تحریر۔۔۔نرجس بتول علوی
وفا بی اے کے آفس میں آتی ہے بی اے سے باتیں کرتے ہوں بی اے میں کل انگلیڈ
جا رہی ہوں کمپنی سے بات ہو گی ہے فلم کے لیے چھ مہینے تک کام کرنا ہے
انگلیڈ میں بی اے لمبی سانس لیتا ہے اپنی کرسی سے اٹھ کر اس کا مطلب تم
مجھے اب بتا رہی ہو پہلے تم نے مجھے بتانا پسند تک نہیں کیا میری فلم تیرے
بن کیا جینا کا کیا ہو گا جس کی تم ہیروین ہو اور مجھ سے پہلے ہی ایگری منٹ
کر چکی ہو اس کو چھوڑو تمھیں میرا خیال نہیں آیا کہ میرا کیا ہو گا تمھارے
بغیر میرا پل گزرانا مشکل ہے چھ مہینے کیسے گزریں گے وفا اپنی کرسی سے اٹھ
کر بی اے کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیتی ہے بی اے تم پریشان کیوں
ہو رہے ہو یہ مہینے چٹکی میں گزر جائیں گے اور بی اے دوری کیسی جب ہم ایک
ہیں جب ہماری روحیں ایک ہیں ہماری سانسیں ایک ہیں ہمارے دل کی ڈھڑکنیں ایک
ہیں محبت کرنے والے دور ہوں یا پاس لیکن محبت کم نہیں ہاں دلوں میں احساس
زندہ رہینے چاہیے، وفا بی اے سے کہتی ہے بی اے تم مجھے اپنی دعاؤں میں یاد
رکھا کرو بی اے وفا کے منہ پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوے کہتا ہے ارے پگلی تم
خود ہی میری دعا ہو بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تم میری دعاؤں کا صلہ ہو
وفا بی اے سے تم میری زندگی بلکہ تم میری دنیا ہو بی اے وفا کے ہاتھوں کو
پیار سے تھام کر میرے ساتھ وعدہ وفا نبھانا ضرور مجھے کسی موڑ پر بھول مت
جانا پھر بی اے جا کر اپنی گیٹار اٹھا کر لاتا ہے اور اپنی کرسی کے پاس
کھڑا ہو جاتا ہے وفا یہ دیکھ کر ہلکی سی مسکراتی ہے بی اے آج میں تمھیں وہ
گانا سناؤ گا کہ تم واپس آنے تک یاد رکھو گی ،،بی اے مجھے دل سے نہ بھلانا
چاہے روکے یہ زمانہ،تیرے بن میرا جیون کچھ نہیں،،وفا یہ گانا سن کر رونے
لگتی ہے بی اے گیٹار رکھ کر وفا کے پاس آ کر اس کے آنسو صاف کرتا ہے اور
کہتا ہے وفا میرے ہوتے ہوئے یہ آنسو تیری آنکھ سے نہ نکلیں وفا تو پاکسان
سے انگلیڈ چلی جاتی ہے وفا کو ابھی انگلیڈ گے ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ بی اے
وفا سے دوری کی وجہ سے بیمار ہو گیا بی اے جو کے اپنے کمرے میں اپنے بیڈ پر
لیٹا ہوا ہے اس کی پھوپھو کمرے میں آتی ہیں تو بی اے کی آنکھیں نم ہیں جیسے
کہ وہ رو رہا ہو پھوپھو یہ دیکھ کر بی اے کا سر اپنی گود میں لے لیتی ہے
کیا ہوا میرے لال کو رو رہا تھا نہیں پھوپھو رو نہیں رہا تھا بس آج امی ابو
جی بہت یاد آ رہی تھی پھوپھو کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں کیا میرے
پیار میں کوئی کمی رہ گئی تھی کہ میرے بیٹے کو کو والدین کی یاد آنسو رہی
ہے بی اے اٹھ کر اپنی پھوپھو کے آنسو صاف کرتا ہے اور پھوپھو آپ سے ایک بات
پوچھوں پھوپھو جی بیٹا بی اے پھوپھو اگر انسان کسی سے بے پناہ محبت کرتا ہو
اس کے بارے میں دن رات سوچتا ہو بلکہ کوء لمحہ بھی اس کی یاد سے غافل نہ ہو
سانس بھی اس کا نام لے کر چلتی ہو اور وہ کہیں دور چلا جائے تو پھوپھو پھر
کیا کرنا چاہیے پھوپھو بی اے کو حیران ہو کر دیکھتی ہے بیٹا اس کا انتظار
کرنا چاہیے اور ہاں اس کو پتہ ہونا چاہیے کہ یہ انسان اس سے کتنی محبت کرتا
ہے کیا وہ بھی اتنی محبت کرتا ہے یا پھر یک طرفہ محبت ہے بیٹا محبت کی نہیں
جاتی بلکہ ہو جاتی ہے محبت بتائی نہیں جاتی بلکہ محسوس کی جاتی ہے جو کہ
خوشبو کی طرح ہوتی ہے یہ اگلے کے وجود کو مطہر کر دیتی ہے اور دل کو بے
قرار کر دیتی ہے۔( جاری ہے)۔ |