کراچی میں ٹریفک کے مسائل اور حل

پاکستان میں ٹریفک کا حال اتنا بگڑ چکا ہے کہ کسی سلجھے ہوئے ڈرائیور کے لیے یہاں کی سڑکوں پر ڈرائیونگ کرنا تقریب ناممکن ہے۔ آپ کسی ڈرائیور سے کچھ دیر ٹریفک کے قواعد و ضوابط پر بات کر کے دیکھ لیں۔ مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آنے والا۔ جہاں سڑکوں کا حال آہستہ آہستہ کافی بہتر ہوتا جا رہا ہے وہیں ٹریفک کا رش بھی اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ سڑک پر کئی کئی گھنٹے ٹریفک جام ہونے لگا ہے اور کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ حادثات کی منحوس خبریں میڈیا کی بریکینگ نیوز کی شوبھا نہ بڑھاتی ہوں۔ ایک اندازے کے مطابق سالانہ 17 سے 30 ہزار لوگ پاکستان میں ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہو رہے ہیں اور 40 سے 60 ہزار لوگ زخمی ہوتے ہیں۔ سائیکل موٹر سائیکل، رکشہ ، گدھا گاڑی، کار، بس اور بڑی بڑی ہیوی ٹریفک سبھی اپنی اپنی منزل پانے کے لیے اُنہی سڑکوں کا استعمال کر تے ہیں۔ خاص کر کراچی، حیدرآباد، لاہور، راولپنڈی، اور اس طرح کے دوسرے بڑے شہروں میں یہ مسئلہ انتہائی خطرناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ شہروں کی بڑی آبادی ہونے کے باوجود سڑکوں کو شہری ضروریات کے مطابق اب بھی پورا نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک جام میں پھنسے لوگ روز ہی اس مصیبت سے دوچار رہتے ہیں۔ پھر سڑکوں پر آئے دن گاڑیوں کا خراب ہونا، ایکسڈنٹ ہونا، گدھا گاڑیوں کی کم رفتار، سائیکل، موٹر سائیکل کا اچانگ سڑک کے بیچوں بیچ آجانا، پیدل چلنے والے حضرات کا اچانک تیز رفتار گاڑیوں کے سامنے سے سڑک پار کرنا، سڑکوں پر آئے دن جلوس نکالنا وغیرہ وغیرہ کی وجہ سے ٹریفک جام روز کا معمول بن گیا ہے اور ڈرائیورز کا ٹریفک کے قوانین سے لاعلم ہونا معاشرے کا دردِ سر بنتا جا رہا ہے۔ اسی طرح ماحول میں پلوشن pollution بھی اس ٹریفک کی وجہ سے اِتنا بڑھ گیا ہے کہ کئی لوگوں کو گلے اور آنکھوں کی سوزش رہنے لگی ہے۔ بچے اس ٹریفک کی وجہ سے نہ تو سکول سیفٹی safety کے ساتھ آجا سکتے ہیں اور نہ ہی باہر کھیل سکتے ہیں جو بچوں کی نشونما کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ رات کی ٹریفک میں ہیڈ لائٹز کا استعمال جو کہ باقی ساری دنیا میں ایک سنگین جرم ہے، وطنِ عزیز میں بلا خوف و خطر کیا جاتا ہے ،جس سے سامنے سے آنے والی گاڑی کے ڈرائیور کی آنکھوں میں روشنی کی شدت سے ڈرائیور کے لیے گاڑی چلانا شدید خطرہ بن جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ٹریفک کے حادثات کا باعث بن رہا ہے اکثر ہائی وے پر جمپس jump بنا کر ٹریفک کے لیے مزید خطرات پیدا کیے گئے ہیں۔ ہائی ویز hay way کو شہروں کے بیچو بیچ گزار کر شہروں کی فضا کو بے جا آلودہ کرنے کے ساتھ ساتھ شہروں میں بلاوجہ کا ٹریفک جام کیا گیا ہے اور شہریوں کی جانوں کو خواہ مخواہ خطرے میں ڈالا گیا ہے۔ ہائی وے پر پڑے گڑہوں اور بارشوں یا سیوریج سے جمع ہونے والے پانی سے بے شمار حادثات ہو رہے ہیں سڑکوں پر مناسب لائٹ کا انتظام نہ ہونا اور سڑک کے ٹریکز tracks پر لائنز lines کا نہ ہونا بھی حادثات کا باعث ہے۔ اوپر سے آئے دن سیاست دانوں کی امید و رفت پر سڑکوں کو اچانک بند کرنے سے ٹریفک جام ایک عام بات بنتی جا رہی ہے جس میں کئی بچے اسکول دیر میں پہنچتے ہیں یا گھر دیر سے پہنچتے ہیں۔ نوکریوں پر جانے والے حضرات بھی اپنے باس کے آ گے شرمسار ہوتے ہیں۔ کئی لوگ اسی قطار میں لگی ایمبولنس میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ تو دوسری طرف ڈاکٹر مریض کے آپریشن کے لیے بروقت ہسپتالوں میں نہیں پہنچ سکتے۔ اسی ٹریفک جام کی وجہ سے سڑکوں پر ڈاکوؤں اور لٹیروں نے بھی اپنا غنڈہ راج خوب چمکایا ہوا ہے۔ آئے دن ٹریفک کے بیچوں بیچ لوگوں کو پستول کی نوک پر لوٹا جا رہا ہے پر حکومت کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی۔ گاڑیوں کی مینٹنس، بریک فیل، گاڑیوں کی بریک لائٹس کا خراب ہونا، اگلی لائٹس کا خراب ہونا، سب ٹریفک کے حادثات کا باعث ہیں۔

مسئلہ کے ممکنہ حل.
ہم ایک ایسی قوم ہیں جو نقل بھی درست طریقے سے نہیں کر سکتے۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارا ملک کوئی اچھوتا ملک نہیں ہے جہاں سڑکوں پر خراٹے لیتی ٹریفک پائی جاتی ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں لوگ گاڑیاں چلاتے ہیں بلکہ بہت سے ممالک ہمارے ملک سے حجم میں بہت چھوٹے ہونے کے باوجود ہم سے زیادہ گاڑیوں چلا رہے ہیں لیکن وہاں ٹریفک کے حادثات کی شروع اور ٹریفک جام ہمارے ملک کی نسبت بہت کم ہے۔

اور یہ مسئلہ کوئی مسئلہ کشمیر نہیں ہے جس کو حل کرنے کے لیے اقواِم متحدہ کی قراردادوں پر عمل کروانے پر ہی زور دینا چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی یہ مسئلہ پانی کی طرح کا ہے جو بارشوں کا ہونا یا نہ ہونا ذمیدار ہوسکتا ہے اور ہم قدرت پر الزام عائد کر کے سبکدوش ہوجائیں۔ نہ ہی یہ مسئلہ بجلی کی طرح پیچیدہ ہے کہ چین کے بغیر حل ممکن نہیں۔

بات صرف اتنی سی ہے کہ لوگ موومنٹ movement کی آزادی چاہتے ہیں لوگ گھر سے کام پر اور کام سے گھر آنے کے لیے راستہ استعمال کرنا چاہتے ہیں جو ہر کسی کا بنیادی حق ہے۔لیکن اس ٹریفک نے لوگوں کی اس آزادی کو سلب کر رکھا ہے۔ بڑی اور چوڑی سڑکیں اس مسئلے کا حل کبھی نہیں ہو سکتیں بلکہ زیادہ راستے اور سڑکیں اس مسئلے کا حل ہیں شہروں کو ٹریفک پر تقسیم کرنا چاہیے۔ شہروں کے گرد رنگ روڈ ring road بناے جائیں تاکہ باہر سے آنے والے لوگوں کو پورا شہر کراس cross کرنے کے بجائے رنگ روڈ ring road کے ذریعے اپنی منزل سے قریب ترین سمت سے شہر میں داخل اور خارج ہونے میں آسانی ہو شہر کے اندر ون ٹریک سڑکیں one track road زیادہ سے زیادہ بنائی جائیں تا کہ ایکسیڈنٹ accidents کے خطرات کو منی مم minimum کیا جا سکے کیونکہ تجربات نے ثابت کیا ہے کہ اکثر ایکسیڈنٹ accidents ایک ٹریک track سے دوسرے ٹریک track پر آتے ہوے ہوتے ہیں۔ موٹر سائیکل، سائیکل، گدھا گاڑی، کے لیے الگ سڑک بنانی چاہیے تا کہ حادثہ accidents کو مزید کم کیا جائے سائیکل اور موٹر سائیکل سوار کی کسی بھی گاڑی سے ٹکر کی صورت میں جسمانی نقصان زیادہ تر دو پہیوں کی سواری پر سوار حضرات کا ہی ہوتا ہے۔ انڈسٹری ایریاز industry area's کیلیے رنگ روڈ ring road کو یقینی بنایا جائے تاکہ ہیوی ٹرانسپورٹ have transport کا شہر میں بے جا استعمال بند ہو۔ پبلک ٹرانسپورٹ سروس کا جال بچھایا جائے اور کرا? مناسب رکھے جائیں تاکہ لوگ سکوٹروں اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔ شہر میں بجلی پر چلانے والی بسوں اور میڑوز metro کا استعمال کیا جائے تاکہ ماحول میں پلوشن کم سے کم ہو اور شہری ماحول پرفضا بن سکے۔ سیاست دانوں کی امداد و رفت پر ٹریفک بلاک کرنے کے کلچر کو ختم کرنا چاہیے۔ یہ مہذب ممالک کا شیوہ نہیں ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے راستے کو بھی الگ ٹریک track دینا چاہیے اور اسی ٹریک کو ایمبولنس اور فائر بریگیڈ اور پولیس کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ شہر کی سڑکوں کے ٹریک track ایک گاڑی کی چوڑائی سے زیادہ نہیں ہونے چاہییں تاکہ کراسنگ کا امکان نہ رہے جس سیایک ہی قطار میں چلنے سے اورٹیک کرنے کے دوران ہونے والے حادثات کا خاتمہ ہو۔ غیر معیاری CNG سلینڈر کا استعمال ملک بھر میں ممنوعہ ہونا چاہئے تاکہ CNG سلنڈر پھٹنے کے واقعات کا خاتمہ ہو سکے۔مختلف فیکٹریاں جہاں 24 گھنٹے کام ہوتا ہے ان کی شفٹوں کے اوقات میں تبدیلی کر کے ٹریفک کے رش میں کمی کی جا سکتی ہے مختلف سکولوں کے ٹائم میں تبدیلی کر کے اور بازاروں کی ٹائمنگ میں بھی کچھ تبدیلی کر کے اس مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے لیے عمر کی معیاد 20 سے 25 سال کی جائے۔ بغیر لائسنس گاڑی چلانے پر گاڑی ضبط کی جائے اور چلانے والے کو بھاری جرمانہ کیا جائے۔ ٹریفک کے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔چنگچی رکشہ اور اس طرح کے باقی خطرناک سواریوں کو بند کیا جائے اور ان لوگوں کے لیے متبادل alternative روزگار کا بندوبست کیا جائے۔ ہائی ویز پر چنگیوں کے نظام کو ختم کیا جائے اس کی جگہ ٹرانسپورٹ پر ویٹ وزن کے حساب سے ٹیکس لاگوں کیا جائے۔ ہائی وے کو شہروں کے باہر سے گزارا جائے تاکہ شہروں کو بیجا رش، آلودگی، اور حادثات کے خطرات سے بچایا جائے۔ ہیڈلائٹ کے استعمال پر فوری پابندی لگائی جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو بھاری جرمانے کیے جائیں۔ ٹریفک پولیس کو کرپشن سے پاک کیا جائے۔ گاڑیوں کی سالانہ ٹیکنیکل چیکنگ کی جائے اور پھر پرمٹ یا ٹوکن جاری کیا جائے۔ کار پارکنگ کے لیے مناسب انتظام کیا جائے کہ لوگوں کو شہر میں پارکنگ کے لیے ہونے والی مشکلات سے چھٹکارا مل سکے۔ ٹریفک لائٹس کی جگہ گول چوراہے بنائے جائیں تا کہ ٹریفک لائٹس پر خوہ مخواہ رکنے کے بجائے گزرا جا سکے۔ سڑکوں پر غیر قانونی تجاوزات ختم کیے جائیں تاکہ سڑک کو اس کے مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ گاڑیوں میں سیٹ بیلٹ پہنے کو لازمی قرار دیا جائے۔ اور ہر گاڑی اور موٹر سائیکل کی انشورنس لازمی قرار دی جائے۔ کوئی گاڑی انشورنس کے بغیر سڑک پر نہ آنیدی جائے۔

یہ وہ تجاویز ہیں اگر ان پر عمل کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ٹریفک کا رش ختم نہ ہو۔

Hafiz Gadal
About the Author: Hafiz Gadal Read More Articles by Hafiz Gadal: 6 Articles with 9224 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.