زیادہ فوج کے ساتھ باہر نہ رہے۔ خود قرآن حکیم نے یہ معیاد مقرر کی ہے
:: تاريخ الخلفاء : 139،امام جلال الدین سیوطی |