مارچ 2011کے کو ایک دن شام کے مشرقی شہر ڈیرہ میں
صدر بشارالاسدکی پالیسیوں اور ابازید نامی نوجوان پر سرکاری اہلکاروں کی
تشدد کے خلاف ایک پرامن احتجاجی مارچ ہورہا تا، جس میں ہزاروں کی تعداد میں
مرد و خواتین شریک تھے کہ اچانک مارچ کو روکنے کے لئے قابض صدر کی خصوصی
فورس نے فائرنگ شروع کردی، جس سے کئی افراد جاں بحق ہوئے جن میں خواتین و
بچے بھی شامل تھے ، جس کے بعد سے شام میں ایک ایسی خانہ جنگی شروع ہوگئی جس
میں آج تک تین لاکھ سے زائد شامی مرد و خواتین اور بچے جاں بحق ہوئے( ان
میں اکثریت بے گناہ مسلمانوں کی ہے ) اور دس لاکھ افراد زخمی بھی ہوئے۔جبکہ
ایک کروڑ بیس لاکھ افراد اس تنازع کی وجہ سے اپنے گھروں کو چھوڑکر ہجرت
کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
اس جنگ کے اثرات دیگر ہمسایہ ممالک لبنان، ترکی اور اردن میں بھی محسوس کئے
جا سکتے ہیں، جہاں پر بڑی تعداد میں شامی مہاجرین نقل مکانی پر مجبور ہوئے
ہیں۔ کئی یورپ جانے کی کوشش میں سمندر کی لہروں کے نذر ہوگئے ہیں۔ اس خانہ
جنگی نے ایک ایسا انسانی المیے کو جنم دیا ہے ، جس کی مثال تاریخ میں نہیں
ملتی ۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق شام میں اس وقت موجود تقریباً 70
فیصد افرادکے پاس پینے کے پانی تک کی سہولت موجود نہیں، ہر تین میں سے ایک
فرد اپنی بنیادی خوراک کی ضرور ت پوری کرنے سے قاصر ہے اور ہر دوسرا شامی
اس وقت غربت کی اتاہ گہرائیوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف
قابل علاج بیماریوں کا علاج بروقت نہ ہونے کی وجہ سے اموات میں تیزی آرہی
ہے ،ان میں زیادہ تر تعداد شیرخوار بچوں کی ہیں۔ اس انسانی المیے سے نپٹنے
کے لئے نام نہاد عالمی برادری کے پاس ’’وسائل‘‘ تک موجود نہیں لیکن اسی
عالمی برادری کے پاس شا م کی تباہی اور جنگ و جدل کے لئے وسائل کے انبار
لگے ہوئے ہیں۔
2011میں تیونس سے شروع ہونے والی ایک عجیب و غریب تحریک جس نے جلد ہی پورے
مشرقی وسطیٰ کو اپنے لپیٹ لے لیا تھا ،اب تک مصر، لیبیا اور شام سمیت کئی
اور ممالک بھی اس کی سحر میں آئے ،مگر ان ممالک میں جلد ہی امن قائم ہوا
اور ان کی ڈکٹیٹر شپ کو گھر جانا پڑا یا مار دیئے گئے، لیکن شام میں صورت
حال کچھ اور بنی جس کی وجہ شام کے پڑوسی ملک عراق بھی ہے ۔ 2003میں عراق پر
امریکی یلغار سے پورے خطے میں ایک عجیب تبدیلی رونما ہوئی ، مسلمان ممالک
ایک دوسرے کے خلاف سراپااحتجاج بھی بنے اور اس سے بڑھ کر ایک دوسرے کے
ممالک میں مداخلت بھی کرنے لگے ، ایران سعودی عرب پر الزام تراشی کر رہاہے
تو سعودی عرب قطر پر۔ ہر ملک دوسرے ملک کو اپنے اندر مداخلت پر کوستا رہا
ہیں۔ اس تبدیلی کی وجہ سے اور ان ممالک کی آپسی چپقلشوں سے ہی شام کی صورت
حال ابتر ہوئی اور وہاں قتل عام کی ایک ایسی تاریخ لکھی گئی کہ جس کی مثال
تاریخ میں کہی نہیں ملتی ،جس پر اقوام متحدہ نے مذمتی تحریر میں لکھا کہ
ہمارے پاس وہ الفاظ ہی نہیں کہ ہم شام کے مختلف شہروں میں ہونے والے قتل
عام کی مذمت کرسکے یا شاید وہ الفاظ بنے ہی نہیں جو ان مظالم کی دادرسی
کرسکے۔
گزشتہ تینہفتوں سے شام کے مشرقی صوبے غوطہ پر روسی اور شامی جیٹ طیاروں کی
شدید بمباری جاری ہے ، مختلف اداروں کی رپورٹوں کے مطابق روزانہ بیس فضائی
حملے غوطہ شہر پر کئے جارہے ہیں، جس سے جمعرات کے روز تک بارہ سو سے زائد
بے گناہ مسلمان شہید ہوئیں ، ان میں خواتین کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے بھی
شامل ہیں، ان بچوں کی تعدادڈھائی سو سے زائد بتائی جارہی ہیں۔ زخمیوں کی
تعداد ہزاروں میں ہیں۔ یہ غوطہ شہر پر پہلا حملہ نہیں اس سے قبل بھی شامی
طیاروں نے غوطہ کو نشانہ بنایا تھا مگر روسی طیارے پہلی مرتبہ استعمال
ہوئیں۔
روس جو افغانستان میں شکست کے بعد توڑا تھنڈا پڑ گیا تھا 2015سے دوبارہ وہ
کھل کر جنگی میدانوں میں اُترا ، یایوں کہوں تو غلط نہیں ہوگا کہ روس کو
جنگ کی میدان میں گیم پلان کے تحت اُتارا گیا ۔ عراق پر امریکی حملے کے بعد
عراق میں امریکی جارحیت کے خلاف مختلف نظریہ کے لوگ آزادی کے لئے الگ الگ
لڑنے لگے ، کوئی صدام حسین کا حامی تھا تو کوئی بغدادی کا ، ہر شخص الگ سلگ
لڑرہا تھا ، اس دوران جولائی 2011ء میں شام کے اندر بھی ایک مزاحمتی تحرک
نے جنم لیا، جس کو ابتدائی طور پر آزاد شام فورس (FSA)کا نام دیا گیا ۔ شام
میں شروع ہونے والی انقلابی تحریک میں ابتدائی طور پر کسی قسم کاتشدد نہیں
تھا ،خطہ میں جاری عرب انقلاب نے شام کے عوام پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ دیگر
ممالک کی طرح یہاں بھی انقلاب کا آغاز نوجوانوں نے کیا۔ سچے انقلابی جذبات
اور اپنے حالات زندگی کو بدلنے کے لئے ان نوجوانوں نے جس جرأت اور بہادری
کامظاہرہ کیا وہ ناقابل فراموش تھا ، یہ تحریک زیادہ تر نوجوانوں اور مڈل
کلاس تک ہی محد ود رہی اور انہوں نے اس تحریک کو تشدد سے پاک رکھا ، مگر
دوسری طرف آزاد شامی فوج کے بنتے ہی تشدد اور قتل و غارت کو وہ بازار گرم
ہوا جس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ لقمہ اجل بنے۔ اسی کا فائدہ اُٹھاتے
ہوئے مغربی طاقتوں نے ان عرب ملکوں کو استعمال کرنا شروع کردیا جو اس
انقلاب سے بچنے کے لئے ان مغربی طاقتوں سے مدد مانگ رہے تھے، ان میں سعودی
عرب سرفہرست تھا ، انہی کی محنت اور فنڈنگ سے شام اور عراق کی تمام وہ
تنظیمیں جو امریکی اور اسدی فوج کے خلاف برسرپیکارتھیں ۔ایک پلیٹ فارم
پراکھٹی ہوئی، ان میں وہ تنظیمیں میں بھی شامل ہوئی جو خالص اﷲ کی رضا کے
لئے امریکا کے خلاف برسرپکار تھی ، ان کا ایک مجموعہ بنایا گیا جس کا نام
داعش (ISIS) رکھا گیا ، بہت ہی تیزی کے ساتھ داعش نے کامیابیوں کے جھنڈے
گھاڑے ۔ عراق کے ساتھ شام میں بھی بڑی کامیابیاں حاصل کیں ۔ کامیابیوں کے
ساتھ داعش کا مورال بھی بلند ہوتا گیا اور انہوں نے شام و عراق کے باہر بھی
کارویاں شروع کردیں، کچھ مغربی ممالک بھی ان کے نشانے پر آئے ۔ جب کہ سعودی
عرب سے نظریاتی اختلاف پر انہیں اور امریکا کو بھی دھمکی دے ڈالی ، ایران
کو بھی نشانے پر لے آئیں ۔
ایران جو ابتدا سے ہی فرقے کی بنیاد پر بشارالاسد کے حمایت میں کھڑا تھا اس
کے ساتھ ایران کی ایک اور مفاد بھی وابسطہ تھی، وہ یہ کہ عراق سے شام ، شام
سے یورپ تک ایک خشکی والا تجارتی راستہ ان کو ملے یہی وجہ ہے کہ وہ اس کوشش
میں بھی بشار الااسد کا حمایتی بنا ہوا ہے ۔ داعش کے بدلتے تیور سے پریشان
امریکا اور سعودی عرب نا تو شام میں بشار الاسد کی حمایت کرسکتے تھے اور نہ
ہی داعش کی مزید پرورش۔ انہوں نے ایک ایسا ماحول بنادیا کہ ایران اور بشار
الاسد نے روس سے مدد مانگ لی ، جس پر نہ تو امریکا نے احتجاج کیا اور نہ ہی
سعودی عرب نے کچھ کہا۔ کیوں کے ان کو بشار سے زیادہ خطرہ اپنے لئے داعش سے
تھا ۔
شام کی سنگین صوت حال اور وہاں ہونے والے قتل عام کا ذمہ دار کون ہے ؟ نمبر
ایک بشار الاسد جو خود کے اقتدار کو بچانے کے لئے وہ کسی بھی قسم کے ظلم سے
گریز نہیں کرر ہاہے، ظلم و بربریت میں بشارالاسد نے ہلاکوخان اور ہٹلر کو
بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ نمبر دو ، داعش جو بنی تو اپنے ممالک کی تحفظ کے
لئے مگر وہ استعمال ہوئے دوسروں کے لئے ۔ نمبر تین، ایران جو فرقہ واریت کی
فروغ اور خشک راستے کی خواہش میں لاکھوں بے گناہ انسانوں کے قتل میں شامل
ہوا ۔ نمبر چار سعودی عرب جو جمہوری انقلاب کے ڈر سے امریکا کی حمایت میں
شام کے اندر مداخلت کا مرتکب ہوا۔ نمبر پانچ ،امریکا جو مسلمان ملکوں کو
اپنے قبضے میں کرنے کے لئے اور مسلمانوں کے قتل عام کرنے کے لئے اور ہر وہ
اقدام اُٹھانے سے گریز نہیں کررہا جس سے مسلمانوں میں تفریقہ بازی پیدا ہو۔
چھٹا روس جو دوستی کے ڈونگ کے خاطر اور مسلمانوں سے افغانستان میں اپنے
شکست کا بدلہ لینے کے لئے اس قتل عام کا حصہ بنا ہوا ہے۔ ساتواں اور سب سے
بڑھ کر عالم اسلام ہی اس قتل عام کاذمہ دار ہیں۔ نبی محترم ﷺ کے ارشاد کا
مفہوم ہے کہ مسلمان آپس میں ایک جسم کے مانند ہے۔ جیسے کہ جسم کے کسی بھی
حصے میں درد ہوتا ہے تو پورا جسم بے چین ہوتا ہے ، اسی طرح اگر مغرب میں
کسی مسلمان کو تکلیف ہو تو مشرق کے مسلمان کو اس کے درد کا احساس ہونا
چاہئے ۔ جب تک مسلمانوں کے حکمران دیگر ممالک میں آباد مسلمانوں کے درد و
تکلیف میں پہنچا کرتے تھے تب تک ان کو کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا
تھااور جب سے مسلمان ملکوں نے ایک دوسرے کا ساتھ دینا چھوڑ دیا اور ہر
معاملے کو اندرونی معاملہ قرار دیا ، تب سے ہی مسلمان زوال پذیر ہورہے
ہیں۔۔ اﷲ تعالیٰ ہی مسلمانوں کی حال پر رحم فرمائیں (آمین)
|