23 مارچ قرار داد مقاصد

تحریر: امبرین جاوید، کراچی
پاکستان اسی وقت وجود میں آگیا تھا جب بر صغیر میں پہلا فرد مسلمان ہوا تو دراصل وہ ایک قوم سے نکل کر دوسری قوم کا فرد بن گیا اور اسی دن ہندوستان میں دو قومیں بن گیں تھیں ایک ہندو اور دوسری مسلمان۔ ہندو اور مسلمان کی علیحدہ قومیت کا یہی تصور مطالبہ پاکستان کا محرک تھا۔ یہی تصور 23 مارچ 1940 کو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس پر ایک قرار داد کی صورت میں پیش کیا گیا۔ جس کو قرار داد مقاصد کہتے ہیں۔ یہ قرار داد مولوی فضل الحق نے پیش کی۔قرار داد پیش ہونے کے بعد چودھری خلیق الزمان نے سب سے پہلے اس کی تائید و حمایت کی۔ مولانا ظفر علی خان، سر حاجی عبداﷲ ہارون، نواب اسماعیل خان، قاضی محمد عیسی اور آئی آئی چند دیگر نے بھی اس قرار داد کی حمایت کا اعلان کیا۔اس اجلاس اور قرار داد کے بعد قیام پاکستان کے لئے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی میں تیزی آئی اور بالاخر 14 اگست 1947ء کو برصغیر میں ایک آزاد اسلامی مملکت پاکستان کا قیام عمل میں آیا ۔

ہمارے بزرگوں نے ہندوؤں کے ساتھ رہنے اور ان کا رویہ دیکھنے کے بعد الگ ملک کا خواب دیکھا اور اپنی جدوجہد سے اس خواب کو پورا کرنے میں کامیاب بھی ہوئے لیکن افسوس کے آج ہم نے اپنی آزادی کی قدر کھودی ہے ۔ مسلمانوں اکابرین نے ہندوں کے متعصبانہ رویے کے بعد دو قومی نظریہ پیش کیا اور آج ہم دو قومی نظر یے کی نفی کر تے ہوئے مسلمانوں کے دشمن بھارت کے ساتھ دوستی اور محبت کے گن گا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کے قوموں کی برادری ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنا ضروری ہوتا ہے ایک بار پھر ہندوؤں کے ساتھ مشترکہ تہذیب مشترکہ ثقافت کا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے۔ آج ہمارے نوجوان اردو تک سے ناواقف ہوتے جا رہے ہیں۔ ڈراموں اور پروگراموں میں ہندو رواج پیش کے جارہے ہیں اردو زبان کا بیڑا غرق کیا جارہا ہے ۔اب تو میڈیا اور ایڈورٹائزنگ اپنے اشتہارات میں سائن بورڈ پر اردو یا انگریزی کے بجائے رومن اردو جو کہ بھارت میں استعمال کی جاتی ہے اس میں اشتہارات پیش کیے جارہے ہیں۔ یہ سلسلہ بڑھے گا تو وہ وقت دور نہیں کہ جب ہماری نسلیں اپنی قومی اردو زبان تک سے آشنا ہو جائیں گی۔

مشترکہ تہذیب اور ثقافت کے نام پر امن کی آشا کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ادھر ہم امن کی آشا کی باتیں کرتے نہیں تھکتے ادھر بھارت اپنے وار پہ وار کیے جارہا ہے۔ کبھی ایل او سی پر بلااشتعال فائرنگ، کبھی کشمیر میں مظالم، حتی کہ بھارت میں تو مسلمان بھی محفوظ نہیں رہا۔ جبکہ پاکستانی بھارتی فلموں اور گانوں میں الجھ کر سب کچھ بھول چکے ہیں۔ اپنی تاریخ تک بھول چکے ہیں۔ وہ کیا تھا، کیوں تھے اور کیوں الگ ہوئے کیا وجوہات تھیں سب کچھ بھول چکے۔ انہیں تو اپنی آزادی کا دن ہی یاد ہے اس کے علاوہ وہ صرف اور صرف ذہنی غلامی میں خود کو رکھ کر خوش ہیں۔

کیوں نہیں سوچتے ہم کہ بالآخر ہماری مقصدیت کیا تھی۔ کیا یہی جدوجہد کا مقصد تھا؟کیا ہم نے مل کر یہ سب کچھ فراموش کردیا ہے؟ آج ضرورت اس بات کی ہے ک ہم سیراب کے پیچھے بھاگنے کے بجائے قرار داد پاکستان اور قیام پاکستان کے اصل مقصد کو سامنے رکھیں اور یاد رکھیں کہ یہ کام میں اور آپ ہی کریں گے۔ ہم نے مل کر ہی اپنے وطن کو سنوارنا ہے۔ نا کوئی بلوچی پنجابی سندھی مہاجر سب نے ایک ہو کر ہی یہ کم کرنا ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ سب کا اتفاق ہے کہ ہمارا معاشرہ ذوال و النحطاط کی گہرائیوں میں گرا جارہا ہے۔ ہر فرد اس سے بھی متفق ہے کے اے سب کچھ ٹھیک ہونا چاہیے۔

ہمیں اپنی اصل کو پہچاننا ہوگا۔ ہمیں اس فکر کو واپس لانا ہوگی جس کے لیے ہم نے اتنا قربانیاں دیں تھی۔ کیوں ہم اپنی اصل کو بھول رہے ہیں۔ یاد رکھیں یہ ملک اس لیے حاصل کیا تھا کہ اس میں سب کلمہ طیبہ کی سربلندی اور ایک دین اسلام کی پابندی کے ساتھ زندگی بسر کریں گے۔ خود کو بہترکریں گے۔ آئیے عہد کریں اس 23مارچ پر کہ ہم خود کو ٹھیک کریں گے۔ اچھائی کا آغاز اپنی ذات اور گھر سے کریں۔ معاشرے میں خیر کا پھول خود با خود کھلتا چلا جائے گا۔ دوسرے بھی ایسا کرنے پر آمادہ اور راغب ہو ں گے۔ ہم سب کیوں نا یہ اتفاق کرلیں کہ عروج و ترقی اور خیر و فلاح کا آغاز میری ذات سے ہونا چاہیے۔ اپنے آپ سے اور اپنے ملک سے عہد کریں کہ ہم قرار داد کا مقصد پورا کریں گے ۔ ان شاء اﷲ

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1024289 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.