گندی گلیاں اور انقلاب۔۔۔۔۔

انسان بغیر مناسب اور صاف ستھری رہائش کے اپنی زندگی کو تہذیبی دائروں میں پروان چڑھانے سے قاصر رہتا ہے۔۔۔ مکانات ، گلیاں، سڑکیں،گاؤں، قصبے اورشہر بسانا ناگزیر ہوتا ہے۔۔۔انسانی معاشروں کی تشکیل کا یہ عمل گلی اور محلے سے شروع ہو کر عالمی گاؤں تک پہنچتا ہے۔۔۔۔گلی سے شروع ہونے والی تہذیب اور روایتیں، گاؤں اور شہروں اور ملکوں تک پھیلتی چلی جاتی ہیں۔۔۔۔تہذیب یافتہ اقوام کے معاشروں پہ اگر نظر ڈالیں تو گلیوں کی کئی دلچسپ روایتیں موجود ہیں جس کی وجہ سے عجیب ترین گلیوں کے نام سے شہرت رکھتی ہیں۔۔۔۔مثلاًآسٹریلیا کے شہر سڈنی کے علاقے اینجل پیلس میں ایک گلی ہے ۔۔۔۔جو آمدرفت کے لئے تو استعمال ہوتی ہی ہے۔۔۔لیکن ایک شاعر نے جنگلی حیات کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے اس میں مختلف اقسام کے خوبصورت پرندوں کے پنجروں کو لٹکا دیا ہے۔۔۔جو نہ صرف گلی کی خوبصورتی کا باعث ہیں اور ہر آنے جانے والے کے لئے دلچسپی کا سامان ہیں بلکہ پرندوں سے محبت اور ان کا خیال رکھنے کے حوالے سے بھی شعور کا باعث بھی بن رہا ہے۔۔۔۔اسی طرح گلیوں کی تزئین و آرائش کی بے شمار مثالیں دنیا بھر میں موجود ہیں۔۔۔۔جہاں گلیوں کو آرٹ ورک کا نمونہ بنایا گیا ہے۔۔۔۔گلیوں کو اس قدر صاف ستھرا رکھا جاتا ہے کہ گلیوں کو فوڈ کورٹ بنا دیا گیا ہے جہاں لوگ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔۔۔۔اور صاف ستھرے ماحول میں بیٹھ کر خوش گپیاں کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ان معاشروں میں گلیوں کے مکین اور میونسپلٹی کا عملہ دونوں ہی اپنی اپنی ذمہ داری ادا کر کے ہر گلی کو صاف ستھراکھتے ہیں جس سے رفتہ رفتہ پورا شہر صاف ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔یوں آج دنیا کے صاف ترین شہروں کا جائزہ لیں تو ان کی صفائی کا نظام اس شہر کی گلیوں سے شروع ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔اور اگر دنیا کے گندے ترین شہروں کا تجزیہ کریں تو ان کی گندگی کا منبع اس شہر کی گلیاں ہی ہیں۔۔۔۔جہاں سے گندگی اور غلاظت کی شروعات ہوتی ہیں اور پھر پورا شہر اس غلاظت میں ڈوب جاتا ہے۔۔۔۔

ہمارے معاشرے کی اکثریت غریب اور کم آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔۔۔شہر ہو یاگاؤں ہوغریب اور متوسط طبقے کی آبادیوں کے معاشی و صحت کے مسائل کا اگر تجزیہ کریں۔۔۔۔تو گلیوں کا بنیادی کردار سامنے آتاہے۔۔۔ہر گلی کا اس کے مکینوں کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔۔۔بچے ہیں تو گلی ہی کھیل و شرارت کا میدان ہے۔۔بلکہ یہ تو روز کا معمول ہے ہر گھر کی خواتین جب صبح ہونے کے بعد دن کے کام کاج میں مصروف ہوتی ہیں تو وہ بچوں کو گلی میں نکال دیتی ہیں۔۔۔۔اب بچے جب تک تھکتے نہیں یا گھر سے بلاوا نہ آ جائے گلی ہی کو اپنا مسکن بنائے رکھتے ہیں۔۔۔وہیں گلی کی زمین پہ لوٹتے ، بیٹھتے ، شرارتیں کرتے اور بھاگتے دوڑتے ہیں۔۔۔۔۔۔ لڑکپن میں ہیں تو گلی کی نکڑ ہی محفل یاراں کا سامان کرتی ہے۔۔۔۔نوخیزجوانی میں گلی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک متجسس نظروں سے گھنٹوں ٹہلنے کے سلسلے ہوں یا۔۔۔۔بڑھاپے میں اپنے بوڑھے لنگوٹیوں کے ساتھ گھنٹوں گپ شپ میں صرف کرنے کی جاء بھی گلی کی کوئی نکڑ یا ’’تھلی‘‘ ہی ہوتی
ہے۔۔۔۔۔ گلی ہی میں شادیوں کے شامیانے لگتے ہیں۔۔۔۔ڈھول کی تھاپ پہ خوشیاں منائی جاتی ہیں۔۔عورتیں اوربچے خاص طور پہ جمع ہوتے ہیں۔۔۔۔مہندی کے رنگ بکھیرے جاتے ہیں۔۔۔۔دلہا ودلہن کو رخصت کیا جاتا ہے۔۔۔۔ کہیں توولیمے کے کھانے کا اہتمام بھی گلی میں ہوتا ہے۔۔۔۔۔گلیوں ہی میں ماتم کے لئے بھی سائبان لگتے ہیں۔۔چٹائیاں اور پھوڑیاں بچھتی ہیں۔۔لوگ تعزیت کے لئے جمع ہوتے ہیں۔۔جنازے اٹھائے جاتے ہیں۔۔۔۔بقر عید پہ قربانی کا جانور باندھنا ہو یا قربانی کے جانور کو ذبح کرنا ہو ۔۔یہ امور بھی گلی ہی میں انجام دئے جاتے ہیں۔۔۔۔یہ گلی ہی ہوتی ہے جہاں ووٹ مانگنے والے بھی آتے ہیں۔۔ اور بھیک مانگنے والے بھی۔۔ٹھیلے والے بھی آتے ہیں۔۔تبلیغ کرنے والے بھی باجماعت گشت کرتے ہیں۔۔ گلیاں مکانوں کے ساتھ ضرورجڑ ی ہوتی ہیں لیکن اس سے زیادہ وہ مکانوں کے مکینوں کے دلوں کو آپس میں جوڑ کے رکھتی ہیں۔۔۔۔۔گلی کے مکین ایک دوسرے کے غم و خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔۔۔۔گلیوں کے راستے احساس باہمی کے ذریعے دلوں تک پہنچتے ہیں۔۔۔۔۔آئیے ایک لمحے کے لئے سوچتے ہیں کہ۔۔۔گلی کے یہ رنگ ڈھنگ ختم اور رونقیں مانند کب پڑ جاتی ہیں؟۔۔۔یہ خوبصورت رشتے کو جوڑنے والی گلیاں کب مکنیوں کے لئے وبال جان بن جاتی ہیں؟بچے بھی، بوڑھے بھی اور جوان بھی، گھر کے اندر رہنے والے مکین بھی اور گلی میں چلنے، بیٹھنے اور کھڑے ہونے والے کب ان کے عتاب کا شکار ہوتے ہیں؟۔۔۔۔بہت سادہ اور آسان سا جواب ہے۔۔۔۔۔۔جب گلی کے مکین اس گلی سے رشتہ توڑ دیتے ہیں۔۔۔۔یہ گلی سے رشتہ توڑنے کا مطلب کیا ہے؟۔۔۔۔۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ گلی کو اپنے گھر سے الگ سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔گھر کو صاف کرتے ہیں۔۔۔گلی کو گندا کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔گھر اور گلی کی یہ جدائی۔۔۔۔سب مکنیوں کے جب مزاج کا حصہ بن جاتی ہے تو۔۔۔۔پھر رفتہ رفتہ گلی کی رونقیں دم توڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔ ٹوٹے گٹر، بکھراکوڑا کرکٹ اور غلاظت سے بھری کھلی نالیاں ۔۔سارے تہذیبی رشتوں کے آڑے آ جاتی ہیں۔۔۔۔ وہ محبتیں، جو مل بیٹھ کہ ملتی اور پروان چڑھتی تھیں اب نہ رہیں، اب گلی سے گذرتے شلوار کو گندگی سے بچا بچا کے اور منہ پہ بدبو سے بچنے کے لئے کپڑا رکھے۔۔۔۔ گھر کے دروازے کے اندر گھسنے کی ہر روز مشق کرتے ہیں۔۔۔گلی میں کھڑا ہونا یا بیٹھناتو کجا اب گلی سے گھر کے دروازے تک کا سفر بھی محال ہو گیا ۔۔۔۔محفلیں بھی گئیں اور ٹہلنا بھی ختم ہوا۔۔۔۔گندی گلیوں میں شامیانے لگانے کی بجائے۔۔۔شادی ہالوں کا رخ کیا۔۔۔۔غم زدوں کو بٹھانے کا اہتمام گھروں کی چھتوں پہ شروع کر دیا۔۔۔۔لیکن بے چاری گلیوں کو کوڑے کرکٹ کا ڈھیر، اور غلاظت سے بھرنے کی کوششوں میں کوئی فرق نظر نہ آیا۔۔۔۔پہلے پہل تو ایک دوسرے کی آنکھ چھپا کے کچرا پھینکا ۔۔۔لیکن رفتہ رفتہ یہ شرم و لحاظ بھی ختم ہو گیا۔۔۔۔جب سب پھینکتے ہیں تو ہم نے پھینک دیا تو کیا ہے۔۔اس طرح اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ گلی میں پھینکنا طبعیت ثانیہ بن گئی۔۔۔ ۔۔ا ور یوں گلیوں کے مکینوں نے گلیوں کو اپنے لئے نا قابل استعمال بنا دیا۔۔۔۔۔لیکن خرابی کچھ اس سے بھی زیادہ یہ ہو گئی کہ خرابی کو خرابی سمجھنا بھی چھوڑ دیا گیا۔۔۔۔۔بری عادت کو برا کہنا بھی ترک کر دیا گیا۔۔۔۔۔اپنی بری عادتوں کا سارا ملبہ دوسروں پہ ڈالنے کا ایسا مزاج بن گیا کہ ہر وقت میونسپلٹی کو کوسیں گے۔۔۔۔حکام بالا کو گالیاں دیں گے۔۔۔۔۔گلی کی ٹوٹ پھوٹ اور گندگی کو ظالم نظام سے جوڑ کر انقلاب کی تیاری پہ پر مغز لیکچر دیں گے۔۔۔۔۔ایک دوسرے کے گھر کے سامنے کچرا کنڈی بنائیں گے۔۔پھرایک دوسرے سے دست وگریبان ہوں گے۔۔۔۔دلوں میں کدورتیں پالیں گے۔۔اپنے گھر کی گندی نالی کے پانی کا بہاؤ دوسرے کے دروازے کی طرف موڑ دیں گے۔۔۔۔۔گلی تو گندی ہو گئی ۔۔۔اس کے ساتھ ہی سارے رشتوں میں بھی سڑاند پیدا ہو گئی۔۔۔اپنا گند دوسرے پہ پھینکنے کے نتیجے میں سب گندے ہونا شروع ہو گئے۔۔۔۔گلی غلاظت اب گھروں کے اندر اپنے اثرات مرتب کرنے لگی۔۔۔۔۔۔جب گلیاں صاف تھیں گرود پیش کی ہوا صاف تھی، صحن میں بیٹھتے تھے ۔۔رات کو کھڑکیاں کھول دیتے تو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا نیند کو خوشگوار بنا دیتی تھی۔۔۔۔لیکن اب تو صحن میں بیٹھنا تو در کنار کمرے کے اندر بھی سکون نہیں، گندگی کی بہتات سے بدبو اس قدر ہو گئی کہ کھڑکیوں کو بند کرکے بھی سانس لینا محال ہو جاتا ہے۔۔۔اور اوپر سے مچھروں کی بھرمار نے سونے پہ سہاگہ کر دیا۔۔۔۔۔۔نتیجہ یہ ہوا کہ گھروں کے اندر بھی سکون غارت ہوا۔۔۔۔اور پھر کچھ دنوں میں گلیوں کی یہ گندگی مزید کمالات دکھانے لگی۔۔۔۔مکھیوں اور مچھروں کی بہتات نے بیماریوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔۔کھلی نالیوں کی غلاظت۔۔۔۔اس قدر ہوگئی کہ بوسیدہ پانی کی لائنوں میں بھی سرایت کرنے لگی۔۔۔اور پھر تو نوبت یہاں تک آ گئی کہ۔۔۔۔۔گندی نالیوں کی بدولت سانس بھی گندی فضا میں۔۔۔۔پینے کا پانی بھی غلاظت سے متاثر۔۔۔۔مچھروں نے اس قدر گھر بنا دئیے کہ۔۔۔۔ہر گھر سے ڈینگی کامریض سامنے آنے لگا۔۔۔۔ اور مکھیوں نے رہی سہی کسر اس طرح پوری کی ہر کھانے اور پینے کی شئے کو اس نے گلی کی گندگی کو بر آمد کر کر متاثر کرنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔پہلے بچے تیزی سے بیمار ہونا شروع ہوئے۔۔۔پھر بوڑھے بیماری کے بستر پہ گرے اور پھر دیگر۔۔۔۔یوں صحت پہ بجلی گری تو ساتھ ہی معاشی مسائل نے بھی سر اٹھانا شروع کیا۔۔۔۔۔۔ہسپتالوں کے چکر پہ چکر۔۔۔۔طویل بیماری سے محنت مزدوری کا کام چھوٹ گیا۔۔۔۔گھر میں فاقوں کی نوبت آ گئی۔۔۔۔۔۔کہیں طویل بیماری کی وجہ سے نوکری چھوٹ گئی۔۔۔۔تو کہیں بیماری اس قدر بڑھی کے جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔۔گلی کے گٹر کے مین ہول کے ڈھکن ٹوٹے یا چوری ہو گئے۔۔۔بچے باہر نکلے اور اس میں گر کر موت کی آغوش میں چلے گئے۔۔چند دن کا رونا دھونا پیٹنا اور پھر زندگی اسی ڈگر پہ۔۔۔پیچش، الٹی،ہیضہ،بخار، یرقان تو ایسے طاری ہیں جیسے ان کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔۔بیماریوں کے باعث بچوں کی تعلیم کا سلسلہ رک گیا۔۔۔اس طرح گلیوں سے رشتہ توڑنے والے اپنی زندگی اور اپنی خوشیوں سے رشتہ توڑنے کا باعث بن گئے۔۔۔۔۔۔لیکن افسوس صد افسوس سب بھگت رہے ہیں۔۔۔لیکن غفلت اور بے شعوری کی آنکھوں پہ ایسی پٹی باندھی ہوئی ہے کہ کچھ دکھائی اور سجھائی نہیں دیتا۔۔۔۔کبھی غور وفکرکی زحمت نہیں کی کہ یہ سب کچھ کیوں کر ہو رہا ہے ؟۔۔۔۔گھر کو صاف کرنے کے چکر میں گلی کو گندا کیا اور پھر رفتہ رفتہ خود گندے ہو گئے۔۔۔۔گھر بھی گندا ہو گیا۔۔۔صحت اور معیشت سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔۔۔۔۔یقیناًاہل علم و دانش جو ان گلیوں کے باسی ہیں وہ اس عام سے مسئلے پہ ضرور غور فرمائیں گے۔۔۔علت و معلول کی بحث میں ہمارے معاشرے کی بنیادی خرابیوں کی اس علت کو بھی سادہ اور آسان انداز سے گلی کی نکڑ پہ کھڑے ہو کر کر لوگوں کو سمجھائیں گے۔۔۔۔اور وہ اہل علم ودانش و فلسفہ جو ڈیفنس، ماڈل ٹاؤں اور گلبرگ کی خوبصورت فضاؤں میں رہتے ہیں اور کیفے ٹیریوں اور کانفرنس ہالوں میں اکثر جلوہ گر ہوتے ہیں۔۔۔ جو عوامی انقلاب کے حوالے سے طبع آزمائی میں گذشہ نصف صدی سے مصروف ہیں۔۔ان کی اپنی گلیاں تو صاف ستھری ہیں لیکن یقین جانیں وہ بھی شہر کی اکثریتی گندی فضا کے اثرات سے نہیں بچ سکیں گے۔۔۔۔۔ان خوبصورت سوسائیٹیوں کے مکینوں سے بھی دست بدستہ عرض ہے کہ انقلاب اگر لانا ہے تو غریبوں کی گلیوں کا رخ کیجئے۔۔بیماروں کے جم غفیر۔۔۔۔کبھی انقلاب کا ہراول دستہ نہیں بن سکتا۔۔۔۔۔۔عوامی انقلاب کے سوتے ان گلیوں سے ہی پھوٹیں گے۔۔لوگوں کوگلی میں منظم کرو، ان کی تنظیم سے پہلے گلی میں انقلاب لاؤ۔۔۔تو صحت مند جسم اور صحت مند ذہن ملیں گے۔۔۔گلیوں کے مکینوں میں تنظیم پیدا کر کے بلدیہ کا نظام درست کرواؤ۔۔۔۔جب ہر گلی میں تنظیم ہو گی اور انقلاب آئے گا تو۔۔ پھرشہر اور ملک یقیناً انقلاب کی طرف بڑھے گا۔۔۔۔۔

Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 136284 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More