ہمارے ہاں انسانیت کی بات بھی کی جاتی ہے، انسانی حقوق
اور انسانی قدروں پہ کیفے ٹیریوں، کانفرنسوں ، علمی و فکری مباحثوں ، میڈیا
پروگراموں ، اخبارات و رسائل میں خوب طبع آزمائی کی جاتی ہے، کہیں نہ کہیں
اس آہ و پکار کے در پردہ طرح طرح کے مقاصد پو شیدہ ہوتے ہیں اور نظر بھی
آتے ہیں کچھ لوگ موسمی بٹیروں کی طرح انسانی حقوق کا لاگ الاپتے ہیں اور
پھر منظر سے غائب ہو جاتے ہیں، کچھ اپنے زور بیان و قلم سے معاشرے کے
’’غریب‘‘ اور’’ غربت و پسماندگی‘‘ پہ ہر زاویے، ہر پہلو ، علت و معلول کی
دقیق مباحث، فلسفیانہ اور غیر فلسفیانہ اتار چڑھاؤ ، شائستہ و مدلل پیرائے
اور نہ جانے کن کن طریقوں سے لفاظیوں کا طومار کھڑا کرنے میں پیش پیش نظر آ
تے ہیں اور خاص طور پہ یہ تخیلاتی ہتھیار اس وقت میدان میں لائے جاتے ہیں
جب کسی خاص شخصیت کی برسی ہو، یوم مزدور ہو، یوم خواتین ہو، یا کوئی اور
ایسا موقع ہو یا کسی عالمی یا قومی ایجنڈے کا حصہ بننا ہو، اور یہ سب زبانی
جمع خرچ کا حسب معمول کوئی عملی نتیجہ بر آمد نہیں ہوتا۔، بقول ڈاکٹر اقبال
کے:
اقبال بڑا ابدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے گفتار کا غازی بن گیا کردار
کا غازی بن نہ سکا
اس طرح معاشرے کے اندر گفتار کے ان’’ غازیوں‘‘ کے چرچے بھی خوب ہوتے ہیں،
ہر سیزن میں وہ لفظوں کی اس کرشمہ سازی سے لوگوں کے دل تو موہ لینے کا
بندوبست جاری رکھتے ہیں لیکن ’’بے عملی‘‘ کا ایسا نشہ معاشرے میں پھیلاتے
ہیں جس کا زہر معاشرتی جسم میں سرایت کر کے اسے بے جان کرتا چلا جا رہاہے،
سیکولر اور نان سیکولر کے جھگڑے میں نوجوانوں کو الجھایا جا رہا ہے،
فلسفیانہ موشگافیوں نے نوجوانوں کو اپنی مٹی، اپنے لوگوں کے حقیقی مسائل
اور اس کے عملی حل سے بے گانہ کر دیا ہے۔نوجوان مشرق اور مغرب کے فلسفوں پہ
تو سیر حاصل بحث کرنے میں گھنٹوں صرف کرتے ہیں، لیکن ان کے پاس اتنا وقت
نہیں کہ وہ اپنے گلی اور محلے میں بکھرے انسانی مسائل پہ توجہ دے کر ان کے
سد باب کے لئے کچھ عملی کام کے لئے وقت نکال سکیں۔ المیہ یہ ہے کہ نوجوان
نسل کو عملی انسانی خدمت کی تربیت کا ہمارے ہاں کوئی مناسب اور قابل عمل
نظام کسی بھی مکتبہ فکر کے پاس موجود نہیں۔جس کے نتیجے میں معاشرے میں بے
عملی اور عوامی مسائل سے عدم آگاہی اور عوامی سطح پہ اجتماعی تنظیمی عمل کا
انتہائی درجے کا فقدان موجود ہے، جس کا فائدہ وہ سرمایہ پرست’’بدمعاشیہ‘‘
اٹھا رہی ہے جس کو اپنے استحصالی مقاصد کے لئے منتشر اور بے شعور عوامی
ریوڑ ہی مقصود رہا ہے۔
لیکن اس مایوس کن صورتحال میں بہت ہی کم لیکن کسی نہ کسی سطح پہ امید اور
روشنی کی کرن ہمیشہ موجود رہی ہے، یہ امید اور روشنی کی کرن معاشرے کے وہ
افراد ہیں جو گمنامی کی زندگی گذارتے ہیں، انہیں کسی شہرت یامال و زر کی
لالچ نہیں ہوتی، جو زبان سے بھی معاشرے کی پسماندگی اور مسائل کا تذکرہ
کرتے ہیں اور ان کے حقیقی اسباب سے نہ صرف معاشرے کو روشناس کراتے ہیں بلکہ
ان کا حقیقی میدان’’ عمل کا میدان‘‘ ہے، ان کی وہ عملی کاوشیں ہی ان کی
پہچان ہیں جو وہ لوگوں کے ساتھ مل کر گلی محلوں میں انجام دیتے ہیں۔وہ صرف
پسماندگی ، غربت اور بنیادی مسائل پہ بحث نہیں کرتے بلکہ ان مسائل کے حل کے
لئے عملی طور پہ گلی محلے میں جاتے ہیں، لوگوں سے مل کر ان کے مسائل سے
حقیقی آگاہی حاصل کرتے ہیں اور پھر ان مسائل کے حل کے لئے لوگوں کو تیار
کرتے ہیں، ان کا ساتھ دیتے ہیں لوگوں کو مسائل کے حل کے لئے، فنی، تربیتی،
اخلاقی اور علمی جس نوعیت کی بھی کی عملی مدد درکار ہوتی ہے اس کا بندو بست
کرتے ہیں، معاشرے کی پسماندہ بستیاں ان کی جدو جہد کا میدان ہوتی ہیں،انسان
دوستی پہ شاید وہ ایک طویل اور جامع فکری ونظریاتی لیکچر تو نہ دے سکتے ہوں
لیکن عملی طور پہ وہ انسان دوستی کا ایسا پیکر نظر آتے ہیں جن کی زندگی کا
ہر لمحہ محروم و پریشان حال لوگوں کو مسائل سے نکالنا ان کی پریشانیوں کو
دور کرنا، انہیں مسائل کے حل میں اس طرح مدد دینا اور ان کی اس انداز سے
تربیت کرنا کہ وہ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونا سیکھیں اور خود سے اپنے گرد وپیش
کے مسائل کو حل کر سکیں۔
ایسی ہی ایک انسان دوست شخصیت پروین رحمان شہید کی تھی جنہیں 13مارچ2013ء
کو کراچی میں شہید کر دیا گیا۔حسب دستور اس ملک میں مسلط’’ بدمعاشیہ‘‘ نے
امیدوں کا ایک اور چراغ گل کر دیا۔ایک پڑھی لکھی، درویش صفت، باہمت اور
انسان دوست شخصیت جس کے شب و روز فقط لوگوں کے بنیادی مسائل کے حل کی تگ
ودو میں گذرتے تھے۔
مجھے یہ سعادت ملی کہ میں ان کے ویژن اور عملی کاوشوں کا مطالعہ کر سکوں،
اور ان کے اس عملی پروگرام کو سیکھنے کے لئے اس کا حصہ بن سکوں جو انہوں نے
ڈاکٹر اختر حمید خان سے سیکھا اور اس عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنی زندگی
وقف کر دی۔انہوں نے ڈاکٹر اختر حمید خان سے وہ’’ درویشی ‘‘سیکھی، جو کہ گلی
محلے کے غریب اور پسماندہ لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر ، ان کے دکھ درد بانٹ کر
حاصل ہوتی ہے اور عوامی مسائل کو حقیقی معنوں میں حل کرنے کی آگہی اور ایک
عملی انسان دوست بننے کا گر سیکھا اور پھر اپنے انسان دوست’’ مرشد ‘‘کی
پیروی میں اپنی زندگی انسانیت کی عملی خدمت کے لئے وقف کر کے دیانتداری،بے
غرضی اور انسان دوستی کی بہترین مثال قائم کر دی، او راسی مقصد کی آبیاری
کرتے ہوئے مظلومیت سے اپنی جان ، جان آفریں کے سپرد کر دی۔
پروین رحمان شہید نے معاشرے کے مفلوک الحال لوگوں کی عملی خدمت کے اس مشن
کو جس کی شروعات ڈاکٹر اختر حمید خان نے کراچی اورنگی ٹاؤن سے کی، کو
بحیثیت جانشین کے اسے تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا، اور ملک کے چاروں صوبوں کی
پسماندہ آ بادیوں تک اسے پھیلایا، اورنگی ٹاؤں کراچی کے مرکز سے عملی تربیت
کے نظام کے ذریعے سے بے شمار خواتین و حضرات کو’’ انسان دوستی ‘‘کے اس عملی
پروگرام کا حصہ بنایا، اور وہ اپنے اپنے مراکز میں اس پہ کام کر رہے ہیں
اوراس کے بہترین نتائج سے عام لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں، پروین رحمان اکثر
اوقات ملک کے مختلف تعلیمی اداروں کا بھی دورہ کرتی تھیں جہاں وہ اپنے
پروگرام کو نوجوان نسل تک پہنچانے کی کوشش کرتی تھیں، اسی طرح کے ایک
پروگرام میں جو کہ مورخہ 16اپریل 2010کو یونیورسٹی آف انجنئیرنگ اینڈ
ٹیکنالوجی لاہور کے شعبہ’’ سٹی اینڈ سٹی اینڈ ریجینل پلاننگ ‘‘ میں منعقد
ہوا، میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا، اس پروگرام میں ہونے والی ان کی بات
چیت کو میں نے ریکارڈ کر لیا تھا، اس نشست میں انہوں نے ایم ایس سی اور بی
ایس کے طلباء و طالبات جو کہ مستقبل کے آرکیٹکس اور ٹاؤن پلانرز بننے والے
تھے سے بات چیت کی۔ذیل میں محترمہ پروین رحمان شہید کی نوجوانوں سے بات چیت
تفصیل کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں:
’’بہت بہت شکریہ کہ آپ لوگوں کے ساتھ ملنے کا موقع مل رہا ہے۔میں آرکیٹکٹ
ہوں اور اربن پلاننگ کی تعلیم بھی حاصل کی ہے اورنگی پائلٹ پرا جیکٹ میں نے
1983ء میں کام شروع کیا۔1980ء میں اورنگی پائلٹ پر اجیکٹ کی بنیاد رکھی گئی
اس کے بعد1988ء میں تین ادارے بن گئے۔او پی پی ریسرچ اینڈ ٹریننگ
انسٹیٹیوٹOPP-RTIجس کی میں دیکھ بھال کرتی ہوں،جو کہ سینی
ٹیشن،ایجوکیشن،ہاؤسنگ اور اب واٹر سپلائی پہ کام کر رہا ہے۔دوسرا ادارہ
ORANGI CHARITABLE TRUST (OPP-OCT)جو کہ کریڈٹ پرو گرام کی دیکھ بھال کرتا
ہے اور تیسرا ادارہOPP-KHASDAجو کہ ہیلتھ پرو گرام پہ کام کرتا ہے۔
او پی پیOPP اب پائلٹ پرا جیکٹ نہیں رہا بلکہ تین اداروں کی صورت میں ڈھل
گیا ہے۔میں یہ بات اس لئے بتاتی ہوں کہ جب بھی ادارے شروع ہوتے ہیں وہ
پائلٹ ہوتے ہیں لیکن جیسے جیسے پھیلاؤ بڑھتا جاتا ہے تو وہ اگر چھوٹے چھوٹے
اداروں میں بدل جائیں تو وہ تا دیر چل پاتے ہیں۔اس کو ڈی سینٹر لائزیشن
اپروچ کہتے ہیں جس کے تحت ہم لوگ کام کر رہے ہیں۔اس لفظ کو آپ تھوڑا سا یاد
رکھئے گا،کیونکہ جب ہم اپنے پرو گرام بتائیں گے جیسا کہ کم لاگتیLow
Costسینی ٹیشن ،ہاؤسنگ،ایجوکیشن اس میں ہمارا فو کس ہو گا ڈی سینٹر
لائزیشن۔اگر کسی سسٹم کو بڑے سے بڑے پیمانے پہ پھیلانا مقصود ہو تو اس کے
چھوٹے چھوٹے حصے بنانے پڑتے ہیں۔اس سے لوگوں کو ادارے کے پرو گرام کو
سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اور پھیلاؤ بھی ہوتا ہے۔
آج موضوع سخنComponent Sharing ماڈل ہے ۔کمپوننٹ شئیرنگ کیا ہے؟اس لفظ کے
کیا معنی و مطلب ہے؟اس میں بھی ڈی سینٹر لائزیشن ہے کہ آپ کسی کمپوننٹ کے
چھوٹے چھوٹے حصے کریں تاکہ کام میں Coordinationپیدا ہو سکے۔
سینی ٹیشن کے حوالے سے جب بات کریں تو محلے کی سطح پہ ایک سیور لائن ہوتی
ہے اور محلے سے باہر مین لائن اور واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ ہوتا ہے۔ محلے کی سطح
پہ ایک تو گھر کی لیٹرین ،پھر گلی کا سیور اور پھر گلیوں کو ملانے والے
محلے کی سطح کا سیور شامل ہے۔محلے کی سطح پہ کام کو انٹرنل ڈیولپمنٹ کہتے
ہیں۔ اور یہ کام لوگ خود اپنی مدد آپ کے تحت انجام دیتے ہیں حکومت ان کو
سراہتی ہے ۔اور محلے سے باہر کی سطح پہ کام کو ایکسٹرنل ڈیولپمنٹ کہتے
ہیں۔اور یہ کام حکومت کو کرنا ہوتا ہے۔تو اس سسٹم کو ہم کمپوننٹ شئیرنگ
یا’’ شراکتی ماڈل‘‘ کہتے ہیں۔اس ماڈل پہ پاکستان میں مختلف جگہوں پہ کام ہو
رہا ہے جو ادارے اس حوالے سے کام کر رہے ہیں ان کا ساتھ دیں ان کے کام کو
مضبوط بنانے میں کردار ادا کریں۔کیونکہ دیکھا جائے تو لوگ پوری طرح سارا
کام نہیں کر سکتے اور حکومت بھی پوری طرح سارا کام نہیں کر سکتی لہذا حکومت
کے کام میں لوگوں کی شمولیت ضروری ہے۔مثلاً لوگ اپنا گٹر لائن ڈالتے ہیں
ایک تحقیق ہوئی ہے کہ لائن کے کسی حصے کی لاگت اگر فی یونٹ ایک روپیہ آتی
ہے تو وہی کام اگر حکومت کرتی ہے ٹھکیداروں کے ذریعے تو وہ6سے10روپے آتی
ہے۔اور یہی کام لوگ ایک روپے میں کرتے ہیں۔
لیکن یہی کام آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے قرضوں سے کئے جاتے ہیں،اور اس
کا سرا سر نقصان ہی ہوتا ہے جب آپ بیرونی قرضے لیتے ہیں تو حکومت دو شرائط
پہ دستخط کرتی ہے:۱۔انٹرنیشنل کنٹریکٹر ۲۔انٹرنیشنل کنسلٹنٹ
وہی ڈیزائن جو ہمارا انجنئیر پاکستان میں بناتا ہے وہ 20ہزار روپے تنخواہ
لیتا ہے لیکن باہر کا کنسلٹنٹ 20ہزار ڈالر لیتا ہے۔
اب کمپوننٹ شئیرنگ کیوں ضروری ہے؟کیوں نہ سب کام حکومت کرے،حکومت کا کام ہے
سینی ٹیشن مہیا کرے۔لوگ اس میں کیوں شامل ہوں؟یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ پبلک
اور پرا ئیویٹ پارٹنر شپ۔در اصل حکومت کوئی کام کرتی ہے لیکن لوگوں میں
اونر شپ کا احساس موجود نہیں ہوتا،سیور لائنیں موجود ہیں ان کی صفائی نہیں
ہوتی وہ بند پڑی ہوتی ہیں۔
کسی معاشرے میں سب سے قوت والی چیز پیسہ ہوتا ہے یا بندوق۔جیسا کہ ہمارے
معاشرے میں ہے۔اور ایسی صورت حال میں جو زیادہ پیسے والا یا طاقتور ہو گا
وہ سب کچھ حاصل کرے گا۔لیکن حکومت کس لئے بنتی ہے،حکومت صرف طاقتوروں کو
سروس مہیا کرنے کے لئے نہیں بنتی۔اگر ڈکشنری میں دیکھیں تو گورنمنٹ کا مطلب
ہے ’’ان لوگوں کی دیکھ بھال اور ضرورتوں کا خیال رکھنا جن کی دیکھ بھال
کرنے والا اور ضرورت پوری کرنے والا کوئی نہ ہو‘‘گورنمنٹ غریب کے لئے بنتی
ہے،تاکہ غریب کے لئے کوئی بہتری یا سہولت ہو سکے۔کیونکہ امیر طبقہ تو اپنا
خیال خود رکھ سکتا ہے لیکن غریب کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور گورنمنٹ بنتی ہی
غریب کی ضرورت کے لئے ۔ہمارے ہاں دیکھئے زیادہ تر بجٹ ڈیفنس میں جاتا ہے
اور باقی قرضے کی مد میں ،ترقی کے لئے کچھ نہیں بچتا۔ہمارے ملک میں ایک طرف
تو صورتحال یہ ہے دوسری طرف بلین ڈالرز کا قرضہ ہے جن میں38.7فیصد قرضے
مقامی بینکوں کے ہیں اسی وجہ سے ہمارے سٹیٹ بینک کے گورنر کا انتخاب آئی
ایم ایف اور ورلڈ بینک کرتے ہیں۔
جب آپ قرضہ لیتے ہیں تو جس نے قرضہ دیا ہے وہ رفتہ رفتہ آپ کی پوری جاگیر
کو کنٹرول کر لیتا ہے اس وقت پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ آپ کی تمام معاشی
پالیسی اور سٹیٹ بینک ،آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے کنٹرول میں ہے۔ظاہر ہے
جس سے آپ نے قرضے لئے وہی آپ کو کنٹرول کرے گا جب آپ قرضے واپس نہیں دیں گے
تو ایسا ہو گا۔عام مثال ہے کہ آپ کسی رشتہ دار سے قرض لیں اور لمبے عرصے تک
واپس نہ کریں تو وہ ایک وقت آئے گا یہ کہے گا کہ اپنے زیورات بیچو،اپنی
جائداد بیچو اور میرا قرضہ لٹاؤ۔تو دیکھا جائے تو ہمارے زیورات ہمارا قیمتی
اثاثہ مثلاً کراچی میں الیکٹرک سپلائی کارپوریشن ہے کہا گیا اس کو فارغ کر
دو،باہر کی کمپنی کو دے دو۔اور اس کے جو پیسے آئیں گے وہ قرضے میں لٹا دو۔
ایک طرف تو یہ صورتحال ہے کہ لوگ تو زندگی بسر کر رہے ہیں لوگ اپنے بچوں کو
تعلیم دے رہے ہیں،اپنے محلے،اپنے گاؤں میں گٹر کی گندگی کو دور کرنے کی
کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔،پانی حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں۔وہ یہ سب
کیسے کر رہے ہیں؟لوگ اپنی مدد آپ کے تحت یہ سب کرنے کی کوشش کر رہے
ہیں۔جیسا کہ کراچی میں پانچ سو سے زائد غریب آبادیاں ہیں۔حکومت ان کو کچی
آبادیاں کہتی ہے۔’’کچی آبادیاں‘‘یہ لفظ موزوں نہیں ہے اس کے استعمال کے
پیچھے ایک غلط تصور موجود ہے۔جیسے Slumsکا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔یہ لفظ
ہمارے ایشیئن کلچر میں موجود نہیں ہے۔یہ تو مغربی کلچر کی اصطلاح ہے۔جب
Slumکا لفظ بولا جاتا ہے تو ایک منفی تاثر ابھرتا ہے،گندگی،کرپشن،منشیات کا
گڑھ اورغیر قانونی دھندے وغیرہ
مغرب میں یہ Slumsکیسے وجود میں آتے ہیں؟اس کی کچھ وجوہات ہیں ،کیونکہ ان
کے ہاں خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے،بچہ بالغ ہونے کے بعد الگ
کر دیا جاتا ہے،والدین بوڑھے ہونے کے بعد اولڈ ہومز میں منتقل ہو جاتے
ہیں۔والدین کو بچوں سے ملنے کے لئے باقاعدہ وقت لینا پڑتا ہے۔ویسٹ میں
Slums ایسے ہی معاشرے سے بچھڑے ہوئے افراد سے وجود میں آتے ہیں،جہاں جرائم
پیشہ سے لے کر ہر طرح کے افراد رہتے ہیں۔لیکن ایشیاء اور پاکستان میں ایسا
نہیں ہے یہاں کا خاندانی نظام مضبوط ہے والدین کی تاحیات خدمت کو ضروری
سمجھا جاتا ہے لوگ برے سے برے حالات میں بھی ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی
کوشش کرتے ہیں اگر کوئی منشیات کا عادی ہو جائے تو پوری فیملی اس کے لئے
فکر مند ہوتی ہے اسے سڑک پر جانے سے بچانے کے لئے اپنی سی کوشش میں لگی
رہتی ہے۔ ہمارے ہاں جو آبادیاں ہیں وہ کم آمدنی والے افراد کی آبادیاں
ہیں۔لہذا یہاں پہ Slumsکا لفظ استعمال کرنا بالکل غلط ہے۔
کراچی میں ہم نے کم آمدنی والی آبادیوں کا سروے کیا70فیصد کے قریب لوگوں نے
اپنی گلیوں میں خود گٹر لائنیں ڈالی ہیں۔پوری کراچی میں اپنی مدد آپ کے تحت
پانی کی لائن ڈالی گئی ہیں۔ایک ایک آبادی میں5سے6پرائیویٹ سکولز موجود ہیں
جو لوگوں نے خود قائم کئے۔وہاں حکومت کے سکول موجود نہیں ہیں۔کلینکس قائم
ہیں۔یہ سب صورتحال بتاتی ہے کہ لوگ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے خود
کوشاں ہیں۔
ڈاکٹر اختر حمید خان جو کہ اورنگی پائلٹ پرا جیکٹ کے بانی ہیں ان کا ایک
طویل تجربہ تھا وہ ہمیشہ کہتے تھے’’غریب مسئلوں میں گھرے رہتے ہیں،لیکن
خاموش نہیں بیٹھتے کچھ نہ کچھ وہ ضرور کرتے ہیں‘‘کوئی گٹر لائن ڈالنے کی
کوشش کرتا ہے،اگرچکہ وہ انجنئیر نہیں،گٹر لائن تھوڑی اونچی نیچی ہو جاتی
ہے،اس کی گہرائی درست نہیں ہوتی،کنکشن درست نہیں ہوتا لیکن لگانے کی کوشش
کی جاتی ہے۔گھر لوگ خود بناتے ہیں ،آرکیٹیکٹ نہیں ہوتا،دیواریں درست نہیں
بن پاتیں،میٹیریل معیاری نہیں ہوتا لیکن کوشش جاری رہتی ہے کہ مکان تعمیر
کرنا ہے اور وہ کر لیتے ہیں۔بہر حال لوگ کام ضرور کرتے ہیں،ان کے پاس جو
محدود معلومات ہوتی ہیں وہ انہیں بروئے کار لاتے ہیں،اگر ان کے پاس کمی
ہوتی ہے تو وہ تکنیکی معلومات کی۔
ہم گریجویٹ ہو کے امیروں کی بلڈنگیں بناتے ہیں،ضرور بنانی چاءئیں۔پیسے بھی
کمانے چاہئیں،لیکن اس کے ساتھ ساتھ سوسائٹی کے لئے بھی ضرور کچھ نہ کچھ
کرنا چاہئے۔ہم نے دیکھا کہ بنگلہ دیش میں بھی لوگ اپنے مسائل خود حل کرنے
کی کوشش میں ہیں۔شاید ایک نسل حکومت سے کہہ کہہ کے تھک چکی ہے اور اب دوسری
نسل نے اپنے مسائل کو خود حل کرنے کے لئے کام شروع کر دیا ہے۔
اسی طرح یہاں بھی لوگ اپنے کام خود کرتے ہیں اپنا پیسہ لگاتے ہیں اب اگر
ضرورت ہے تو لوگوں کی ٹیکنیکل رہنمائی کی۔لوگوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے
کہ پائپ کیسے بچھائیں،سیور کی گہرائی کتنی ہو،کنکشن کیسے کرنا ہے ،میٹیریل
کیسا استعمال کرنا ہے وغیرہ
پرو فیشنلز کا یہ رول بنتا ہے کہ جہاں غریب لوگ خود کام کر رہے ہیں،اپنا
پیسہ لگا رہے ہیں اور حکومت کی ڈیولپمنٹ ان تک نہیں پہنچ رہی ،ان کو
ٹیکنیکل رہنمائی مہیا کریں۔روایتی طور پہ آرکیٹکٹ کا کردار بلڈر کا ہے لیکن
جب غریب کے ساتھ کام کریں تو آپ کا کردار ایک استاد کا ہے۔
1980ء میں ڈاکٹر اختر حمید خان اورنگی ٹاؤن میں آئے تو یہی صورتحال
تھی،گلیوں میں ٹو ٹ پھوٹ اور گندگی ضرور تھی لیکن لوگ اپنا کام کرنے کی
کوششوں میں لگے ہوئے تھے اس صورتحال سے نکلنے کا جذبہ ان میں موجود
تھا۔ڈاکٹر صاحب نے ان کے حالات و سائل کو سمجھا،لوگوں سے ملاقاتیں کیں،اور
یہ طے کیا کہ لوگوں کے کام میں ان کی رہنمائی کی جائے اور انہیں نقشے بنا
کر دئیے جائیں،اس طرح سے لوگوں نے از خود ان سے رابطے کئے اور اپنی اپنی
گلیوں میں سیور ڈالنے کا آغاز کیا۔
میں نے خود بحیثیت آرکیٹیکٹ غریب آبادیوں کی گلیوں کا وزٹ کیا،لوگوں سے
ملاقاتیں کیں پتہ چلا کہ گلیوں میں گندگی پھینکنے پہ آپس میں جھگڑے ہوتے
ہیں کیوں کہ جب ماحول میں گندگی ہوتی ہے تو ذہن میں بھی گندگی پیدا ہو جاتی
ہے ایسے ماحول میں رہنے والے افراد اپنے گرد و پیش کی صورتحال کو ذہنی طور
پہ قبول نہیں کرتے۔لیکن یہ تجربہ ہوا کہ جب ان لوگوں کو موقع ملا اور ان کی
تھوڑی بہت رہنمائی کی گئی تو پھرزیر زمین سیور ڈالی گئی لوگوں نے کام شروع
کر دیا اس سے ایک اعتماد کی فضا پیدا ہوتی ہے۔مثال کے طور پہ جب گندگی
پھیلی ہوئی ہوتی ہے ،عورتیں بیمار،بچے بیمار،سب سے زیادہ عورت اور بچے گلی
میں رہتے ہیں مرد کام پہ چلے جاتے ہیں۔کام کے بعد بھی وہ زیادہ تر وقت باہر
کھو کھے پہ بیٹھ کر چائے پینے اور گپ شپ میں وقت گذارتے ہیں عورتیں اور بچے
جب ایسی صورتحال میں ہوں گے تو ان کے ساتھ کیا ہو گا؟بچوں کو بیماریاں گھیر
لیں گی،خواتین بیمار اور بچے بیمار ہو جائیں گے تو فیملی کا نظام درہم بر
ہم ہو جائے گا،جو چھو ٹا موٹا کاروبار ہے جس سے زندگی کا نظام چل رہا ہے اس
سے حاصل ہونے والی آمدنی بیماروں کے اخراجات پہ خرچ ہو جائے گی۔اگر 3000یا
5000روپے کما رہے ہیں تو بیماری کی صورت میں گھر کیسے چلے گا۔گھر کی گندگی
کو صاف کروانے کے لئے اجرت دے رہے ہیں،بار بار گھر کی مرمت پہ خرچ اٹھ رہا
ہے۔اگر گلی صاف ہے سیور ڈالا ہوا ہے،لیٹرین موجود ہے تو وہی خاندان5000روپے
اگر کما رہا ہے تو اس کے خاندان کے بچے بیمار نہیں ہیں اور وہ انہیں تعلیم
دے سکتا ہے۔اس آمدن میں سے تعلیم کی رقم نکل آئے گی۔اور پھر کچھ بچا کر چھو
ٹا موٹا کاروبار شروع کر سکتا ہے۔
یہ غربت Povertyکیا ہوتی ہے؟اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ آپ کی آمدن کتنی ہے
بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کتنا اور کیسے خرچ کرتے ہیں۔اگر آپ ڈاکٹر کے
پاس جا رہے ہیں ،گھر کی مرمت پہ خرچ کر رہے ہیں،یہ منفی اخراجات ہیں،لیکن
آپ بچے کو تعلیم دے رہے ہیں ،اپنے گھر میں ایک نیا کمرہ تعمیر کر رہے ہیں
تو یہ مثبت اخراجات ہیں۔
اگر لوگ اپنی گلی کو اپنی مدد آپ کے تحت بہتر بنانے کے لئے کوئی کام شروع
کرتے ہیں تو آپ کی تھوڑی سی رہنمائی ان کو بہت زیادہ فائدہ دے سکتی ہے،یہ
رہنمائی گٹر بناتے وقت،سیور ڈالتے وقت،کنکشن کرتے وقت،لیولنگ کے وقت دینی
ہوتی ہے۔
پنجاب میں بھی اپنی مدد آپ کے تحت کام پھیل رہا ہے لوگ اپنی گلیوں میں
سیورڈالنے کے لئے انتہائی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ
ان کی رہنمائی کیسے کی جا رہی ہے۔
بحیثت آرکیٹیکٹ آپ کہیں کام کرنا چاہیں تو سب سے پہلے اس علاقے کا نقشہ
تیار کیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ علاقے میں کیا کام ہوا ہے ؟کس نے کام
کیا ہے؟نقشہ کی اربن پلاننگ کے حوالے سے نہایت اہمیت ہے۔جیسے ایک ڈاکٹر کے
لئے ایکسرے کی۔ایکسرے کے بغیر ڈاکٹر علاج تجویز کرتا ہے تو کیا ہو گا؟اس کا
اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
نقشہ نہیں ہو گا تو حکومت ورلڈ بینک سے قرضہ لے گی اور علاقوں کا سیور
دوبارہ ڈالا جائے گا۔آپ پرو فیشلز کے کام کے لئے ضروری ہے کہ ہمیشہ نقشہ
سازی کرتے ہوئے پلان بنائیں۔کمپنوننٹ شئیرنگ ماڈل کے اس اصول کو اپناتے
ہوئے ہم بیرونی قرضوں کے بوجھ سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں جو کہ اس سیکٹر
میں ڈویلپمنٹ کے نام پہ لئے جاتے ہیں۔
اورنگی ٹاؤن کراچی15لاکھ کی آبادی ہے،ایک آبادی نہیں113آبادیاں ہیں اور
یہاں90 فیصد لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت گلیوں میں گٹر لائنیں ڈال دی
ہیں۔اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ لوگوں میں بہت جذبہ ہے اور صلاحیت بھی
موجود ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ ہم اپنا مسئلہ خود حل کریں گے حکومت کی طرف
دیکھنے کی بجائے یہ ایک بڑی امید ہے پاکستان کی ترقی کے لئے۔مجھے امید ہے
کہ آپ جیسے پرو فیشنلز کی اس فیلڈ میں بہت زیادہ ضرورت ہے آپ یہ سوچیں کہ
آپ کے علم سے کمائی ضرور ہو لیکن ساتھ ساتھ یہ کوشش ضرور کریں کہ کسی غریب
آبادی میں کسی گلی میں آپ کی رہنمائی سے کوئی بہتر تبدیلی آ سکتی ہے تو
ضرور آگے بڑھ کر یہ کام کریں۔آپ میں سے جس کو دلچسپی ہو،اور یہ خواہش ہو کہ
میں نے علم حاصل کیا اور اس علم کو استعمال کر کے غریب آبادیوں میں کوئی
بہتری کا کام ہو سکتا اس کی تلاش کی ضرورت ہے،لیکن پریشان ہونے کی ضرورت
نہیں کہ ہم کام کیسے کریں گے؟کیونکہ آپ کے پاس یہاں لاہور میں ’’معاون
تنظیم ‘‘ہے جو مختلف آبادیوں میں اپنی مدد آپ کے تحت کم لاگتی نکاسی آب کے
حوالے سے کام کو پھیلا رہی ہے ان کے ساتھ آپ انٹرن شپ کر سکتے ہیں،سیکھ
سکتے ہیں اور نہ صرف یہ آپ سروس مہیا کرتے ہیں بلکہ بہت کچھ سیکھتے
ہیں’’ذہن کو ہر وقت جوان رکھنا چاہئے‘‘
غریبوں سے سیکھئے وہ کم پیسوں میں محدود وسائل میں اپنے گھروں کو اپنی
گلیوں کو کیسے بناتے ہیں Low Costکم لاگتی کام کے لئے کوئی لندن کی
ٹیکنالوجی کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی واشنگٹن کی ٹیکنالوجی درکار ہے۔کم
لاگتی ہاؤسنگ،کم لاگتی سینی ٹیشن لوگ خود آپ کو بتا رہے ہیں کہ کس طرح کریں
،ان سے سیکھئے اور پھر اپنی ٹیکنیکل رہنمائی انہیں مہیا کیجئے۔
پاکستان قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اس سے نکلنے کا یہ ایک اچھا طریقہ ہے اور
بہت سارے راستے ہوں گے لیکن ہم نے یہ راستہ چنا ہے آپ کراچی میں
ہوں،لاہورمیں ہوں،بہاولپور میں ہوں،لودھراں میں ہوں،فیصل آباد میں ہوں جا
کر ضرور دیکھیں کہ لوگ کیسے کام کر رہے ہیں۔اور پھر اپنے آپ کو ان کی
ٹیکنیکل رہنمائی کے لئے تیار کریں۔امید ہے کہ آپ اپنی ان قومی ذمہ داریوں
سے غافل نہیں ہوں گے۔‘‘‘‘‘‘‘
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پروین رحمان شہید یا ان کیطرح کے دیگر افراد اور
ادارے جو کہ دیانت داری اور بے غرضی سے معاشرے کی عملی خدمت میں مصروف ہیں
، ان کا ساتھ دینا چاہئے اور اس شعور کو عام کرنا چاہئے جس کا تعلق عملی
انسانی خدمت سے ہے، خاص طور پہ نوجوان نسل کو عملی خدمت کے کاموں میں شامل
کر کے ان کی عملی تربیت کا ماحول فراہم کیا جائے تویقیناً ایک مثبت اجتماعی
تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ |