مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

اللہ کی پناہ دیکھو کہ انگریز نے بس چھوٹا سا مشورہ دیا ہے اور ایک ملک کا محافظ ہے وہ امیر بننے کے لیے ملک کے خزانے کو قرضہ قرار دے دیتا ہے اور انگریز اس کو اس خزانے کا ملک بنا کر کہتا ہے کہ سوئیس بینک ورلڈ بینک میں جمع کرا دو اور اس طرح سے اپنے ملک کا خزانہ ہی قرضہ بن جاتا ہے اور انگریز صرف زبان ہلا کر ہی ملک کے خزانے کا مالک بن کر پھر وہی پیسہ ملک کو قرضہ دے کر احسان جتلانا شروع ہو جاتا ہے ہم نے اتنا قرضہ دیا ہے

مسلمانوں کا خوں باقی نہیں ہے
محبّت میں جنوں باقی نہیں ہے
صفیں کج دل پریشان سجدہ بے ذوق
کہ جذبہ اندروں باقی نہیں ہے

ہمارے معاشرے میں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انگریز مسلمانوں کو ایک اشارہ کرتے ہیں کہ تم ہم سے امیر بننے کا نسخہ پوچھو جب کوئی پوچھتا ہے تو کہتے ہیں کہ کام زیادہ مشکل نہیں ہے صرف یہ کام کرنا ہے کہ ایک خبر شائع کرنی ہے کہ مسلمانوں کے اوپر اتنے ارب روپیہ قرضہ ہو گیا ہے یعنی ایک معمولی سی حکمت عملی اختیار کرنی ہے وہ یہ کہ اخبار میں خبر شائع کراو ان کے کمینے دل میں یہ ہوتا ہے کہ ان مسلمانوں کو اللہ نے ناشکری سے منع کیا ہے ہم ان سے یعنی ایک اخبار کے مالک سے ایک ناشکری والی خبر شائع کروا کر ناشکری کرا دیتے ہیں تاکہ ان کے سروں پر اللہ کی بے آواز لاٹھی پڑے اور ان کو ہم آسانی سے شکستوں پر شکستیں دےدے کر بے وقوف بنا کر ان کو لوٹ لوٹ کر پراکسیز میں مبتلا کر دیں- اس بات کا معمولی سے معمولی ذہن کے مالک کو بھی پتا ہوگا کہ ایک اخبار کے ساتھ بہت سے صحافیوں اور اخبار کی ایجنسیوں والوں اور اور ہاکروں کا کاروبار جرا ہوتا ہے خاص طور پر صحافیوں کا بہت بڑا فرض ہوتا ہے

کہ وہ دنیا سے برائی اور کفر اور ظلم کا خاتمہ کریں اور عوام کی مثبت انداز میں ذہن سازی کریں تو اس طرح سے لازمی بات ہے کہ جب پیسے نظر آتے ہیں رقم تجوری میں آتی ہوئی نظر آتی ہے تو وہ سب ایمانداری بھول جاتے ہیں اور اس طرح سے انگریز صرف زبان ہی ہلاتے ہیں تو مسلمان کتنا بڑا گناہ کر بیٹھتے ہیں کہ ملک پاکستان میں جو ملک کا خزانہ ہے اس کو قرضہ قرار دے کر خبر شائع کر دیتے ہیں کہ ہمارے ملک پر اتنا قرضہ ہوگیا ہے ظالم انگریز کہتے ہیں معمولی سی ردّ و بدل ہے کون سا قرآن پاک میں یا حدیث میں ردّ وبدل کرنی ہے اور کاروبار میں تھوڑا بہت اولا چھپّا تو ہوتا ہے اس لیے جو ملک کا خزانہ ہے اسکو قرضہ قرارد ے کر یہ خبر شائع کرو کہ اتنا قرضہ ہے یہ یقین کریں کہ اتنی بڑی ناشکری ہے کہ اللہ کی پناہ دیکھو کہ انگریز نے بس چھوٹا سا مشورہ دیا ہے اور ایک ملک کا محافظ ہے وہ امیر بننے کے لیے ملک کے خزانے کو قرضہ قرار دے دیتا ہے اور انگریز اس کو اس خزانے کا ملک بنا کر کہتا ہے کہ سوئیس بینک ورلڈ بینک میں جمع کرا دو اور اس طرح سے اپنے ملک کا خزانہ ہی قرضہ بن جاتا ہے اور انگریز صرف زبان ہلا کر ہی ملک کے خزانے کا مالک بن کر پھر وہی پیسہ ملک کو قرضہ دے کر احسان جتلانا شروع ہو جاتا ہے ہم نے اتنا قرضہ دیا ہے اب جو لوگ یہ کرتوت کرتے ہیں ان سے میری بات ہوئی تو اس نے کہا کہ اس نلک کے لوگ ہے ہی اسی لائق ہیں -

خاص طور پر عورتیں اس طرح کے جھانسے میں آجاتی ہیں کہ ان کو صرف اتنا کہا جاتا ہے کہ جب ہم تم کو اتنے بڑے خزانے کی مالک بنا دیں گے تو جو تمھارے بھائی باپ چاچے مامے جو تم پر رعب جھاڑتے تھے اب تمھارے تلوے چاٹیں گے اور ایسا ہی ہوتا ہے جب کسی عورت کو اس طرح سے خزانے کی مالک بنا دیا جاتا ہے تو اس کی فطرت میں راتوں رات اتنی تبدیلی آجاتی ہے کہ اللہ کی پناہ کہ وہ خود کو اپنے ماں باپ کی مالک بن بیٹھتی ہیں جو بھائی محنت مشقّت کرکے پیسا کما کر لاتے ہیں اور ان کی تربیّت کے لئے ڈانٹ ڈپٹ کر لیتے ہیں
اس کا بھی بدلہ لیتی ہیں اور جو لڑکے اپنے ماں پاب کو موڈ دکھاتے ہیں ان کے گستاخ ہوتے ہیں پھر بہنیں ان کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں چپ کر کے بیٹھو ورنہ کوڑی کوڑی کا محتاج بنا دوں گی تو ان کو بھیگی بلّی بننا پڑ جاتا ہے -

اور اس طرح سے یہ المیہ اب بڑھتے بڑھتے ناسور بن چکا ہے اور پاکستان قریب المرگ ہو چکا ہے کیا یہ المیہ ہمارے سکولوں کی تعلیم نے برپا نہیں کیا کہ ایک انگریز لڑکی کو نظارے کراتا ہے کہ ان کو ہیرون بننے کا جھانسہ دے کر گمراہ کر دیتا ہے اور پھر ان کو امیر کر دیتا ہے اور پھر ان کو ہدایت یہ دی جاتی ہے کہ جب تک مناسب وقت نہیں آ جاتا ہے تم نے پہلے جیسی اداکری کرنی ہے اور اس طرح سے جس کام میں عورتیں ماہر ہیں یعنی ناشکری وہ کرکے وہ ملک کے خزانے کو قرضہ قرار دلا کر ملک کا بھٹّہ بٹھانے میں اہم رول ادا کرتی ہیں-
اور اس دور میں تو پاکستان کی عورتیں یہاں تک جہالت کا شکار ہو چکی ہیں کہ ہم اگر اللہ کو خوش نہیں کر سکیں تو شیطان کو خوش کرکے ہم نے مردوں پر غلبہ حاصل کر لیا ہے

اور شیطان نے ہم سے عزّت کے ساتھ ساتھ ہمارے بچّے بھی ہم سے اپنی خوشنودی کے لِے قتل کروا لِے ہیں اب ہم کو ربّ نے چھوڑ دیا ہے تو ہم شیطان کا سہارہ بھی نا لیں تو کیا کریں اللہ تو ہماری سنتا ہی نہیں
شیطان کی اتنے ہزاروں سال عمر ہے اس نے اللہ سے سب کچھ لیا ہے اور وہ بھی یہ کہتا ہے کہ میں توبہ کیوں کروں جب کہ میرا قصور ہی نہیں ہے قصور ہی آدم علیہ السلام کا ہے تو توبہ بھی وہ ہی کرے اسی طریقے سے شیطان کہتا ہے اور اسی طریقے سے عورتیں کہتی ہیں کہ ہم ہے ہی ہر لحاظ سے فرسٹ ہیں اور ہمارا کوئی قصور ہی نہیں ہے تو ہم توبہ کیوں کریں اللہ نے ہم سے پوجا بھی کرانی ہے
اور پابندیاں بھی اتنی لگانی ہیں کہ یہ نا کرو وہ نا کرو اور شیطان کو کھلی چھٹّی تو ہم کیا کریں کہ اس کو اتنی سہولتیں اور ہم پر پابندیاں ہی پابندیاں ہماری سمجھ سے باہر ہے
اور اس طرح سے عورتیں برائی کا رستہ اختیار کر چکی ہیں ان کا کوئی حل نظر نہیں آتا کیوں کہ زلزلہ میں کافی تعدادمیں مری بھی ہیں لیکن سب بھول گئی ہیں اور جو عورتیں شروع سے بگڑی ہوئیں ہیں وہ کہتیں ہیں کہ دوسرے ملکوں میں تو روز آئے دن زلزلے آتے رہتے ہیں لیکن ان لوگوں نے انتظامات کر رکھے ہیں وہ لوگ اس لیے کامیاب ہیں کہ وہ عورتوں کو ہر میدان میں برابر کا حق ہی نہیں بلکہ لیڈیز فرسٹ کا عقیدہ رکھتے ہیں-

اور یہ بھی برملا کہتی ہیں کہ اپنےساتھی مردوں کو روو کہ جن کو ہم نے اپنا گرویدہ بنا لیا ہے اور وہ سارے عہدے بھول کرہمارے آگے پیچھے کتّوں کی طرح دم ہلاتے پھرتے ہیں-
جتنے بھی اسلام کے مطابق قوانین بنائے جاتے ہیں یا احکامات جاری کئے جاتے ہیں عورتیں سرعام بدمعاشی کرتے ہوئے ان احکامت کا ناصرف روک دیتی ہیں بلکہ توہین بھی کر دیتی ہیں -
جب کہا جاتا ہے کہ اللہ کا یہ حکم ہے تو کہتی ہیں کہ ہمارا ہی تالو کھا کہ اللہ کا یہ حکم ہے اللہ کا یہ حکم ہے جو لوگ تیرے سامنے ہماری عزّتیں تار تار کرتے ہیں ان کا تم کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہو حالانکہ غیر مردوں سے دوستیاں اور یارانے اس لیے لگاتی ہیں تاکہ گھر کے مردوں کو قابو میں کر سکیں اور اپنی حکمرانی اور بالا دستی قائم کر سکیں اور کہتی ہیں کہ تمھارا رب ہماری سنتا ہی نہیں ہے-
یہ سب باتیں بیان کرنے کے بعد حق تو یہ ہے کہ اس مسئلہ کا حل بیان کیا جائے لیکن میرے کالمز پر مردوں کی رسائی شاید نہیں ہے پھر بھی میں اپنا فرض پورا کرنا چاہوں گا-
جو لوگ اپنے ملک کے خزانے کو قرضہ محض اس وجہ سے قرار دے دیتے ہیں تاکہ امریکہ ہمیں خزانوں کا مالک بنادے گا اور پھر ہم اثر ورسوخ والے ہو جائیں گےاور اندرون بیرون ملک ہمارے کاروبار اور امپورٹ ایسپورٹ کے ادارے کام کریں گے بینکوں میں ہمارے حصص ہوں گے اور دن بدن ہماری دولت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا ان کو اللہ سے ڈرنا چاہیے اللہ کے عذابوں سے ڈرنا چاہیے یہ سوچنا چاہیے

کہ ہم روزانہ کتنے جنازے دفن کر کے آتے ہیں وہ بھی ہماری طرح ساری عمر یہ سوچتے رہے ہوں گے کہ ہم بھی غدّاری کفر شرک اور نافرمانی کر کے ہی ترقّی کر سکتے ہیں ورنہ ساری زندگی غربت میں ہی پھنسے رہیں گے اور چند سال عیش و عشرت کی زندگی گزار کے پھر موت کے منہ میں چلے گئے اور اب اللہ کے آگے حساب دیتے پھریں گے اور عذاب سہنا پڑے گا بد قسمتی سے اللہ سے ڈرانے الوں کی باتوں کو غیر اہم کر دینے والے حسن نثار جیسے بڑبولے اور بندے ساری یدایت بھلا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تو انصاف کرنے والا ہے رحم کرنے والا ہے ہماری گناہ میں گزاری ہوئی چند گھڑیوں کا اتنا بڑا عذاب کیسے دے سکتا ہے ہم ذرا سا شرک کا ارتقاب کر دیا تو عذاب بھی تو ذرا سا ہی ہونا چاہیے حضرت ابراہیم نے بھی تو یہ کہا تھا میرا رب ستارہ ہے جب وہ غائب ہو گیا تو کہا میں غائب ہو جانے والوں کو پسند نہیں کرتا جب چاند نظر آیا تو کہا کہ میرا چاند رب ہے اور جب وہ بھی ڈوب گیا تو اس کا بھی انکار کر دیا جب سورج کو کہا کہ یہ میرا رب ہے جب وہ بھی غروب ہو گیا تو اس کا بھی انکار کر دیا اور کہا کہ میں اس رب کی عبادت کرتا ہوں جو ان سب مخلوقات کا پیدا فرمانے والا ہے جس نے ستارے چاند سورج زمین انسان جانور درخت پرندے پیدا فرمائے جو بارشیں برساتا ہے جو ہمارے لیے طرح طرح کے اناج میوے اور کھیتیاں اگاتا ہے تو جب ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ ہمارا فلاں رب ہے اور اللہ نے اس واقعہ کو قرآن میں بیان فرمایا ہے تو وہ تو نبی تھے اور ہم تو عام انسان ہیں ہم تو پھر بہت ساری مخلوقات کو عارضی رب بنا سکتے ہیں-

قارئین کرام یہ باتیں انسان کو خود سمجھنی چاہئیں میں ایک مثال دے کر بات کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ جب اسلامی ماحول تھا سکولوں کالجوں میں یونیورسٹیوں میں اور سلیبس اسلامی تھا تو بچّے کہا کرتے تھے کہ اللہ کرے کہ آج سر جی کا ایکسیڈنٹ ہو جائے وہ آئیں ہی نا اور نا ہی سبق سنانا پڑے گا نا ہی مار کھانی پڑے گی مار نا بھی کھانی پڑی بےعزّتی تو ہو گی -
پھر ایک ماسٹر پر شیطان کا دورہ پڑا اور اس ماسٹر نے کہا کہ شیطانی لٹریچر اور سلیبس بناو پھر دیکھنا سکول کالج کتنی ترقّی کرتےہیں تو ایسا ہی ہوا اب بچّے دعا کرتے ہیں کہ اللہ کرے سرجی گولی لگےوہ آتے نہیں وہ چھٹیاں بہت کرتے ہیں ہمیں تو نا چھٹی کرنے میں مزا آتا ہے نا ہی سبق بھولتا ہے پھر وہ اب آتے کیوں نہیں تاکہ ہم فر فر سبق سنائیں اور اپنے دوستوں میں فخر کریں کہ ہم کوئی کند ذہن نہیں ہیں ہم تو بہت لائق اور ذہین ہیں تو ان کالمسٹوں کو شیطانی باتیں خوب آتی ہیں لیکن قرآن و حدیث کی تعلیم سے نابلد ہیں اور براہ راست تو کچھ نہیں کہہ سکتے قرآن و حدیث کو لیکن قران و حدیث کے علم کی عقائد کی نشرواشاعت اور تبلیغ کے بارے میں کہے گئے اشعار پر اس قدر شدید تنقید کرتے ہیں کہ لوگ دھڑا دھڑ گمراہ ہوتے چلے جارہے ہیں اور جس طرح سے سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں کے بچّے خوش ہیں شیطانی سلیبس پر اسی طرح شیطانی دماغ کے مالک تجزیہ نگاروں کے بھی بڑے فین ہیں کہ قران و حدیث کو ماننے والوں پر اتنی کڑی تنقید ہو رہی ہے اور شیطانی کاموں کی کھلی چھٹیّ مل رہی ہے کھاو پیو موج اڑاو-

میں ان سے کہتا ہوں کہ خدارا جہالت کا طرز عمل چھوڑ دو شیطان کی پیروی ناکرو
جو لوگ انتطامیہ سے تعلّق رکھتے ہیں وہ بھی نماز قائم کریں قرآن پاک کی تلاوت کریں ترجمہ سیکھیں بے دینی اور بے راہ روی کا رویہ چھوڑیں جو بندہ نماز قائم کرتا ہے والدین کی فرماں برداری اور خدمت کرتا ہے حق حلال کی روزی کماتا ہے جہاد کی تعلیم و تربیّت حاصل کرتا ہے اس کے پاس فضول کاموں کے لئے وقت ہی نہیں بچتا ہے اس لئے
میرے بھائیو وطن کے سپاہیو لوگوں کو گناہوں سے باز کرو اسلام کا نفاذ کرو نماز قائم کرنے والا قانون بناو ہمارے لئے مثال موجود ہے سعودیہ میں اسلام کا نفاذ ہے اب امانت کو قرضہ قرار دے کر ملک کو کافروں کے ہاتھوں فروخت کر دینے والے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے والے لمبے عرصے سے سعودیہ کی بھی ناشکری کرتے چلے آ رہے ہیں ایسے لوگوں کو بھی قابو کرو لیکن کرے کون سب تو کرپشن کا شکار ہیں جو کرپشن نہیں کرتا اس کو کوئی پوچھتا ہی نہیں وہ بے چارہ سب سہولتوں سے محروم کر دیا جاتا ہے اور اس کو پراکسیز میں مبتلا کر دیا جاتا ہے اس طرز عمل کو ختم کرنا حکومت وقت کا فرض ہے اب جس کو پراکسیز میں مبتلا کیا جاتا ہے اس کو ہی حکومتی کوتاہیوں کا ذمّہ دار قرار دے دیا جاتا ہے کہ اللہ کے حکمران تو وہ ہے جو متقی پرہیز گار ہے تو وہ سارے سیاپے کرے پھر کرے اسلام نافذ کرے کبیرہ گناہوں کا خاتمہ---

محمد فاروق حسن
About the Author: محمد فاروق حسن Read More Articles by محمد فاروق حسن: 108 Articles with 126152 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.