گهنگروں کی جھنکار اس کی توجہ کو بار بار منتشر کردیتی.
آخرکار تنگ آکر اس نے باہر آکر ٹی وی کی آواز آہستہ کردی.ساته ہی اس کے بہن
بھائیوں کا احتجاج شروع ہوگیا. آپی ابھی تو فلم میں مجرا شروع ہوا تھا ابھی
تو مزا آنا شروع ہوا تھا. آپ نے کالی بن کر ہمیں شراپ دے دیا.
جی ہاں چونکئے نہیں یہ کسی بھارتی گهرانے کے گھر کی کہانی نہیں یہ ایک
متوسط طبقے کے پاکستانی مسلمان گهرانے کی کہانی ہے. میرا نام زوبیہ ہے میں
میڈیکل کالج میں دوسرے سال کی طالبہ ہوں. ہم چار بہنیں اور تین بھائی
ہیں.والد میرے کپڑے کی دکان کرتے ہیں.ہمارا گهرانا صوم وصلوات کا پابند ایک
شریف گهرانا تھا. جی ہاں !چونکئے نہیں میں نے "تها" کا صیغہ استعمال کیا
ہے. وہ دن ہماری بدبختی کا دن تھا جب ابا نے بڑے بھیا اور بهابهی کے کہنے
میں آکر کیبل لگوالیا. شروع شروع میں تو انڈین ٹی وی چینل اور فلمیں دیکھ
کر سب "توبہ توبہ "کا ورد کرتے. بھائی لوگ اور بہنیں اکٹھے ٹی وی دیکھنے سے
کتراتے مگر آہستہ آہستہ بدلاو آنا شروع ہوگیا. اب کیا اماں،کیا ابا ،بهیا،
آپی سب ہی اکٹھے بیٹھ کر انڈین چینلز دیکھنے لگے. ہر وقت سٹار پلس،زی ٹی وی
کے ڈرامے تهے اور بهجن اور گانے ناچ کی صدائیں تهیں جس گھر میں کبھی نماز
قضا نہیں ہوتی تھی وہاں پر .اکثر نماز فجر قضا ہونے لگی کیونکہ سب رات کو
دیر تک ٹی وی دیکھتے تھے. جن اماں اور بهابهی کی شہر بھر مثالیں دیتا تھا
کہ ساس بہو ہو تو ایسی. اب ان میں دن رات کهٹ پٹ ہونے لگی تھی.کیونکہ تمام
انڈین سوپ سیریل میں ساس اور بہو ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہوتی ہیں اور
اماں بهابهی نے یہی سبق ان سیریلز سے سیکھا تھا. میرا کیوٹ بھتیجا مجھے
بتاتا کہ اس کے شکتی شالی ہونے کی وجہ اوولٹین ہے. میرے بھائیوں میں سے
کوئی خود کو رنبیر سنگه اور کوئی خود کو شاہ رخ خان سمجهتا. دوکان میں سب
ہی دیر سے جاتے اور جلد واپس آنے کی کوشش کرتے. ہمارا کاروبار متاثر ہونے
لگا. بہنوں کی توجہ پڑھائی سے ہٹ کر کپڑوں ،فیشن کی طرف مبذول ہوگئ. اتنے
چست کپڑے پہنے جانے لگے کہ دیکھ کر بھی لاحول ولا قوته پڑھنے کا دل کرتا
.اماں اور بھابھی بهی بیوٹی پارلر کے چکروں اور کپڑے زیور کی خریداری میں
مصروف نظر آتیں.اکثر اب کهانا بازار سے منگوایا جاتا.وه گهر جو کبهی صفائی
ستھرائی میں اپنی مثال آپ تها وه اب ہر وقت بے ترتیبی کا شکار نظر آتا.میری
حیثیت صرف ایک تماشائی کی سی تھی. میں گهر میں آنے والے بگاڑ سے بخوبی آگاہ
تهی مگر میری بات سننے کے لئے کوئی تیار نہیں تھا.
ایسے میں میری دادا اور دادی کی آمد کسی نعمت سے کم ثابت نہ ہوئی. دادا ابا
کے آگے تو آج تک ابا نے بولنے کی جرات کبھی نہیں کی تھی. دادا ابا نے جب
گھر کے حالات دیکھے تو شام کو میٹنگ کا اعلان کیا. شام کے وقت جب سب اکٹھے
ہوئے. تو انہوں نے اپنے ابا کے سنائے ہوئے تقسیم ہند کے واقعات پهر سے بیان
کیے اور ہم سب سے پوچھا :
"میرے بچوں اگر مسلمانوں کو علیحدہ وطن نہیں چاہئے تھا تو یہ لاکھوں شہیدوں
کا خون کیوں بہا. خدا کے واسطے ایک غیر کی ثقافت کے پیچھے آپ اپنا تہذیب و
تمدن کو خیر باد کہہ رہے ہیں."
اماں کو دادی نے مخاطب کر کے کہا :
صاعقہ تم کو میں نے ہمیشہ بیٹیوں سے بھی اونچا مقام اور مرتبہ دیا ہے. کبھی
تمہارے کسی فیصلے کو شک کی نیت سے نیت سے نہیں دیکھا. پھر آج تم کیسے
بیٹیوں اور بہو میں فرق روا رکھ رہی ہوں؟
کیا ایک مسلمان دیندار گهرانے کی بچیوں کا پہناوا ایسا ہوتا ہے جیسا میرے
پیچھے سے تم سب نے اپنایا ہے؟
نماز روزے سے زیادہ اب گھر میں دیوالی اور کڑوا چوته کے ورت کا زکر ہے. کیا
ہمارے اباواجداد نے اس دن کے لئے اپنا خون بہایا تها. ہزاروں عورتوں کی
عصمتیں قربان ہوئیں تب کہیں جاکر اسلام کے نام پر یہ ملک حاصل ہوا.کیا تم
لوگ یہ ثابت کرنا چاہتے ہو کہ دو قومی نظریہ غلط تھا؟
بے اختیار ہی سب نے شرمندگی سے سر جھکا لیا .بڑے بهیا نے دادا دادی کے پاوں
پکڑ کر ان کو یقین دلایا کہ آج ہی وہ اس فساد کی جڑ سے پیچھا چهڑوالینگے.
میں نے ہنس کر دادی کی گود میں سر رکھ دیا ثابت ہوا کہ بڑے بزرگ ہمارے سروں
پر اس سایہ دار درخت کی مانند ہوتے ہیں جو نہ صرف ہمیں چھاوں دیتے ہیں بلکہ
آنے والے طوفانوں سے بھی ہماری حفاظت کرتے ہیں.آپ کا کیا خیال ہے؟ |