لاہور کے علاقہ مصطفی ٹاؤن اور ایل ڈی اے کے درمیان
تنازعہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ مصطفی تاؤن کے باسی اس وقت شدید کرب
میں ہیں ۔ ایل ڈی اے نے 1300 سے زائد مکینوں کو الاٹمنٹ کینسل کے
نوٹیفیکیشن جاری کئے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ اپنے اپنے پلاٹوں کی پھر سے
کلئیرنس کروائیں …… حالانکہ یہاں کے باسیوں نے مالکانہ حقوق ایل ڈی اے
افسران کی موجودگی میں ، ایل ڈی اے کے وضع کردہ تمام مراحل سے گزر کر اور
ساری قانونی کاروائیوں کے بعد حاصل کئے تھے …… مصطفی ٹاؤن متاثرین ایل ڈی
اے دفتر میں بہت جوتیاں گھسیٹ چکے ، مگر بے سود …… محکمہ کے افسران ان کی
بات سننے سے انکاری ہیں ۔ کسی بھی طریقے سے شنوائی نہیں ہو رہی ۔ یہ امر
مصطفی ٹاؤن کے مکینوں کیلئے بلاشبہ پریشان کن ہے ۔
حکومتوں اور اداروں سے نظرانداز ہونے کے بعد پاکستان کے پسے ہوئے طبقے کی
امیدیں حق ملنے کے حوالے سے معدوم ہو چکی ہیں ۔ اس وقت وطن عزیز میں عوام
کو اگر کسی ادارے سے انصاف کی امید ہے تو وہ صرف اور صرف عدالت عالیہ ہے ……
جس نے ہر اس سربراہ ادارہ کے کان کھینچے ہیں جو عوام الناس کے استحصال میں
مصروف ہے …… چیف جسٹس کے احکامات یقیناً ایسے افسران کیلئے پل صراط پر سے
گزرنے کے برابر ہوتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے غیر منصفانہ فیصلے واپس لینا
پڑتے ہیں ۔
جب سے چیف جسٹس آف پاکستان نے اسحاق ڈار کے گھر کے سامنے پارک کی جگہ سڑک
تعمیر کرنے کے حوالے سے ڈی جی ایل ڈی اے کی کلاس لی ہے، تب سے مصطفی ٹاؤن
لاہور کے باسیوں کا حوصلہ بھی بہت بڑھ گیا ہے …… انہیں انصاف ملنے کا یقین
ہو چلا ہے ۔
مصطفی ٹاؤن کے باسی اس وقت تازہ تازہ ایل ڈی اے سے ڈسے ہیں …… ایسے میں جب
چیف جسٹس نے ڈی جی ایل ڈی اے کے خلاف اسحاق ڈار کے گھر کے سامنے پارک ختم
کر نے کے حوالے سے سوموٹو ایکشن لیا ، تو اہلیان مصطفی ٹاؤن کی امید کا دیا
بھی روشن ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ متاثرین نے چیف جسٹس کے حضور اپنے ساتھ
ہونے والی زیادتی اور ناانصافی کی اس ’’واردات‘‘ کی درخواست جمع کروا دی ہے
اور چیف جسٹس آف پاکستان سے اس معاملے پر سوموٹو نوٹس لینے کی اپیل کی ہے ۔
مصطفی ٹاؤن کا مسئلہ بہت سنگین ہے …… مسئلہ یہ ہے کہ ’’لاہور کے اس علاقے،
جس کے قیام کو تقریباً چالیس سال سے زائد عرصہ ہو چلا ہے ، کے باسیوں کو
تین سے چار دہائیاں رہنے کے بعد ایل ڈی اے کی جانب سے ایک نوٹس موصول ہوتا
ہے جس میں انہیں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے پلاٹوں / مکانوں کے حصول
کیلئے جن پراپرٹی ڈیلروں کا سہارا لیا تھا وہ قبضہ مافیا تھا یا ان سے ملے
ہوئے تھے اور ان دونوں نے ملکر ایل ڈی اے اور مصطفی ٹاؤن کے رہائشیوں کی
آنکھوں میں دھول جھونکی ہے …… لہذا ان کے پلاٹ کے مالکانہ حقوق کینسل کر
دئیے گئے ہیں ۔ حالانکہ ایل ڈی اے یہاں کے مکینوں سے ہر مد میں فیس وصول
اور کاغذات جاری کر چکاہے ۔ واضح رہے کہ یہ خیال ایل ڈی اے کو تقریباً چار
دہائیوں بعد آیا ہے ۔
چالیس سال بعد اپنے ہی جاری کردہ کاغذات کو بوگس قرار دینا یقینا محکمہ ایل
ڈی اے کی نالائقی اور نااہلی ہی کہہ جا سکتی ہے یا پھر پیسہ کمانے کی اک
نئی چال ۔ ایل ڈی اے نے دو، چار نہیں ، مصطفی ٹاؤن کے تیرہ سو سے زائد
لوگوں کو آزمائش میں ڈالا ہے ، اور اس پر اسے کوئی پشیمانی بھی نہیں ……
ایسے میں جب چیف جسٹس نے مذکورہ معاملے پر ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے کو طلب
کرکے اختیارات کے ناجائز استعمال کا احساس دلا کر غلط اقدامات پر سرزنش کی
تو متاثرین مصطفی ٹاؤن کا بھی حوصلہ بڑھا ہے، انہوں نے اس موقر جریدے کے
ذریعے ایل ڈی اے کے اس اقدامات کے خلاف چیف جسٹس آف پاکستان سے سوموٹو
ایکشن لینے کی اپیل کی ہے۔ اس ضمن میں متاثرین نے احتجاج کے مختلف پہلو
استعمال کرتے ہوئے حکام بالا تک مطالبات پہنچانے کی کوشش کی ہے ، لیکن شاید
ایوان کے راستے میں کھڑی رکاوٹوں سے ٹکرا کر ان کی آوازیں واپس آ جاتی ہیں
۔ میں امید کرتا ہوں کہ اہلیان مصطفی ٹاؤن کی پکار چیف جسٹس تک پہنچے گی
اور وہ بے لگام اور منہ زور محکمہ ایل ڈی اے کو لگام ڈالنے ، محکمہ ایل ڈی
اے سے مصطفی ٹاؤن کے لوگوں کو ان کا حق لوٹانے ، یعنی ایل ڈی اے کی جانب سے
چھینے گئے مالکانہ حقوق واپس دلانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے ۔
متاثرین کا مشترکہ مطالبہ ہے کہ جسٹس ثاقب نثار فوری ایکشن لیتے ہوئے ایک
مرتبہ پھر ڈی جی ایل ڈی اے کو کٹہرے میں لائیں گے اور انہیں مصطفی ٹاؤن کی
زمینوں کا مسئلہ فی الفور حل کرنے کا حکم جاری کریں ۔ |