روہنگیا مہاجرین کی واپسی کا معاہدہ……

میانمار حکومت کے جرائم دھونے کی کوشش!

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر تاریخ انسانی کے بدترین مظالم ڈھائے گئے ہیں۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو نشانے لے کر فائرنگ سے قتل کیا گیا، ان کے گھر جلا دیے گئے، گرینیڈ سے حملے کیے گئے، تیز دھار آلات کی مدد سے اور تشدد کر کے مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور لوگوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی سب سے مظلوم قوم قرار دیا جاچکا ہے اور ان کی نسل کشی کی دنیا بھر کی جانب سے مذمت بھی کی جاچکی ہے۔ اقوام متحدہ نے میانمار کی صورتحال کو نسل کشی کی ’’کتابی مثال‘‘ قرار دیا۔ میانمار حکومت نے انسانی حقوق کے تفتیش کاروں کو رسائی دینے سے انکار کیا، اس لیے حالات کا درست جائزہ نہیں لیا جا سکا۔ گزشتہ سال کے آخر میں یورپین پارلیمنٹ میں روہنگیا بحران پر کانفرنس میں شرکاء نے روہنگیا کی نسل کشی کو اکیسیوں صدی کا سب سے بڑا المیہ قرار دیتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے اس معاملے میں سنجیدگی سے قدم اٹھانے کی اپیل کی تھی۔ گزشتہ سال اگست سے قریباً سات لاکھ روہنگیا مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر پڑوسی ملک بنگلا دیش میں جا چکے ہیں، جہاں وہ انتہائی مشکلات میں زندگی کے دن گزار رہے ہیں، کیونکہ بے یارو مدگار کیمپوں میں پڑے ہیں، جہاں ایک طرف غذائی اشیاء کی شدید قلت ہے تو دوسری جانب بیماریوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے بچے اور خواتین سمیت سیکڑوں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اگست 2017ء سے پہلے ہی قریباً تین لاکھ روہنگیا مسلمان بنگلا دیش کے جنوب مشرق میں واقع کیمپوں میں رہ رہے تھے اور اب ان تمام مہاجرین کی تعداد دس لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔ ان میں کی اکثریت انتہا ئی نامساعد حالات میں مختلف عالمی اداروں کی جانب سے ملنے والی امدادی خوراک پرگزارہ کررہی ہے۔بنگلا دیش میں روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں سے انسانی اسمگلنگ کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک ہزاروں پناہ گزین لڑکیاں انسانی اسمگلنگ کے اس مکروہ دھندے کا شکار ہوچکی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق انسانی اسمگلنگ کے گروہ روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں میں کئی سالوں سے کام کر رہے ہیں، لیکن 6 لاکھ 50 ہزار سے زاید پناہ گزینوں کی حالیہ آمد نے انسانی اسمگلنگ کی صورتحال کو بدتر کردیا ہے۔ الجزیرہ کی جانب سے ایک انسانی اسمگلر سے گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ پناہ گزینوں کے کیمپ میں باہر سے لوگ آتے ہیں اور روہنگیا مہاجرین کی بیٹیوں کو کام دینے کے عوض رقم ادا کرنے کا وعدے کرتے ہیں، لیکن پھر وہ لڑکیاں کبھی یہاں نظر نہیں آتیں۔ انسانی اسمگلر نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ ہمارے پاس مرد آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم یہاں نادار لوگوں کی مدد کرنے آئیں ہیں، جس کے بعد کیمپوں میں موجود خاندان اپنی لڑکیاں انہیں فراہم کرنے کو راضی ہوجاتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس کھانے کو خوراک تک موجود نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کے تحت پناہ گزینوں کے ادار ے ( یو این ایچ سی آر ) کے سائٹ پلانر فلپ ہوبنر نے ان کیمپوں کی ڈرون سے ایک فلم بنائی ہے۔ اس کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ روہنگیا کا بحران اب ڈرامائی طور پر سنگین ہوچکا ہے۔ میانمار اور بنگلا دیش کے درمیان ان لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کی مہاجر کیمپوں سے وطن واپسی کے لیے چند ہفتے قبل ایک سمجھوتا طے پا یا تھا۔ اس کے تحت روہنگیا مسلمانوں کی میانمار میں واپسی شروع ہونے کے بعد تمام عمل دوسال میں مکمل ہوگا۔ اس سمجھوتے کا اطلاق اکتوبر 2016ء میں میانمار کی ریاست راکھین ( اراکان) میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف برمی سکیورٹی فورسز اور بدھ مت انتہا پسندوں کے حملوں کے بعد دو مراحل میں بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد پر ہوگا۔ اس کا اطلاق ان روہنگیا مہاجرین پر نہیں ہوگا جو اس تاریخ سے پہلے سے بنگلا دیش میں رہ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق ان روہنگیا مہا جرین کی تعداد دو لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ روہنگیا مہاجرین کو میانمار اپنے آبائی علاقوں کو واپسی کے لیے اس فارم کو پْر کرنا ہوگا۔ دونوں ملکوں کے درمیان اس سے پہلے نومبر میں 23 جنوری سے روہنگیا کی واپسی کے لیے سمجھوتا طے پایا تھا، لیکن سرحد پار سے مہاجرین کی نقل وحمل میں درپیش چیلنجز کی وجہ سے اس ڈیڈ لائن تک آپریشن شروع نہیں ہوسکے گا۔ میانمار کی حکومت کو اس کی فوج کے وحشیانہ کریک ڈاؤن کے نتیجے میں مہاجرت کی زندگی اختیار کرنے پر مجبور ہونے والے لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کی واپسی کے لیے سخت عالمی دباؤ کا سامنا ہے۔ عالمی دباؤ کی وجہ سے میانمار کی حکومت نے عہد ظاہر کیا ہے کہ وہ ان مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے اقدامات کرے گی۔ تاہم کہا گیا ہے کہ ان مہاجرین کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ راکھین ریاست سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ امدادی اداروں نے کہا ہے کہ بہت سے روہنگیا مسلمان افراد کے لیے یہ ثابت کرنا مشکل ہو گا کہ ان کا تعلق میانمار کے مغربی صوبے راکھین سے ہی ہے۔ اس تناظر میں یہ امر اہم ہے کہ ان روہنگیا افراد کو میانمار کی شہریت حاصل نہیں ہے اور بہت سے روہنگیا افراد کے لیے یہ شواہد فراہم کرنا مشکل ہو سکتا ہے کہ وہ گزشتہ برس شروع ہونے والے ریاستی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ہی میانمار سے نکل کر بنگلا دیش گئے تھے۔ میانمار کے سرکار ی میڈیا کی اطلاع کے مطابق حکومت نے راکھین کے ضلع مونگڈا میں ایک عارضی کیمپ قائم کیا ہے۔اس کیمپ میں 625 عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں اور وہاں قریباً تیس ہزار افراد کو ٹھہرایا جائے گا۔اس کے بعد انھیں مستقل ان کے آبائی علاقوں میں آباد کیا جائے گا۔ تاہم میڈیا کا کہنا ہے کہ ان میں سے ابھی تک بہت تھوڑی تعداد میں عمارتیں مکمل ہوئی ہیں۔

میانمار میں سرکاری سیکورٹی فورسز اور بدھ مت انتہا پسندوں کی سفاکانہ تشدد آمیز کارروائیوں کے نتیجے میں گزشتہ سال اگست سے قریباً سات لاکھ روہنگیا مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر پڑوسی ملک بنگلا دیش میں جا چکے ہیں، جہاں وہ اس وقت گنجان آباد مہاجر کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ بنگلا دیش میں مہاجر کیمپوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ تعداد میں روہنگیا مسلمانوں رہ رہے ہیں، لیکن اس طرح کسمپرسی کی حالت میں رہنے کے باوجود بہت سے مہاجرین میانمار میں اپنی آبائی ریاست راکھین کی جانب لوٹنے کو تیار نہیں، کیونکہ انھیں یہ خدشہ لاحق ہے کہ واپسی کی صورت میں انھیں ایک مرتبہ پھر برمی سیکورٹی فورسز اور بدھ مت انتہا پسندوں کے مظالم اور تشدد آمیز کارروائیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ان میں سے بیشتر کے گھر بار جل چکے ہیں یا منہدم کردیے گئے ہیں، بلوائیوں نے ان کی املاک لوٹ لی تھیں اور ان کے کاروبار تباہ کردیے تھے۔میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر جتنے مظالم ڈھائے گئے ہیں، ان میں وہاں کی حکومت اور فوج پیش پیش تھی۔ برما کی فوج نے نہتے مسلمان نوجوانوں، بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو چْن چْن کر بے دردی سے قتل کیا گیا۔ ایسے ہی 450 مسلمانوں کی 5 اجتماعی قبریں راخائن کے گاؤں ’’گاؤدرپین‘‘ ’’اوران ڈین‘‘ میں ملیں۔ برمی فوج نے روہنگیا مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا اور نعشیں گڑھا کھود کر ڈال دیں۔ نعشوں کی شناخت مٹانے کے لیے ان پر تیزاب یا گوشت اور ہڈیاں گلانے والا کیمیکل ڈالا گیا۔ بعض کو پٹرول ڈال کر آگ لگائی گئی۔ روہنگیا مسلمانوں کا برمی فوج نے منظم طریقے سے قتل عام کیا۔ اس کام میں مقامی بدھ بھکشوؤں نے ان کی مدد کی۔ اس سے قبل برما کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کے قتل اور اجتماعی قبروں میں دفنانے کی تردید کرتی رہی ہے، تاہم کچھ عرصہ قبل میانمار کی فوج باقاعدہ طور پر تسلیم کرچکی ہے کہ 10 مسلمانوں؂کو حکومتی سیکورٹی دستوں کے ارکان اور بودھ دیہاتیوں نے قتل کیا تھا۔ میانمار کی فوج کا یہ بیان اپنی نوعیت کا پہلا اعتراف ہے کہ گزشتہ برس اگست کے اواخر سے راکھین میں روہنگیا مسلم اقلیت کے خلاف جو کریک ڈاؤن شروع کیا گیا تھا، اس دوران ملکی فوج قتل و غارت میں بھی ملوث رہی تھی۔ اقوام متحدہ کی طرف سے اس کریک ڈاؤن کو میانمار میں سیکورٹی دستوں کی طرف سے روہنگیا اقلیت کی ’نسلی تطہیر‘ کا نام بھی دیا جا چکا ہے۔ اقوام متحدہ، امریکا اور کئی بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے میانمار کی فوج پر یہ الزامات بھی لگائے جاتے ہیں کہ وہ راکھین میں روہنگیا مسلم اقلیتی باشندوں کے وسیع تر قتل، خواتین کے ریپ اور ان باشندوں کے سینکڑوں گھروں کو جلانے کی مرتکب ہوئی تھی۔ اس کے برعکس میانمار کی فوج اب تک یہ اصرار کرتی رہی تھی کہ وہ اس پورے تنازعے میں کسی بھی قسم کے غلط اقدامات کی مرتکب نہیں ہوئی تھی۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کے مطابق میانمار کی فوج کی جانب سے دن نامی گاؤں میں ملکی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں دس روہنگیا مسلمانوں کے قتل کا اعتراف اس برادری کے خلاف وسیع تر بنیادوں پر تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی کارروائیوں کا ایک نہایت چھوٹا سا حصہ ہے اور حقیقت اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہے۔ امریکا نے میانمار کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کی تردید کو احمقانہ قراردیتے ہوئے اقوام متحدہ پر زوردیا ہے کہ میانمار کی فوج کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے اور اس ملک کی رہنما آنگ سان سوچی پر دباؤ ڈالاجائے کہ وہ اپنے ملک میں ہونے والے ہولناک عمل کو تسلیم کرے۔ امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ میانمار حکومت اپنی احمقانہ تردید پر تضاد چھپانے کے لیے اقوام متحدہ سمیت ہرکسی کو رخائن ریاست میں اپنا ظلم وستم پر پردہ ڈالنے کے لیے جانے سے روک رہی ہے۔

یہ بات تو واضح ہے کہ بنگلا دیش کے مہاجر کیمپ روہنگیا مسلمانوں کا مستقل ٹھکانہ نہیں ہیں، بلکہ ان کی اصل جگہ وہی ہے، جہاں سے انہیں زبردستی نکالا گیا ہے۔ عالمی برادی کی ذمہ داری ہے کہ انہیں میانمار میں ان کا علاقہ واپس دلوائے، لیکن اس کے ساتھ اس بات کی ضمانت بھی ضروری ہے کہ میانمار کی درندہ صفت فوج دوبارہ سے روہنگیا مسلمانوں کے خون کی ہولی نہیں کھیلے گی۔ جنیوا میں اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کونسل کے اجلاس سے خطاب میں زید رعد الحسین کا کہنا تھا کہ روہنگیا مسلمانوں کو اس وقت تک میانمار واپس نہیں بھیجنا چاہیے، جب تک وہاں مستقل بنیادوں پر انسانی حقوق کی صورت حال ٹھیک نہیں ہو جاتی۔ میانمار کی مقہور مسلم اقلیت کو ایک طویل عرصے سے جن نا انصافیوں اور مصائب کا سامنا ہے،وہ ہم سے ہمدردی اور بامقصد اقدام کا تقاضا کرتے ہیں۔ اگرچہ حالیہ مہینوں کے دوران روہنگیا کی نسل کشی نے میڈیا میں بڑی توجہ حاصل کی ہے،مگر اس کے باوجودعالمی برادری ان کے مصائب کو کم کرنے کے لیے کوئی بامقصد اقدام کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے اعلیٰ عہدے دار میانمار فوج، سیکورٹی فورسز اور بدھ مت انتہا پسندوں کے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف انسانیت سوز مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بیان کرنے کے لیے ’’نسل کشی‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنے لگے ہیں، لیکن ابھی تک ان کی نسل کشی رکوانے کے لیے کوئی لائحہ عمل نظر نہیں آتا ہے۔ روہنگیا عورتوں کی اجتماعی عصمت ریزی کے متعدد واقعات، اجتماعی قتل عام اور پورے پورے دیہات کو نذر آتش کیے جانے کی رپورٹس منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان ناقابل بیان مظالم کا سامنا کرنے کے لیے روہنگیا بالکل بے یارو مددگار اور بے آسرا تھے۔ ان کے مصائب کا سلسلہ رکا نہیں اور ابھی جاری ہے۔ حال ہی میں میانمار کی حکومت اور بنگلا دیش کے درمیان روہنگیا مہاجرین کی واپسی کے لیے ایک سمجھوتا طے پایا ہے، لیکن اس میں ان کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی، کیونکہ روہنگیا کا میانمار میں شہریت کا حق سلب کیا جارہا ہے اور انھیں دوسرے قانونی حقوق سے بھی محروم کیا جارہا ہے۔ اب ان کے لیے گھروں کو واپسی بھی اتنی ہی خطرناک ہوگی، جتنا وہاں سے فرار پْرخطر تھا۔ دراصل روہنگیا مہاجرین کی واپسی کا منصوبہ میانمار حکومت کے جرائم کو دھونے کی مہم کا ایک حصہ ہے اور یہ ایک طرح سے اس بحران کو مزید طول دینے کے بھی مترادف ہوگا۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701130 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.