جدید ٹیکنالوجی کی بدولت دورحاضر انسانی زندگی کا ترقی
یافتہ دور ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانی تعلقات کی نت نئی شکلیں
پیدا کرکے ان کے دائرے کو وسیع ترکر دیا ہے۔ ان ہی ترقیاتی شکلوں میں آن
لائن سوشل نیٹ ورکنگ بھی ہے۔ سماجی ذرایع ابلاغ نے انسانی زندگی کو بالکل
اک نئی سمت دی ہے۔ آج سوشل میڈیا آپسی رابطے کا مؤثرترین ذریعہ بن گیا ہے
اور جملہ ذرایع ابلاغ میں سوشل میڈیا کا استعمال بہت زیادہ ہو رہا ہے۔ ایک
بچے سے لے کر بوڑھے تک خاصی تعداد میں لوگ سوشل میڈیا سے منسلک ہیں۔ سوشل
میڈیا نے عالمی دنیا کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ دنیا بھر سے تین ارب پچاس
کروڑ افراد روزانہ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں اور اس
تعداد میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہورہا ہے۔ سوشل میڈیا کا انقلاب 1997ء
میں آیا تھا۔ایک عام اندازہ کے مطابق چار سے پانچ کروڑ سے زائد پاکستانی
سوشل میڈیا کا استعمال کررہے ہیں اور اس تعداد میں روزانہ مسلسل اضافہ
ہورہا ہے۔
سماجی میڈیا اور جدید مواصلاتی ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا گلوبل ولیج سے بھی
آگے نکل چکی ہے۔ اس کا مثبت استعمال کامیاب سماجی انقلاب برپا کر سکتا ہے،
لیکن لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کا منفی استعمال شروع کردیا ہے، جو جنسی
تشدد، لڑائی جھگڑے اور اخلاقی و ثقافتی زوال کا سبب بن رہاہے، جس سے بے بہا
مسائل سے دوچار معاشرے میں مزید مسائل جنم لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا بذات خود
اچھا یا برا نہیں ہے، اس کا اچھا یا برا ہونا اس کے استعمال کرنے والے پر
منحصر ہے۔ جس طرح استعمال کنندہ کی اخلاقی اور فکری کیفیت ہوگی، اسی طرح وہ
استعمال کرے گا اور ایسے ہی نتائج برآمد ہوں گے۔ سوشل میڈیا نے معاشرے میں
مذہبی رویوں کی تشکیل کے عمدہ مواقعے فراہم کیے ہیں اور مختلف مذہبی نظریات
اور مکاتب فکر کے لوگوں کاباہمی رابطہ اور انٹرایکشن ممکن بنا دیا ہے۔
مخالف سوچ و نظریات کے لوگوں کی باتوں کو پڑھنا گناہ کبیرہ سے کم نہیں
سمجھا جاتا تھا، لیکن سوشل میڈیا کی بدولت علمی اختلاف کرنے والوں کی اس
قسم کی باتوں کو بھی پڑھنے کا موقع ملا ہے، جس کی بدولت مخالف نقطۂ نظر کے
لوگوں کی کتابوں کو شجر ممنوعہ قرار دیے جانے کی سوچ خود بخود مسترد ہوگئی
اور کسی بھی مسئلے کو مختلف جہتوں سے سوچنے کا موقع ملا، جس سے کسی ایک
مسئلے پر مختلف نظریات اور آراء کر پڑھ کر علوم میں اضافہ ہوا اور آپسی
مذہبی و مسلکی اختلافات کم ہونے کی امید بھی پیدا ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا کے
ذریعے مختلف الخیال لوگوں کو ایک دوسرے سے براہ راست مکالمے کا موقع ملا ہے،
جس سے بہت سے مذہبی مسائل میں تصویر کا دوسرا رخ دیکھ کر اس پر مختلف آراء
کی جانکاری سے اپنی ایک نئی رائے قائم کرنا آسان ہوا ہے اورمختلف مذہبی
نظریات کے حاملین کے درمیان پیدا شدہ دوریاں کم ہوکر نزدیکیوں میں بدلنا
شروع ہو گئی ہیں۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے ایک عام انسان کو زبان مل گئی ہے،
اب وہ اپنی بات دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔ کسی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے میں
عوام میڈیا یا حکومت کے محتاج نہیں رہے ہیں، بلکہ اپنی حیثیت میں آواز اٹھا
سکتے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں ایسے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں
سوشل میڈیا نے بہت ہی مثبت کردار ادا کیا ہے۔ برما میں انتہا پسند بودھ
دہشتگردوں کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانا ہو یا شام و فلسطین میں درندگی کے
خلاف صدائے حق بلند کرنا ہو۔ سوشل میڈیا پر ظلم کے خلاف آواز اٹھی تو اس کے
بعد پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا متحرک ہوا اور یہ آواز اقوام متحدہ تک
جاپہنچی، اس پر نوٹس لیا گیا۔ دنیا میں ایسے بہت سے واقعات ہیں جن میں سوشل
میڈیا نے اپنی طاقت کا لوہا منوایا۔ پاکستان میں بھی متعدد بار سوشل میڈیا
نے اپنی طاقت منوائی ہے۔ کئی بار حکومت نے اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر مکمل پابندی عاید کی تو سوشل میڈیا نے ہی عوام
کو حقائق سے آگاہی دی اور حکومت کے نااہلی کا پردہ چاک کیا، اگرچہ سوشل
میڈیا کی وجہ سے بہت سا جھوٹ بھی شامل ہوا، لیکن حکومت کو بھی سوشل میڈیا
کی طاقت کو تسلیم کرنا پڑا۔ کراچی میں شاہزیب قتل کیس کے مرکزی ملزم شارخ
خاں جتوئی ہو یا نقیب اﷲ محسود کے قاتل راؤ انوار کی درندگی کا کیس ہو۔
قصور میں ننھی زینب سمیت متعدد بچیوں کے قتل کا کیس ہوا یا مردان کی ننھی
عاصمہ کا کیس ہو۔ ڈیرہ اسماعیل خاں کی شریفاں بی بی کا کیس ہو یا سندھ کی
تانیہ کے قتل کا کیس ہو۔ یہ اور ان جیسے سیکڑوں معاملات میں سوشل میڈیا نے
کھل کر ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور ظالم کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے
کہ اگر کمزور عوام بھی متحد ہوکر آواز اٹھائیں تو ظالم و جابر حکمرانوں،
وڈیروں، سیاست دانوں اور عوام کو اپنا غلام سمجھنے والوں کو ناکوں چنے چبوا
سکتے ہیں۔
سماجی ذرایع ابلاغ کے استعمال نے ذاتی زندگی،معاشرتی روابط اورسیاسی
ومعاشرتی معاملات پر کافی زیادہ اثرات چھوڑے ہیں۔ جب کہ یہ بھی ایک حقیقت
ہے کہ ہر چیز کے مثبت اور منفی دونوں قسم کے اثرات ہوتے ہیں۔ یہی حال کچھ
سوشل میڈیا کا بھی ہے،جہاں سوشل میڈیا انفرادی اور گروہی سطح پر باہمی
رابطوں کا ذریعہ، اطلاعات اور خبروں کی آزادانہ ترسیل کا موثر ترین وسیلہ
بن کر سامنے آیا ہے، وہیں اس کی وجہ سے معاشرے میں بہت سی خرابیوں نے بھی
فروغ پایا ہے۔ گزشتہ ہفتے جعلی خبروں کے بارے میں ہونے والی تحقیق کے بعد
سائنسدانوں نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر جعلی خبریں بہت تیزی سے اور بہت دور
تک پھیلتی ہیں۔ اس حد تک کہ صحیح خبریں بھی ان کے سامنے ختم ہو جاتی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ دس برسوں میں انگریزی زبان میں 30 لاکھ افراد
کی سوا لاکھ سے زیادہ ٹویٹس پر تحقیق کے بعد محققین نے دعویٰ کیا کہ جعلی
خبریں زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں۔ اگست میں میانمار کی فوج کی ریاست رخائن
میں کارروائی کے نتیجے میں بچوں اور عورتوں سمیت سات لاکھ افراد بنگلا دیش
منتقل ہونے پر مجبور ہو گئے تھے۔ فیس بک نے کہا تھا کہ اس کے پلیٹ فارم پر
نفرت انگیز مواد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ فیس بک کی ترجمان کا کہنا تھا کہ
ہمیں اسے انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں اور ہم نے ماہرین کے ساتھ کئی سالوں
تک میانمار میں ایسے مواد کے انسداد اور محفوظ ذرائع کے لیے کام کیا ہے۔ ان
کاموں میں میانمار کے لیے مخصوص سیفٹی پیج، مقامی سطح پر بنائے گئے ہمارے
کمیونٹی سٹینڈرڈز اور مستقل بنیادوں پر سول سوسائٹی اور مقامی تنظیموں کی
ملک بھر میں ٹریننگ شامل ہے۔ اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم نے اپنی تحقیقات
کی عبوری رپورٹ جاری کی ہیں۔ ٹیم کے سربراہ مرزوکی دروشمن نے کہا کہ سوشل
میڈیا نے بڑے پیمانے پر لوگوں میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تلخی پھیلانے
میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ یقینی طور پر نفرت انگیز مواد بنیادی طور پر اسی
کا حصہ ہے۔ جہاں تک میانمار کی صورتحال کی بات ہے تو سوشل میڈیا فیس بک ہے
اور فیس بک ہی سوشل میڈیا ہے۔ میانمار میں انسانی حقوق کی صورتحال کی
نمائندہ خصوصی یانگ ہی لی کا کہنا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ قوم پرست بودھوں
کے اپنے فیس بک اکاؤنٹس ہیں اور وہ روہنگیا یا دیگر نسلی اقلیتوں کے خلاف
نفرت اور تشدت کو ہوا دے رہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ فیس
بک اب بے لگام ہو گیا ہے اور جس مقصد کے لیے اسے اصل میں بنایا گیا تھا وہ
اب نہیں رہا۔ یہ عبوری رپورٹ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا نشانہ بننے والے
اور گواہوں کے 600 انٹرویو پر مبنی ہے، جو بنگلا دیش، ملائیشیا اور تھائی
لینڈ میں کیے گئے۔
سوشل میڈیا کی وجہ سے معاشرے میں بہت سی اخلاقی و سماجی خرابیوں نے فروغ
پایا ہے اور ایسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں جو معاشرے کے مختلف طبقات
اورمکاتب فکر میں ایک دوسرے سے نفرت کو پروان چڑھانے اور باہمی انتشار اور
خلفشار کا سبب بن رہی ہیں۔معاشرے میں بیشتر افراد اسے لوگوں کو بدنام کرنے
کے لیے بے بنیاد خبروں کو پھیلانے، تصاویر اور خاکوں میں ردوبدل جیسے
طریقوں کے ذریعے غلط استعمال کررہے ہیں۔ ماضی میں کسی کے خلاف دو الفاظ
شایع کروانے کے لیے ہزار جتن کرنا پڑتے تھے، لیکن اَب کسی کے بخیے ادھیڑنے
ہوں،کسی کی زندگی میں زہر گھولنا ہو اور کسی کی عزت کی دھجیاں اڑانی ہو تو
سوشل میڈیا کے ذریعے بناخوف کے یہ کام ہوجاتا ہے۔ فیس بک پر جعلی اکاؤنٹس
کے ذریعے انسانیت کو جو داغدارکیا جارہا ہے، اس سے کون واقف نہیں۔ سوشل
میڈیا پر بلاخوفِ لوگ ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھول لیتے ہیں۔ مختلف جماعتوں،
فرقوں، گروہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی اپنی لابیاں بنائی ہوئی ہیں، جو اپنے
حلقے کی ہر غلط ٹھیک بات میں تائید کرتے ہیں، جب کہ مخالف حلقے کی ہر غلط
ٹھیک بات میں مخالفت کرنا فرض ہوتا ہے۔ اپنے قائدین کے حق میں ایسی ایسی
صفات گنوائی جاتی ہیں، جن سے وہ بے چارے خود بھی واقف نہیں ہوتے، جب کہ
مخالفین کے خلاف ایسے ایسے الزامات لے آتے ہیں، جوان کی زندگیوں میں کہیں
بھی نہیں ہوتے۔ مختلف گروہ مخالفین کے لیے ناقابل برداشت زبان اورکلمات
استعمال کیے جاتے ہیں۔ مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ورکرز سوشل میڈیا
خاص طور پر فیس بک پر بہت زیادہ متحرک نظر آتے ہیں، جو اس سائٹ کو عام طور
پر پروپیگنڈہ کے لیے استعمال کرتے ہیں اور سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کی بے
عزتی کے لیے مضحکہ خیز فرضی تصاویرکو اپ لوڈ کرتے ہیں۔ متعدد معروف شخصیات،
حکومتی عہدیداران، سیاستدان اور ججز کے نام سے آئی ڈیز سماجی رابطے کی
سائٹس پر موجود ہیں، لیکن وہ شخصیات بار بار اس کی تردید کرچکی ہیں۔
سوشل میڈیا پرکسی بھی خبر یا افواہ کی تحقیق سے بھی پہلے وہ پوری دنیا میں
نشر کردی جاتی ہے۔ معلومات درست ہوں یا غلط،کوئی اس جھنجھٹ میں پڑتا ہی
نہیں، بطورِ خاص جب معلومات مذہبی نوعیت کی ہوں، جن میں بہت سے ثواب کی
نوید، یا پھر شیطان کے روکنے کا ذکر کیا گیا ہو، اس وقت تو سوشل میڈیا
استعمال کرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد بغیر تحقیق و تصدیق کے بس شیئر کیے
جاتی ہے۔ ثواب کے نام پر بہت سی پوسٹوں کو حدیث اور آیت کے عنوان سے
پھیلایا جاتا ہے، جو انتہائی خطرناک بات ہے۔ نوجوان نسل کے ذہن ودماغ
پرسوشل میڈیا جنون کی حد تک حاوی ہوچکا ہے، وہ اپنے کام اور پڑھائی کے
اوقات بھی سوشل میڈیا پر صرف کر رہا ہے، جس سے ان کی تعلیم پر برا اثر پڑ
رہا ہے۔ شریک حیات ہمسفرکو نظرانداز کرکے ٹوئٹر، وہاٹس اپ یا فیس بک پر
مصروف رہنے کی عادت نے بہت سے جوڑوں کو علیحدگی کی منزل تک پہنچا دیا ہے۔
بعض عرب ممالک میں تو طلاق کی شرح بڑھنے کی وجہ سوشل میڈیا کو قرار دیا
جاتا ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا کے منفی پہلوؤں کو کسی طور پر بھی نظرانداز
نہیں کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا پرکسی قسم کی کوئی روک تھام کا نظام موجود
نہیں ہے، ہر شخص اچھی بری بات کہنے اور لکھنے میں آزاد ہے۔ کوئی شخص بلاروک
ٹوک کسی بھی مذہبی شخصیت اور مذہبی نظریات کو مطعون کرسکتا ہے اور مخالف
مذہبی سوچ کی محترم شخصیات پرکیچڑ اچھال سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر مخالفین کے
خلاف پروپیگنڈے کی مکمل آزادی کی وجہ سے معاشرے میں انتہا پسندی میں اضافہ
ہورہا ہے۔ بعض اوقات ایک دوسرے کے خلاف بے جا الزامات یا غیر مستند فتاویٰ
جات کا پرچارکرکے انتشار اور خلفشار بھی پھیلایا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا کو یوزرز نے اکھاڑہ بنایا ہوا ہے، جہاں ایک دوسرے کے خلاف
دھینگا مشتی جاری ہے، اس دنگل میں ہر کوئی غلط یا صحیح طریقہ اختیار کرتے
ہوئے فریق مخالف کو پچھاڑنے کے لیے کوشاں ہے، جس کی وجہ سے معاشرے میں بہت
سی اخلاقی و سماجی خرابیوں نے فروغ پایا ہے اور ایسی سرگرمیاں بھی عروج پر
ہیں جو معاشرے کے مختلف طبقات اورمکاتب فکر میں ایک دوسرے سے نفرت کو پروان
چڑھانے اور باہمی انتشار اور خلفشار کا سبب بن رہی ہیں۔ پرنٹ اورالیکٹرانک
میڈیا پر تدارک کا امکان موجود ہے،کیونکہ وہاں لکھنے اورکلام کرنے والوں کو
لوگوں کی اکثریت جانتی ہے، لیکن سوشل میڈیا پرحتمی طورپر شاید ہی کوئی کسی
کو جانتا ہو، اس لیے کوئی بھی شخص مذہب و ملک یا محترم شخصیات و نظریات کے
خلاف کچھ بھی لکھ سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ قانون
کی کمزوری کی وجہ سے اسے ملحدین اور اسلام دشمن عناصر کی جانب سے شعائر
اسلام، ناموس رسالت کی توہین اور مسلمانوں کو اسلام کے بارے میں تشکیک میں
مبتلا کرنے کے لیے بلاروک ٹوک استعمال کیا جارہا ہے۔ ملحدین نے الحاد کی
تبلیغ کے لیے مسلم دنیا کے لیے خصوصی انٹرنیٹ گروپس تشکیل دیے ہوئے ہیں۔
سائبر وار فیئر، سائبرکرائم اور سائبر ٹیررازم جیسی اصطلاحات دْنیا میں
رائج ہیں، لیکن سوشل میڈیا کے منفی استعمال کو روکنے کے لیے ہمارے یہاں
کوئی جامع بات دکھائی نہیں دیتی۔اس کے لیے جامع قانون سازی اور پھر اس
پردیانت دارانہ عمل کرنے اور اس کے ساتھ سوشل میڈیا کو تعمیری انداز میں
استعمال کا شعور اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ |