ابھی کچھ دنوں سے ایک تصویر سوشل میڈیا میں متحرک ہے کہ
کچھ لوگوں کے کندھوں پر ایک جنازہ ہے اور یہ افراد جن کے پیر ننگے پیں وہ
گٹر کے پانی سے بهری ہوئی گلی سے اپنے کپڑے بچاتے کشاں کشاں چلے جارہے
ہیں.آنکهیں پتهرا گئیں میری. ایک خلا میرے اندر پیدا ہوا. یا خدا !اپنے
ہموطنوں کی بے قدری اور بے بسی پر ماتم کروں یا ان کی غلامانہ زہنیت پر
ماتم کروں؟
ہمارے ملک کے گلی محلے ابھی تک سیوریج کے گندے پانی سے بهرے ہوئے ہیں. یہی
سیوریج کا پانی پینے کے پانی کے اندر مل کر اس کو زہر میں تبدیل کررہا ہے.
پچھلے دنوں کسی تنظیم کی پاکستان کے پانی کے بارے میں شائع کردہ کچھ اعداد
و شمار نظر سے گزرے،ان کے مطابق تمام بڑے شہروں کراچی، لاہور، راولپنڈی،
فیصل آباد وغیرہ. ان کے زیر زمین پانی میں سنکھیا اور دوسرے زہرآلود عناصر
پائے جاتے ہیں.اس کی بنیادی وجہ سیوریج کے پائپوں کا زنگ آلود ہونا ہے.
پانی کی فراہمی کی نالیوں میں بیشتر جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کے باعث سیوریج کا
پانی صاف پانی میں مل رہا ہے. اس کے باعث ہیپاٹائٹس اور ٹائیفائیڈ جیسے
امراض بہت بڑه گئے ہیں.آنکهوں اور جلدی امراض میں بھی اضافہ ہورہا ہے.
یہاں کینیڈا میں نلکے سے آنے والے پانی کی کوالٹی بوٹلڈ واٹر سے بھی بہتر
ہے. یہ بات بڑے فخر سے سرکاری سطح پر کی جاتی ہے. ہر شہر کے پانی کے
فلٹریشن کے اپنے پلانٹس ہیں.پانی کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ٹیسٹ
کرنے کے بعد اس کی ترسیل کی جاتی ہے.
سیوریج کا بھی ان کا سسٹم انتہائی شاندار ہے.انتہائی سرد موسم کے باوجود
میں نے کبھی پندرہ سالوں میں ایک پهٹی ہوئی سیوریج کی لائن نہیں دیکھی.
یہاں پر بجلی، گیس، پانی، انٹر نیٹ، سیوریج سب کے سب انڈرگراونڈ ہے اور
مجال ہے کہ کبھی ایک دوسرے سے متصادم ہوجائیں. میرا سوال یہ ہے کہ کیا
ہمارے حکمران جب ان ممالک کا دورہ کرتے ہیں تو کیا اپنی آنکھیں، کان بند کر
کے رکھتے ہیں؟ ہمارے ملک میں اگر وسائل کی مناسب طریقے سے allocation کی
جائے تو یہ بنیادی مسائل احسن طریقے سے حل کیے جاسکتے ہیں.
یہ جنازہ مجھے تو ایک فرد سے زیادہ ایک قوم کا لگا. جو ابھی تک اپنے بنیادی
حقوق کا حصول نہ کرپائی. چیف جسٹس صاحب کا اللہ بهلا کرئے جنهوں نے حکم دیا
ہے کہ پتا کیا جائے کہ یہ کس علاقے کی تصویر ہے تاکہ اس علاقے کے اعلی
افسران اور حکومتی ارکان کو جھنجھوڑا جاسکے. ووٹ کی طاقت استعمال کرنے
والوں کو کیا کہا جائے. بس رہے نام اللہ کا. |