بچپن زندگی کا سہانہ دور ہوتا ہے۔والدین بچوں کی خواہشات
پوری کرنے کیلیے اپنا تن،من،دھن قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔قدرت نے
والدین کے دل بے انتہا پیار و محبت کے خزانوں سے مالا مال کیے ہیں یہی وجہ
ہے کہ والدین کی اولاد سے محبت تمام رشتوں سے بڑھ کر ہوتی ہے۔بچوں کے
لڑکھڑاتی زبان سے پیار بھرے الٹے سیدھے بول والدین کے لیے کسی خوشیوں کے
انمول خزانے کی طرح ہوتے ہیں جنہیں سننے کے بعد والدین اپنے جگر گوشوں پر
ہر لمحہ صدقے واری جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔والدین فاقے تو برداشت کرسکتے
ہیں مگر اپنے جگرگوشوں کو تکلیف میں برداشت نہیں کرسکتے۔والدین بچوں کا
مستقبل بہتر بنانے میں ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں اوراس سلسلے میں
زندگی بھر کی جمع پونجی بھی لگادیتے ہیں۔معاشی لحاظ سے مضبوط گھرانوں میں
بچوں کو ہر قسم کی سہولیات آسانی سے میسر آتی ہیں البتہ غریب و لاچار
گھرانوں کے والدین اپنے بچوں کو سہولیات فراہم کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور
اکثر و بیشتر بچوں کو مزدوری کرنے پر لگا دیتے ہیں جس کے سبب بچے کم عمری
میں ہی محنت و مشقت کرکے اپنے والدین کا ہاتھ بٹانے کو بہتر گردانتے ہیں
اور اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا۔
غریبی و دولت مندی اﷲ تعالی کی طرف سے ہے، مالک ارض و سماں کے نظام قدرت
اور اس کی تقسیم کے مطابق ہمیں ہرحال میں خوش رہنا چاہیے اور اپنے مالک
حقیقی کا شکر بجا لانا چاہیے۔صاحب دولت افراد کے بچے دنیاوی جنتوں کے مکین
ہوتے ہیں اور والدین کی جانب سے ان کی ہر خواہش لبوں تک آنے سے قبل ہی پوری
کرنے کی بھرپور تگ و دو کی جاتی ہے جبکہ نظام قدرت کا حصہ غریبوں کے بچے
ہوش سنبھالتے ہی گھر کا چولہا جلانے میں والدین کی معاونت کرنے لگ جاتے
ہیں۔ورکشاپوں اور ہوٹلوں پر نظر آنے والے چھوٹے اپنے اپنے گھر کے بڑے ہوتے
ہیں جو ذمہ داریوں کے بھاری وزن کو اپنے نازک کندھوں پر اٹھائے دو وقت کی
روٹی کے حصول کی خاطر اپنا خوشیوں اور من مانیوں سے بھر پور بچپن ہوٹلوں
اور ورکشاپوں میں ملنے والے طعنوں اور جھڑکیوں کی نذر کردیتے ہیں۔ بچپن کا
سہانہ دور جس میں بچوں کے ہاتھوں میں قلم و کتاب کی جگہ مختلف اقسام کے
پانے اور چابیاں نظر آتی ہیں۔رنگ برنگے نئے نئے ملبوسات کی جگہ تیل اور
گندگی سے لبریز کپڑوں میں ملبوس ننھے فرشتے اپنی قسمت سے مایوس ہوکر دنیا
کی رنگینیوں کو پس پشت ڈال کر اپنے گھر کا چولہا جلانے میں ہمہ تن مصروف
دکھائی دیتے ہیں۔گنتی اور حروف تہجی پڑھنے اور یاد کرنے کے دنوں میں یہ
معصوم بچے پیٹ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے پانے، چابیوں کے سائز اور
نمبر یاد کررہے ہوتے ہیں۔چند ٹکوں کی خاطر اپنا بچپن قربان کرنے کے ساتھ
ساتھ یہ معصوم و لاچار بچے گالیاں، جھڑکیں، طعنے، حتیٰ کہ جسمانی تشدد بھی
ہنس کر برداشت کر لیتے ہیں۔ بچوں پر ہونے والے اس ظلم و ستم کا ذمہ دار کون
ہے؟کیا غریب کے گھر پیدا ہونا ہی ان کا جرم ٹھہرا؟
متعدد ممالک میں قوانین موجود ہیں جس کے مطابق بچوں کے وظائف مقرر کیے جاتے
ہیں،راشن و اشیاء ضروریہ کی فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے مگر وطن عزیز
پاکستان میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں بلکہ یہاں تو ہر پیدا ہونے والا
بچہ اپنی پیدائش سے قبل ہی مقروض ہوچکا ہوتا ہے۔چائلڈ لیبر کے خاتمے کے
حوالے سے ارباب اختیار کے بلند و بانگ دعوے صرف دعوے ہی نظر آتے ہیں۔چائلڈ
لیبر کا خاتمہ کرنا انتہائی ضروری ہے بصورت دیگر بچوں کے مستقبل یونہی تباہ
ہوتے رہیں گے۔ چائلڈ لیبر کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو آئندہ کوئی بچہ
ارفع کریم نہیں بن پائے گا۔1996 کے اعداد و شمار کے مطابق تقریبا 33 لاکھ
بچہ مزدور تھے جس کی تعداد روز بروز بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ بدقسمتی سے
ہمارا ملک پاکستان ان ممالک کی لسٹ میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ بچے چائلڈ
لیبر کا حصہ بننے پر مجبور ہیں۔اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں سے کام کروانا
قانونی طور پر جرم ضرور ہے مگر اس کے باوجود فیکٹریوں ، کا رخانوں ، ہوٹلوں
اور ورکشاپس میں کم عمر بچوں کی کثرت دکھائی دیتی ہے۔چائلڈ لیبر ایک ایسا
المیہ بن چکا ہے جس کے خاتمے کی طرف بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
بچوں کا مستقبل محفوظ بنائے بغیر ملک کے روشن مستقبل کی ضمانت نہیں د ی
جاسکتی۔جب تک ہماری نئی نسل چائلڈ لیبر کی صورت میں اپنا حال ضائع کرتی رہے
گی ہمارا مستقبل تابناک نہیں ہو سکتا۔ارباب اختیار کوبچوں کے مستقبل کی
فکرکرتے ہوئے ایسا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے جس سے چائلڈ لیبر کا خاتمہ
ہوسکے اور غریبوں کے بچے بھی دوسرے بچوں کی طرح بہترین زندگی گزارسکیں۔
چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے خلوص نیت سے تگ و دو کرناہوگی ۔حکومت کی جانب
سے چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے خصوصی اقدامات کرنا ہوں گے۔میٹرک تک مفت
تعلیم اور مفت کتابوں کی فراہمی قابل تحسین عمل ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ
غریب بچوں کا ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جائے تاکہ دو وقت کی روٹی کے لیے انہیں
کم عمری میں ہی مشقت نہ کرنی پڑے۔ہنر مندانہ تعلیم کے مراکز زیادہ سے زیادہ
بنائے جائیں جہاں بچے تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف اقسام کے ہنر سیکھ کرتعلیم
سے فراغت کے بعدآسانی سے والدین کا ہاتھ بٹاسکیں۔بچے ہمارا قومی سرمایہ ہیں
اور اس سرمائے کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ بچوں کی معاشی معاونت، تعلیم
و تربیت اوررہنمائی میں جہاں تک ممکن ہو انفرادی و اجتماعی کردار ادا کرنا
ہوگا تاکہ نئی نسل کا مستقبل سنور سکے اور وطن عزیز پاکستان کا مستقبل
تابناک ہو ۔
|