چائنہ رقبے، معیشت اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے سپر پاور
بننے جا رہا ہے۔ یہاں کی تعلیمی، انتظامی اور قانونی حالت پاکستان اور دیگر
ممالک کے مقابلے میں بہتر ہے۔ یہاں ٹیکسی ڈرائیور سے لیکر پرچون کی دکان
والے تک ہر شعبہء ہائے زندگی کا فرد انٹرنیٹ کی زبان سمجھتا اور بولتا ہے۔
ہر چیز کمپیوٹرائیزڈ ہونے کی وجہ سے کرپشن کی شرح بہت کم ہے۔ زیادہ آبادی
اور کم رقبے کی وجہ سے عمارتیں اونچی اور گھر تنگ ، چھوٹے اور انتہائی
مہنگے ہیں۔ ایک خاندان تین سے چار افراد پر مشتمل ہوتا ہے ۔حکومت ایک شخص
کو ۰۷ سال کیلیئے مینگے داموں گھر بیچ دیتی ہے اور مقررہ مدت پوری ہونے کے
بعد اسے گھر دوبارہ خریدنا پڑتا ہے یا پھر مہنیے کے حساب سے کرایہ دینا
پڑتا ہے۔لوڈ شیڈینگ کا کوئی تصور نہیں اور بجلی اس قدر زیادہ ہے کہ گھریلو
مصرف کیلئے گیس کے بجائے بجلی کا استعمال عام ہے۔ لیکن ساتھ ہی فی یونٹ کے
حساب سے بجلی اس قدر مہنگی ہے کہ انتہائی احتیاط سے استعمال کی جاتی ہے۔
حکومت کی ایک چال یہ بھی ہے کہ بنیادی ضروریات کی تمام اشیاء کو انتہائی
مہنگا کر دیا ہے تا کہ پیسہ عوام کے پاس جمع نہ ہو۔ یہاں کا بینیکنگ سسٹم
بھی بہترین ہے۔ آن لائن بینکنگ کا یہ حال ہے کہ لوگ مارکیٹس، بسوں غرض کے
کہیں بھی جانے کیلئے کیش یا اے ٹی ایم نہیں بلکہ صرف موبائل لے کر جاتے ہیں
اور ساری payment WECHAT کی مدد سے کرتے ہیں۔ آمدورفت اور مواصلات کا نظام
انتہائی اچھا ہے لیکن لوگوں کی پسندیدہ سواری سائیکل ہے اور اندرون ملک سفر
کیلئے ٹرین یا ہوائی جہاز کا سفر پسند کیا جاتا ہے۔ بچے، بوڑھے اور جوان
صبح ۹ سے لے کر رات گیارہ تک کام کرتے رہتے ہیں۔ یہاں کا میڈیا آزاد نہیں،
خبریں سننا اور ان پر تبصرے کرنا حکومت کا کام ہے، لوگوں کو سوائے اپنے کام
کے کسی اور چیز کی خبر نہیں سیاسی گفت و شنید سختی سے منع ہے اسلیئے TV پر
زیادہ تر میوزک ہی چلتا ہے اور لوگ بات کرنے زیادہ یوگا کرتے ہیں ۔ کوئی
سیاسی، سماجی اور مذہبی جھگڑا نہیں، لوگ پر امن اور محنتی اور فطرتا سادہ
ہیں، RMB(چائینیز کرنسی) کے آگے جھکتے ضرور ہیں لیکن طرز زندگی انتہائی
سادہ اور نمود و نمائش سے پاک ہے، کسی کے کام میں ٹانگ اڑانے کو اپنی توہین
سمجھتے ہیں۔ یہاں سب سے امیر وہی ہے جو سب سے زیادہ کام کرتا ہے۔ یہاں کے
لوگ انگلش بولنے سے ایسے ڈرتے ہیں جیسے بچے اندھیرے سے ڈرتے ہیں۔ ٹیکس کا
نظام بہت فعال ہے جتنی زیادہ سرمایہ کاری اتنا زیادہ ٹیکس، اور تو اور یہاں
students tax بھی لگتا ہے۔ تعلیم عام ہے لیکن سکولنگ بہت مہنگی ہے۔ ایک بچے
کا سکول داخلہ پاکستانی حساب سے پانچ لاکھ ہے۔ بے روزگاری نہیں ہے۔ ہر ایک
طالب علم کو ڈگری ملنے کے بعد مختلف کمپنیاں روزگار دیتی ہیں لیکن تنخواہیں
بہت کم ہیں۔ زیادہ تنخواہ کیلئے زیادہ کام شرط ہے۔ پولیس کی پٹرولنگ ہر وقت
چلتی رہتی ہے۔ ہسپتالوں کا حال بھی الگ ہے، یہاں لائن میں کھڑا نہیں ہونا
پڑتا کیونکہ لوگ ورزش زیادہ کرنے کی وجہ سیبیمار بہت کم ہوتے ہیں دوسرا
ہسپتال کی فیسیں اتنی بھاری ہوتی ہیں کہ بہت کم بیمار ہی اسکا بوجھ اٹھا
پاتے ہیں۔ یہاں کی گولیاں بہت کم dose کی ہوتی ہیں اور ڈاکٹرایک وقت میں
پانچ گولیاں لکھ دیتے ہیں یعنی دن میں پندرہ گولیاں۔ مذہب کا کوئی تصور
نہیں ، رحمان اور رام میں سے کسی ایک کو بھی نہیں مانتے۔ اور سب سے بڑ ھ کر
یہ کہ اپنے ملک سے انتہائی مخلص اور پیار کرنے والے ہیں کیلن اس تمام ترقی،
خوشحالی اور سہولیات کے باوجود بھی انہیں اندر سے ٹٹولیں تو یہ خوش نہیں۔
ہر وقت کے کام اور دولت کی اندھی محبت نے انہیں ایک دوسرے سے بہت دور کردیا
ہے، انکے پاس ایک دوسرے کیلیئے تو کیا خود اپنے لیے بھی ٹائم نہیں ہوتا۔
آزاد ماحول اور خود مختار زندگی نے انہیں اپنے رشتوں اور ذمہ داریوں سے بہت
دور کردیا ہے۔ آج بھی جب میں انکے سامنے اپنے پاکستان کا ذکر کرتی ہوں،
اپنا معاشرتی احوال بتاتی ہوں، اپنے اخلاقی اقدار کی تروایج کرتی ہوں، اپنے
مذہب کے احکامات بتاتی ہوں تو وہ مجھے حیرت اور رغبت سے دیکھتے ہیں۔ ہماری
میڈیا کی بے پناہ آزادی پر حیران ہوتے ہیں، ہمارے باوقار لباس اور حلال
کھانوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہمارے جائنٹ فیملی سسٹم پر رشک کرتے
ہیں کہ جیسے یہ کہنا چاہ رہے ہوں کہ رہنے کیلیئے تو بس پاکستان جیسی ہی جگہ
چاہیئے ، ہماری خود اعتمادی اور ٹیلینٹ کو سلام کرتے ہیں۔ خواتین کا جو
مقام ہمارے ملک میں ہے اسے جان کے ہمارے مردوں کی عظمت کے گن گاتے ہیں۔ بہت
سے خوشحال اور ترقی یافتہ چایئنیز مجھے میرے پاکستانی ہونے پر اس قدر عزت
دیتے ہیں کہ مجھے خود پر اور اپنے ملک پر فخر ہونے لگتا ہے۔میرا ملک میری
سب سے بہترین پہچان ہے اور میرا مذہب میرا مستند حوالہ۔ یقین کریں ہم میں
لاکھ برائیاں سہی لیکن دنیا میں کہیں بھی پاکستان کا متبادل نہیں۔ ایسی
آزادی، ایسا سکوں، ایسا پیار اور ایسی معاشرتی ترقی دنیا میں کہیں بھی
نہیں۔ہاں ٹھیک ہے کہ بہت سی چیزیں توازن میں نہیں، بہت سی جگہوں پر ترقی
نام کو نہیں، بہت سے نظام ٹھیک کرنے باقی ہیں لیکن ترقی اور اصلاح کی
گنجائش تو ہر جگہ ہوتی ہے پھر چاہے وہ چائنہ ہو، امریکا یا پاکستان۔ یہ
دنیا جو پاکستان اور پاکستانیوں کے گن گاتی ہے یہ یونہی نہیں، انہیں پتہ ہے
کہ یہاں ہر رستے پر کوئی ایدھی ملے گا، ہر گھر میں عارفہ کریم اور زیمل عمر
جیسی ناقابل تسخیر بچیاں ہیں، ہر خاندان کسی علی معین اور شہیر جیسے قابل
اور مضبوط ستونوں پر کھڑا ہے، خداراہ اپنے ملک کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر
کوسنا بند کریں اور اسکی قدر کریں کیونکہ
یہاں کچھ ایسے چہرے ہیں کہ جنکے عکس کاغذ پر اگر تصویر ہو جائیں
یہاں کچھ ایسی آنکھیں ہیں کے جنکے جگمگاتے خواب گر تعبیر ہو جائیں
یہاں کچھ ایسے موقعے ہیں کہ جن میں بولے ہوئے لفظ گر تفسیر ہو جائیں
یہاں کچھ ایسے لمحے ہیں کہ جن قید وعدے بھی اگرتشہیر ہو جائیں
یہاں کچھ ایسے دھاگے ہیں کہ جن سے جڑتی کڑیاں باندھ کے زنجیر ہو جائیں
یہاں کچھ ایسی جہتیں ہیں کہ جنکی بے ریا مشقیں رخ تقدیر ہو جائیں تو اک
دنیا بدل جائے!
بہاریں رقص میں آئیں، خزاں رنجور ہو جائے ، محبت کے اجالوں سے یہ شب پر نور
ہو جائے ، جفا کا نام مٹ جائے ، وفا مشکور ہو جائے، تمہاری آنکھ سے غفلت کا
پردہ دور ہو جائے
یہ دھرتی میری دھرتی ہے، اسے نہ رائیگاں سمجھو! اسے کچھ دیر کہنے دو، تم ا
سکی داستاں سمجو
یہاں اہل نظر بھی ہیں، یہاں اہل زباں بھی ہیں، محبت کے، عقیدت کے، وفا کے
ترجماں بھی ہیں، یہ اپنی ذات کے انجم میں مثل کہکشاں بھی ہیں، یہاں سوز جگر
بھی ہے، علم کے پاسباں بھی ہیں
حسرت ہے تو بس اتنی
ضرورت بھی فقط یہ ہے!
کوئی اہل نظر، ذوق نظر ، اس پار کر جائے ، بہت مقدور ہو جائے، یہ غفلت دور
ہو جائے!!!
یہ غفلت دور ہو جائے!!! |