بحیثیت ایک عورت اگر میں اپنا تعارف کراؤں تو میں سماج کا
کوئی معمولی فرد نہیں بلکہ پوری کائنات ہی کو دیکھ لیں جہاں میں رنگ، محبت،
وفا اور خدمت ہمارے دم سے قائم ہے جب گھرکے آنگن میں چھوٹے چھوٹے قدم
اٹھاتی ننھی پری بابا کی جانب لپکتی ہے تو بابا سارے جہاں کی پریشانی بھول
جاتے ہیں۔
بیٹی زندگی کے کسی شعبے میں اعلیٰ مقام بناتی ہے تو باپ کا سرفخر سے بلند
ہوجاتا ہے تنگی وترشی میں جب شریک حیات حوصلہ افزائی کرتی ہے تو شوہر ایک
نئے عزم کے ساتھ زمانے سے مقابلے کی ہمت پاتا ہے اورماں بن کر ایک پورے
معاشرے کی آبیاری کرتی ہے، اپنے بچوں کو سماج میں کارآمد فرد بنا کر دنیا
کی خو بصورتی میں اپنا حصہ شامل کرتی ہے،کیا یہ ممکن ہے کہ دنیا میں کوئی
توازن ان سب کے بغیر قائم ہوسکے، ہر گزنہیں! مگر جب انسان کسی بھی توازن کو
بگاڑنے کی کوشش کرتا ہے تو خلا اس کے اندر اور تباہی معاشرے میں بھی پیدا
ہو تی ہے جو سب ہی کے اوپر اثر انداز ہوتی ہے کیونکہ ہم سماجی جانور ہیںا
یک دوسرے سے جڑ ے ہیں جب اللہ نے مرد و عورت کو مساوی پیدا کیا۔
انھیں احساسات وجذبات کا وجدان برابر عطا کیا، چوٹ لگنے پر تکلیف اور خوشی
ملنے کا احساس ایک ساعطا فرمایا تو ایک جیسے حقوق بھی حاصل ہونے چاہیے ہاں
البتہ میرے رب نے ذمے داری اورکام کی نوعیت کچھ بدل دی ہیں لیکن! اصل کام
اب بھی عورت کے ہا تھ میں ہے کہ کچے برتن کو مضبوط بنا کردنیا کے سامنے وہ
ہی پیش کرتی ہے اس کی ذہنی تربیت ماں کے فرائض میں شامل رہتی ہے پھرکمی
کہاں رہ جاتی ہے جو مرے ہاتھوں سے بنے پتھرکے صنم بت خانوں میں خدا بن کر
بیٹھ جاتے ہیں۔کیا یہ دنیا کا دستور ہے جو اسے باہرکی ہوا سکھاتی ہے کیوں
جب مرد با اختیار ہوجاتا ہے تو وہ عورت کو اپنے سے کم درجے کی شہری سمجھنے
لگتا ہے اسے برابری کے حقوق دینے سے کتراتا ہے۔
خواتین آبادی کے لحاظ سے پا کستان کا نصف ہیں لیکن اس کے باوجود انھیں
برابری کے حقوق حاصل نہیں، عورت سے حسن سلوک کے بارے میں ہمارا مذہب میں
بڑے واضح انداز میں احکامات موجود ہیں۔
دین اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے جس نے خواتین کے باقاعد ہ مہر مقررکیے اور
ان کی ادائیگی پر زور دیا، ان کو جائیداد میں حقدار ٹہرایا، مرد اور عورتوں
کی تعلیم لازمی کو قراردیا۔ ماں کے قدمو ں تلے جنت رکھ دی جب یہ بات ثابت
ہوچکی کہ اسلام میں عورتو ں اور مردوں کے بارے میں نقطہ نظر یکساں ہے، اس
کے باوجود اسلام پر یہ الزام لگانا کہ اس نے عورتوں کوکم درجہ دیا یہاں
غلطی دین اسلا م میں نہیں بلکہ اس کے ماننے والوں کی ذاتی مفادات ہیں۔
ہم سب دین اسلام کے پیروکارہیں لیکن جب خواتین کے حقوق کی بات آتی ہے تو
مذہبی ا حکامات کا خیال نہیں ر کھا جاتا ۔ یاد رہتا ہے تو یہ کہ مرد کے لیے
اسلام میں چار شادیاں جائز ہیں اورجائیداد میں بیٹی کو جہیزکی صورت میں
اتنا کچھ دے دیا گیا ہے کہ اب دینے کی گنجا ئش نہیں۔
دنیا کی نسبت ہمارے ہاں اس حوالے سے زیادہ تعصب پایا جاتا ہے مختلف رسم
ورواج کے نام پرخواتین کے استحصال کا سلسلہ جاری ہے معاشرے میں خواتین پر
مختلف طریقوں سے تشدد کے نت نئے ڈھونگ رچائے جاتے ہیں کبھی انھیں کم جہیز
لانے پر ذہنی اور جسمانی اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہیں چولھا پھٹنے کے
نام پر جلانے کے واقعا ت عام ہیں تیزاب پھینکنے کے درجنوں کیسز سامنے آئے
مگر ایک بھی ملزم کیفرکردار تک نہ پہنچا۔
اسمبلی نے تیزاب گردی کے مجرم کے لیے قانون پاس کیا اب تک کوئی عمل درآمد
نہیںہوسکا۔ سندھ اور پنجاب کے با اثرگھرانوں میں جائیداد بچانے کی خاطر
خواتین کی قرآن سے شادی کے واقعات عام ہیں یہ رسمیں ان خاندانوں میں عام ہے
جہاں کے مرد حضرات باہر سے پڑھ لکھ کر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ہماری سیاست
اور قانون بنانے والے کرتا دھرتا بھی یہی ہیں۔
ماضی کی فرسودہ رسم ورواج آج بھی عورت کو اپنے شکنجے میں جکڑے ہوئے
ہیں،کاروکاری، ونی، سوارا جیسی رسمیں بھی موجود ہیں ہر سال سیکڑوں عورتیں
ان کی بلی چڑھتی ہیں پنچایت اور جرگے کے ہاتھوں ظلم وجبر سہنے والی بے شمار
خواتین کی مثال ہمارے اردگرد موجود ہیںاورایسے کتنے کیسزجن کی کبھی رپورٹ
درج ہی نہیں کرائی گئی۔
ملک میں جو قوانین بنائے جاتے ہیں وہ ایسے پیچیدہ ہیں یا پھر انھیں استعمال
کرنے والے اپنی مرضی سے تو ڑ مرو ڑکر اپنے حق میںاستعمال کرلیتے ہیں ۔ ان
کی مثالیں آئے دن میڈیا واخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں گھریلو تشدد اور
خاندان کے جبرکے ساتھ ریاستی قوانین، حدود آرڈینس، قصاص ودیت ،آدھی شہادت
، غیرت کے نام پر ہونے والے قتل پر رعایت ، عورتوں پر ریاستی جبروتشدد کی
آئینہ دار ہے، ان قوانین کا سہارا لے کر ہر سال سیکڑوں جرم ہوتے ہیں مگر
ثبوت کی عدم فراہمی کے بناء مجرم کو سزا دینے کا اختیار قانون کے پاس بھی
نہیں ہوتا یہ بے بسی ان اداروں کا اصل روپ دکھاتی ہے۔
ہم ایک ترقی یافتہ دورکے باسی ہیں پوری دنیا کی طرح پا کستان میں بھی مختلف
تنظیموں اوراداروں کی جانب سے خواتین کے مسائل کے لیے احساس اورآگہی کی
منا سب کوششیں کی جاتی ہے ہمارے معاشرے کی چند باعمل خواتین ہمیں احساس
دلاتی ہیں کہ ابھی منزل بہت دور ہے مگر انھی خواتین کی انتھک محنت کا نتیجہ
ہے کہ آج خواتین پہلے سے زیادہ خود اعتماد و بااختیار ہوئی ہے اپنی بچیوں
کو ہر شعبہ زندگی میں کامیاب بنانے میں ممد ومعاون بن رہی ہیں۔
امید ہے ہماری اگلی نسل ہم سے زیادہ بہتر پاکستان کی کارآمد شہری
کاکرداربڑی ذمے داری وخوش اسلوبی سے سنبھالے گی، آخرہم سماج کا کوئی
معمولی فرد نہیں کہ کائنات میں رنگ ، محبت، وفا اور خدمت ہمارے دم سے ہے۔ |