سرفراز سٹریٹیجک ٹائم آؤٹ لینا چاہتے تھے، یا شاید کیون
پیٹرسن۔ لیکن راحت علی بولنگ مارک پہ تیار کھڑے تھے۔ امپائر اپنی جگہ
کنفیوز تھے۔ ایک بار تو کمنٹری باکس سے ٹائم آؤٹ اناؤنس بھی کر دیا گیا۔
لیکن اس الجھن بھرے ماحول میں بھی فخر زمان کا دھیان نہیں بٹا۔ سٹرائیکر
اینڈ پہ کھڑے، وہ مختلف شاٹس کی پریکٹس کر رہے تھے۔
|
|
کچھ ہی دیر بعد طے پایا کہ سٹریٹیجک ٹائم آؤٹ لینے میں کہیں غلط فہمی ہو
گئی۔ ابھی نہیں، راحت علی کے اس اوور کے بعد سٹریٹیجک وقفہ لیا جائے گا۔
راحت علی نے اپنا اوور شروع کیا اور فخر زمان پہلے سے بھی زیادہ دلکش شاٹس
کھیلنے لگے۔ تین چھکوں اور ایک چوکے کے طفیل، فخر زمان نے راحت علی کے اس
اوور سے 24 رنز بٹورے۔
اس کے بعد سٹریٹیجک بریک آ گئی۔ تین منٹ پہ محیط اس وقفے میں کوئٹہ کی ٹیم
کو ڈریسنگ روم سے کوئی مشاورت فراہم کی گئی۔ لاہور کے دونوں بلے بازؤں کو
بھی کوئی پیغام پہنچایا گیا۔ پانی پی کر، تازہ دم فخر زمان سٹرائیک پر آئے
تو اس وقت وہ 49 گیندوں پہ 94 رنز بنا چکے تھے۔
کوئٹہ نے بریک کے بعد انور علی کو گیند تھمایا۔ انھوں نے آف سٹمپ چینل سے
تھوڑا باہر ایک سلو ڈلیوری پھینکی، فخر زمان نے جسم سے کافی دور شاٹ کھیلنے
کی کوشش کی اور لانگ آف پہ کیچ آؤٹ ہو گئے۔
اور شارجہ کرکٹ گراؤنڈ پہ چھایا طلسم ٹوٹ گیا۔
بریک سے پہلے جو روانی فخر زمان کی اننگ میں نظر آ رہی تھی، لگ یہ رہا تھا
کہ تیسرے سیزن کی پہلی سینچری بن جائے گی اور شاید پہلی بار دو سو سے زیادہ
رنز بھی۔ لیکن بریک کے دوران نجانے ایسا کیا پیغام آیا کہ ساری روانی ہوا
ہو گئی اور فوراً ہی فخر زمان آؤٹ ہو گئے۔
آخر اس سٹریٹیجک ٹائم آؤٹ کی ضرورت ہی کیوں
پڑتی ہے؟
گو ون ڈے میں بھی 16 اوورز کے بعد پانی کا وقفہ ہوتا ہے، جو اپنی نوعیت کی
ایک سٹریٹیجک بریک ہی ہے، لیکن جہاں ایک اننگز میں اوورز ہی بیس ہوں، وہاں
دس اوورز کے بعد بریک چہ معنی دارد؟
اور یہ الجھن تب بڑھ جاتی ہے جب یہ تین منٹ کا وقفہ میچ کے تسلسل پہ اثر
انداز ہونے لگتا ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ اگر اس بریک سے پہلے رنز کا
قال پڑا ہو تو بریک کے بعد اچانک رنز کی برسات ہونے لگتی ہے۔ ملتان اور
اسلام آباد کے میچ میں بریک کے بعد پولارڈ کا بلا چلنے لگا۔ اور پھر یہ بھی
دیکھا گیا ہے کہ بریک سے پہلے اگر مار دھاڑ ہو رہی ہو تو، بریک کے بعد
وکٹیں گرنے لگتی ہیں۔ گویا مومینٹم شفٹ ہو جاتا ہے۔
|
|
’سٹریٹیجک ٹائم آؤٹ‘ نامی آئی پی ایل کی اس اختراع کے بارے میں کافی سازشی
مفروضے موجود ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ حسن ظن پہ مبنی مفروضہ یہ ہے کہ بھلے
ٹائم آؤٹ کی آڑ میں کھیل میں ملاوٹ نہ بھی کی جاتی ہو، ذرا ٹوئیسٹ سا ضرور
دیا جاتا ہے تا کہ اندازے مشکوک ہو جائیں۔
کرکٹنگ حقائق کے سامنے یہ مفروضے کس قدر
وزن رکھتے ہیں؟
کرس لن کہتے ہیں کہ کئی بار ایسا ہوتا ہے، انھیں پتا ہی نہیں ہوتا کہ وہ
کیا کر رہے ہیں۔ وہ بس ہر گیند کو غور سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور بلا زور سے
چلا رہے ہوتے ہیں۔ میچ کے بعد اپنی ہی اننگ ٹی وی پہ دیکھ کے انھیں یقین
نہیں آتا کہ یہ شاٹس انہوں نے ہی کھیلے۔
مائنڈ سائنسز میں پلئیر کی اس کیفیت کو ’فلو‘ یعنی روانی سے تعبیر کیا جاتا
ہے جس میں کھلاڑی مکمل طور پر اس لمحے کے اندر موجود ہوتا ہے۔ جہاں وہ کھیل،
کھیل نہیں رہا ہوتا بلکہ خود کھیل بن جاتا ہے۔
فخر زمان کی یہ اننگز اندھا دھند مار دھاڑ سے آراستہ نہیں تھی۔ اس میں صرف
جوش نہیں تھا۔ انھوں نے ہر گیند کو میرٹ پہ کھیلا، اور ہر شاٹ نے دل کو موہ
لیا۔
جس اوور میں انھوں نے راحت علی کو تین چھکے لگائے، وہیں بیچ میں اچانک ایک
غیر متوقع سا باؤنسر بھی آیا، فخر زمان نے بلے کو حائل کیے بغیر اسے بہت
اچھی طرح چھوڑا۔
لیکن تین منٹ کے وقفے نے ان کے فوکس کو ایسے غیر محسوس انداز میں متاثر کیا
کہ تین منٹ بعد جب انھوں نے انور علی کو وہ شاٹ کھیلا، تب تک ان کا ’فلو‘
ختم ہو چکا تھا، وہ بریک سے پہلے والے فخر زمان نہیں تھے۔ اگر وہی گیند
سٹریٹیجک ٹائم آؤٹ سے پہلے ان کے سامنے گرا ہوتا تو یقیناً باؤنڈری کے پار
جا گرتا۔
فخر زمان انور علی کے ہاتھوں آوٹ نہیں ہوئے، تین منٹ کے وقفے نے انھیں ان
کے ’فلو‘ سے آوٹ کر دیا۔
|