لوقا… ان چار اَناجیل میں سے ایک ہے جسے مسیحی برادری کے
ہاں قبولیت تامہ کا درجہ حاصل ہے۔سیدنا عیسی علیہ السلام کے ساتھ گستاخی کا
ایک واقعہ بیان کرتی ہے:
’’اور جو آدمی یسوع کو پکڑے ہوئے تھے اس کو ٹھٹھوں میں اُڑاتے اور مارتے
تھے، اور اس کی آنکھیں بند کر کے اُس سے یہ کہہ کر پوچھتے تھے کہ نبوت
(الہام) سے بتا کہ تجھے کس نے مارا؟ اور انہوں نے طعنہ سے اور بھی بہت سی
باتیں اس کے خلاف کہیں۔(لوقا: ۲۲:۶۳ تا ۶۵)
تیسری صدی کے مشہور انسائیکلو پیڈیا ’’لاروس‘‘ میں لکھا ہے ’’یہ اپریل کی
پہلی تاریخ تھی ، اور اسی تاریخ میں سیدنا عیسی علیہ السلام کو ایک عدالت
سے دوسری عدالت میں گھسیٹا گیا تاکہ (نعوذ باللہ) انھیں ’’فُول‘‘ بنایا جا
سکے۔یہ لانے، لے جانے والے یہودی تھے۔اپریل فول اسی واقعے کی یادگار ہے۔‘‘
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا اور ’’دائرہ معارف اسلامیہ‘‘ میں اس کے علاوہ بھی
کئی وجوہ نقل کی گئی ہیں۔ ان سب سے پتا چلتا ہے کہ اپریل فول ، انتہائی
گھٹیا، ظالمانہ اور بے وقوفانہ قسم کی رسم ہے۔ کچھ لوگوں نے اس کی ابتداء
کا تعلق ہسپانیہ سے جوڑا ہے، جب ہزاروں مسلمانوں کو بے وقوف بنا کر سمندر
کے عین وسط میں ڈبو دیا گیا۔ ہر سال یکم اپریل کو بعض لوگ از راہِ مذاق
دوسروں کو بے وقوف بناتے ہیں، ان سے جھوٹ بولتے اور دھوکہ کرتے ہیں۔ اسی
عمل کو اپریل فول کہا جاتا ہے۔بہر صورت یہ رسم کئی اخلاقی و معاشرتی مفاسد
کا مجموعہ ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں:
’’مسلمانوں کے نقطہ نظر سے یہ رسم مندرجہ ذیل بد ترین گناہوں کا مجموعہ ہے:
(۱) جھوٹ بولنا
(۲) دھوکا دینا
(۳) دوسرے کو اذیت پہنچانا
(۴) ایک ایسے واقعے کی یاد منانا ، جس کی اصل یا تو بت پرستی ہے یا توہم
پرستی، یا پھر ایک پیغمبر کے ساتھ گستاخانہ مذاق۔‘‘
غور کیا جائے تویہ سب گناہ زبان کے ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی، اخلاقی و
معاشرتی اعتبار سے دنیا کے کسی ملک و ملت اور مذہب ومسلک میں پسند نہیں کیا
جاتا۔مثلا اس رسم بد کا پہلا مفسدہ جھوٹ بولنا ہے، اور جھوٹ ہر معاشرے میں
ناپسند کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید فرماتا ہے۔ ’’کونوا مع الصادقین‘‘ یعنی سچے
لوگوں میں سے ہو جاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جھوٹ
گناہوں کی جانب لے جاتا ہے۔ اور گناہ جہنم تک پہنچا دیتے ہیں اور جو آدمی
جھوٹ بولتا رہتا ہے تو اللہ کے ہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔(جب اللہ کے ہاں
جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے تو عوام میں بھی جھوٹا مشہور ہو جاتا ہے۔)‘‘(بخاری)
جھوٹ سے بچنے کی ترغیب دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جو آدمی مذاق و
مزاح میں بھی جھوٹ بولنا چھوڑ دے ، میں اس کے لیے جنت کے وسط میں ایک گھر
کا ضامن ہوں۔‘‘ (ابو داؤد) سیدنا عثمانؓ نے فرمایا: ’’زبان کی لغزش پاؤں
کی لغزش سے بہت زیادہ خطرناک ہے۔‘‘انجیل متی میں سیدنا عیسی علیہ السلام کا
فرمان نقل کیا گیا ہے ’’جو چیز منہ میں جاتی ہے وہ آدمی کو ناپاک نہیں
کرتی، مگر جو مُنہ سے نکلتی ہے (جھوٹ، غیبت وغیرہ)، وہی آدمی کو ناپاک
کرتی ہے۔‘‘ (متی:۱۵: ۱۱) کوئی آدمی یہ نہیں چاہتا کہ میرے ساتھ جھوٹ بولا
جائے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے ’’جو چیز تو اپنے لیے پسند نہیں کرتا، کسی
مسلمان کے لیے بھی پسند نہ کر۔‘‘امام جعفر صادقؒ فرماتے ہیں: ’’جھوٹے میں
مروت نہیں ہوتی۔‘‘ کسی نے بطلیموس سے پوچھاجھوٹ بولنے میں کیا نقصان ہے؟‘‘
کہنے لگا ’’اس کے سچ کا اعتبار بھی جاتا رہتا ہے۔‘‘ مامون الرشید کہتا تھا
’’جو کوئی راست گوئی میں مشہور ہو گیا، اگر وہ مصلحت کی بنا پر کسی وقت
جھوٹ بھی بولے تو سچ سمجھا جاتا ہے۔ برخلاف دروغ گو کے، کہ اگر سچ بھی بولے
تو جھوٹ خیال کیا جائے گا۔‘‘ اپریل فول والے دن کسی شخص کو حقیقۃ نقصان ہو
رہا ہو، اور کوئی اسے اس کی اطلاع دے تو سننے والا یہی سمجھے گا کہ مجھے
فول بنایا جا رہا ہے۔ نتیجتا اسے نقصان پہنچے گا اور اس کا ذمہ دار ہر وہ
آدمی ہوگا جس نے یہ دن منانے میں اپنا حصہ ڈالا۔
دوسری چیز دھوکا دینا ہے۔مومن کی یہ صفت ہے کہ وہ کبھی دھوکا نہیں دیتا۔حتی
کہ اسلام نے بوڑھے لوگوں کو خضاب لگانے تک سے روکا ہے کہ یہ بھی دھوکا کی
ایک صورت ہے کہ دیکھنے والے سمجھیں گے یہ نوجوان ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
’’بوڑھوں میں بدترین وہ بوڑھا ہے جو سیاہ خضاب سے جوانوں کی مشابہت کرتا
ہے۔ کیوں کہ سیاہ خضاب فریب ہے اور فریب دینے والا ہم میں سے نہیں۔‘‘چہ
جائیکہ ایسا فریب جس سے کسی کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہو۔ایک بزرگ نے
ایک آدمی سے حدیث مبارکہ سننے سے اس لیے انکار کر دیا تھا کہ وہ اپنے
گھوڑے کو خالی جھولی کے ذریعے بلا رہا تھا۔ جب کہ گھوڑا یہ سمجھ رہا تھا کہ
اس کی جھولی میں دانہ ہے۔
تیسری چیز ایذا رسانی ہے۔ اور یہ بھی کسی ملک و مذہب میں جائز نہیں۔ حدیث
مبارکہ میں ہے ’’حقیقی مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان
محفوظ رہیں۔‘‘ اسی طرح فرمایا: ’’شرک کے بعد بدترین گناہ ایذا رسانی ہے۔‘‘
مخزن اخلاق میں لکھا ہے ’’ایسا اشارہ حرام ہے جس سے کسی کو رنج ہو، چہ
جائیکہ ایسا کلام، ایسا کوئی کلام حلال نہیں جس سے کوئی گھبرائے یا
ڈرے۔‘‘یہی وجہ ہے کہ اسلام میں کسی کی طرف اسلحے سے اشارہ کرنا بھی حرام
ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں ’’ہم مذاق ہی تو کرتے ہیں، کیا اسلام اتنے سے مذاق کی
اجازت بھی نہیں دیتا؟‘‘ تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ مذاق اور مزاح کے بھی
کچھ اصول اور ضوابط مقرر ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مذاق میں بھی
جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ایسا مذاق جس میں کسی کو ایذا پہنچے، دلی اذیت ہو،
جھوٹ ہو، دھوکہ دہی ہو یا عزت نفس اور جان کو خطرہ ہو، جائز نہیں۔ شیخ
عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اے مذاق اڑانے والے! جلد تجھے اس
کا جواب بھی نظر آ جائے گا۔‘‘ہاں! اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو دل لگی سے اسلام
نہیں روکتا۔بل کہ ایسی دل لگی کرنے اور دوسرے کا دل جیتنے کی ترغیب باقاعدہ
اسوہ پیغمبر ﷺ سے ثابت ہے۔
کچھ لوگ ایسے مہلک مذاق کو ہلکا سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ واقعات شاہد ہیں ،
ایسے قلیل مذاق سے کئی ایک کی جان چلی گئی یا انھیں شدید ذہنی اذیت پہنچی۔
اسی لیے سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں: ’’میری زبان درندہ ہے اگر چھوڑ دوں تو
مجھی کو چٹ کر جائے۔‘‘ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: ’’سب سے زیادہ
سخت گناہ وہ ہے جو تیری نظر میں چھوٹا ہو۔‘‘ امام جعفر صادق رحمہ اللہ
فرماتے ہیں: ’’ایک گناہ بہت ہے اور ہزار اطاعت قلیل۔‘‘ سیدنا حسن بصری رحمہ
اللہ کا فرمان ہے: ’’زبان سے سر کی حفاظت ہو سکتی ہے۔‘‘ایسی بے ہودہ اور
لغو رسوم عادت کی صورت اختیار کر جاتی ہیں جنھیں بعد میں کنٹرول کرنا
انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ مشہور مفکر بورڈن کا کہنا ہے’’ایک فعل کا بیج
بوؤ، عادت کا کھیت تمہارے حصہ میں آئے گا۔ ایک عادت کا بیج بوؤ، ایک
کردار کا کھیت تمہارے حصہ میں آئے گا۔ ایک کردار کا بیج بوؤ، تو تمہارے
حصہ میں وہ کھیت آئے گا جو تمہاری تقدیر کا فیصلہ کرے گا۔‘‘ ایک اورمفکر
کا کہنا ہے: ’’اگر عیاشی کو ابتدا میں نہ روکا جائے تو وہ ضرورت بن جاتی
ہے۔‘‘ اور اسی ضرورت کے سانپ نسلوں کو ڈستے رہتے ہیں۔ جب کہ مشفق و مربی
حضرات دور کھڑے بے بس تماشائی بننے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔
٭…٭…٭ |