بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولز پروجیکٹ ……تباہی کے دہانے پر

گذشتہ 21 سالوں سے چاروں صوبوں میں چلنے والے بیسک ایجو کیشن کمیو نٹی سکو لزپرو جیکٹ غر بت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر نے والے غر یب لو گوں کے بچو ں کے لئے1996 میں شر و ع کیا گیا اس پر ا جیکٹ کے مطا بق پاکستا ن کے دیہی ،نیم شہر ی اور غر یب آبا دیو ں میں سر و ے کے بعد نا ن فا ر مل بیسک ایجو کیشن سکو ل کھو لے گئے ہر سکو ل کے لئے ایک لیڈ ی ٹیچر مقر ر کی گئی اور ٹیچر کے گھر میں ہی ایک کمر ہ سکو ل کے لئے مخصو ص کیا گیا اور اس سکو ل میں کم از کم 30 طلبا ء کو پڑھا نے کا ذمہ ٹیچر کو دیا گیا ۔نیشنل ایجو کیشن فا ؤ نڈ یشن نے اسے لا نچ کیا ٹیچر کی تنخواہ ایک ہزا ر روپے ما ہا نہ مقر ر کی گئی اور ان سکو لو ں کا سر و ے اور انتظا م مقا می سما جی تنظیمو ں کو دیا گیا NGOS کو فی سکو ل 200 روپے ما ہا نہ بشمو ل تما م اخرا جا ت و ما نیٹر نگ کا سٹ مقر ر کی گئی ان سما جی تنظیموں نے انتہا ئی نامساعد حا لا ت کے با وجو د انتہا ئی قلیل تنخوا ہوں اوروسا ئل کے با وجو د سخت محنت کی اور یہ منصو بہ کا میا بی سے چل نکلا اس منصو بے کی افا دیت کو مد نظر رکھتے ہو ئے 2002 میں حکو مت پا کستا ن نے ان سکو لو ں کے لئے ایک الگ محکمہ لٹریسی قا ئم کر دیااور ضلع کی سطح پرEDO لٹر یسی مقر ر کئے گئے اور ضلعی دفا تر قا ئم کر دیئے گئے ان سکو لو ں کا تما م انتظا م ما نٹرنگ وغیر ہ مقا می تنظیمو ں کے سپر د ہی تھا چنا نچہ اس منصو بے کی کا میا بی کے پیش نظر ہر ضلع میں سینکڑو ں نئے سکو ل کھو لے گئے طلبا ء کے لئے کتب مہیا کی گئیں اور ٹیچر ز اور NGOS کی شبا نہ روز محنت سے یہ منصو بہ انتہا ئی کا میا بی سے ہمکنا ر ہو ا ہر سکو ل میں 30 طلبا ء سے لیکر 100 طلباء تک بھی بچے زیر تعلیم رہے ہیں-

جو ن 2007 میں یہ سکو ل حکو مت پا کستا ن نے محکمہ لٹر یسی سے نیشنل ایجو کیشن فا ؤ نڈ یشن کو منتقل کر دیئے چنا نچہ ان ادارو ں کی ما لی معا ونت کا ذمہ NEF نے لیا NEF سکو ل ٹیچر ز کا اعرزا زیہ 1000 ہزار روپے بڑھا کر 5500 سو تک کر دیا اور NGOS کے ما نٹر نگ کا سٹ 200 سو روپے فی سکو ل سے بڑھا کر 500 روپے فی سکو ل کر دی گئی اس تبد یلی سے پرو جیکٹ میں ایک نئی جا ن پڑگئی اور یہ ادارے NGOS کی نگر انی میں مز ید بہتر ہو گئے NGOS نے مقا می سطح پر سکو لو ں کے مسا ئل حل کیے ٹیچر کا انتظا م، سکو لو ں میں طلبا ء کے دا خلے کیلئے کمیو نٹی سے روابط، سکو لو ں میں کتب پا نی کی فرا ہمی، بجلی کا انتظا م جیسے مسا ئل مقا می سطح پر حل کیے گئے جس کی وجہ سے دور دراز دیہی اور پسما ند ہ علا قو ں میں پر علم کی شمع رو شن ہو گئی اور خا ص طو ر پر خا تون ٹیچر ز اور گھر میں سکول ہو نے کی وجہ سے لڑ کیو ں میں تعلیم حا صل کر نے کا رحجا ن بڑھا اور نیتجتہً ان سکو لو ں میں لڑکو ں سے زیا دہ لڑکیا ں زیر تعلیم ہیں ۔2007میں ہی ان سکو لز کا ما نٹر نگ سسٹم بہتر کر نے کے لئے کچھ تبد یلیا ں کی گئی جن NGOS پا س ما نٹر نگ کے لئے 50 سے زیا دہ سکو ل تھے ان سے واپس لے لئے گئے اور جن NGOS کے پا س 10 سے کم سکو ل تھے وہ بھی واپس لے لئے گئے یہا ں پر ایک اور تجر بہ کیا گیا NGOS سے واپس لیئے گئے سکو لو ں کی ما نٹر نگ کے ا نتظا ما ت کے لئے NEF نے سپر وائزر بھر تی کئے اور ہر سپر وائز کو 25 سے 30 سکو لو ں کی ما نٹر نگ کاچا رج دیا گیا سپر وائز نے اپنے گورنمنٹ کے روائتی طر یقے سے ان سکو لو ں کو چلا نے کی کو شش کی مگر پور ی طر ح نا کا م رہے کیو نکہ قلیل وسا ئل میں سر کا ر ی سطح پر ان سکو لو ں کی ضر وریا ت پور ی کر نا نا ممکن ہے NGOS تو کچھ اپنے وسا ئل اور مقا می کمیو نٹی کا تعاون حا صل کر کے جذبہ خد مت کے تحت ان سکو لو ں کو چلا رہے تھے اور سپر وائز ز سر کاری تنخواہ دار ہو نے کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے صر ف اپنی تنخوا ہ کھر ی کر نے پر ہی تو جہ رکھی جس کے نتیجے میں سپروائز رکے زیر انتظا م چلنے والے سکو لو ں کا معیا ر تنزلی کی طر ف چلا گیا
مز ید یہ کہ ایک جمہور ی دور میں ایک جمہوری وزیر تعلیم نے اپنے چہیتو ں کو نواز نے کے لئے اس قلیل بجٹ کے منصوبے پر ایک بہت بڑے بو جھ کا اضا فہ کر دیا ہوا کچھ یو ں کہ وز یر مو صو ف نے اس پر و جیکٹ میں ضلعی سطح پر دفا تر قا ئم کر کے تقر یبا ًہر ضلع میں ایک ڈپٹی ڈایکٹر ایک اکا ؤ نٹ آفیسر ،کلر ک اور درجہ چہا رم کے لئے بھر تیا ں کر دی گئی اور ہر ضلع میں کرا یہ پر بلڈ نگ حا صل کر کے دفا تر قا ئم کر دئیے گئے سینکڑوں گا ڑیا ں خر ید ی گئیں اور ایسے فضول امور انجام دیئے کہ جن کے بغیربھی یہ منصوبہ کا میا بی سے چل رہا تھا صر ف اپنے بند و ں کو نواز نے کے لئے یہ تما م بوجھ اس منصو بے پر لاد دیا گیا جو پیسہ ان سکو لو ں کی بہتر ی کے لئے خرچ ہو نا تھا وہ پیسہ افسر شا ہی کی نذ ر ہونے لگا حکو مت کے ان اقد ا ما ت کو عوامی سطح پر نا پسند کیا گیا کچھ NGOS نے بھی اس کے خلا ف آواز اٹھا ئی کہ سکو لو ں کی حا لت بہتر کر نے اور مز ید سکو ل بڑھا نے کی بجا ئے زیا دتی اور اقر با ً پر وری نہ کی جا ئے یہ با ت اس وقت کی افسر شا ہی کو بُر ی لگی چنا نچہ مورخہ 13-05-2010کو جن اضلا ع میں یہ دفا تر قا ئم تھے ان اضلا ع میں NGOS کوان سکو لو ں کی ما نٹر نگ سے فا رغ کر دیا مگر جلد ہی عوامی دبا ؤ پر NGOS کو بحا ل کردیا گیا اور کچھ عر صہ بعد سپر وائز رکی ما نٹر نگ کاتجر بہ نا کا م ہو نے پر سپر وائز رختم کر کے یہ سکو ل بھی NGOS کی ما نٹر نگ میں دئیے گئے -

اٹھا رویں آئینی تر میم کے نتیجے میں جب محکمہ تعلم کا چا ر ج صو بو ں کو دے دیا گیا تو پھر ایک بار اس منصو بے پر کڑا وقت آگیا صو بو ں نے اس پرا جیکٹ کو اون کر نے سے انکار کیاتومر کز نے بھی اس منصو بے سے ہاتھ کھڑے کر دیئے چنا نچہ اس منصو بے کے با لکل ختم ہو نے کے چا نس پید ا ہو گئے اس مو قع پر ٹیچر ز اور NGOS نے ملکر سپر یم کو رٹ میں رٹ دائر کر دی اور تما م صو بو ں سے ٹیچر ز نے اسلا م آباد پہنچ کر اس نا انصا فی پر احتجا ج کیا جس کے نتیجے میں سپر یم کو رٹ کے حکم پریہ منصو بہ وفا ق نے اون کر لیا اور اسے بیسک ایجو کیشن کمیو نٹی سکو ل BECS کا نا م دیا ۔BECS کا ہیڈ آفس اسلام آباد میں قا ئم کر کے ایک ڈائر یکٹر جنر ل کے ما تحت تما م صو بو ں میں صو با ئی دفا تر قا ئم کر دئیے گئے اور پھر سے یہ منصو بہ چلا دیا گیا -

اس منصو بے کی سابقہ تا ریخ اگر دیکھی جا ئے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ گذشتہ 21 سال سے چلنے والا یہ پرو جیکٹ انتہا ئی کا میا بی سے اپنے اہد اف پوراکر تا رہا ہے با لکل غریب بلکہ خط غر بت سے نیچے بسنے والو ں کے لئے یہ منصو بہ عطیہ خداوند ی سے کم نہیں کیونکہ یہ سکو ل مقا می سطح پر اُسی کمیو نٹی میں مو جو د ہیں ان میں وردی وغیر ہ کی پا بند ی نہیں ہے بچو ں کی کتا بیں وغیر ہ بھی مہیا کی جا تی رہی ہیں مقا می خا تو ن ٹیچر کے گھر میں سکو ل ہونے کی وجہ سے ان غر یبو ں کی لڑ کیا ں بخو شی تعلیم حا صل کر تی ہیں ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو ہر ایک سر کا ری پر ائمر ی سکو ل کا خر چہ لا کھو ں روپے ما ہا نہ ہو تا ہے اور دیہی علا قو ں کے ان سر کار ی سکولو ں میں بچو ں کی تعد اد ان BECS سکو لوں سے بھی کم ہے جب کہ ایک BECS میں ایک ٹیچر جس کی تنخواہ 6000/- روپے اور ما نٹر نگ کاسٹ 500/- روپے صر ف 6500/-روپے سر کا ری خر چ جو سکو ل پر ہو تا ہے میں ایک مکمل پر ائمر ی سکو ل چل رہا ہے جس میں کم از کم 30 طلبا ء اور بعض سکو لو ں میں 100 طلبا ء سے بھی زیا دہ تعد ا د مو جو د ہے لیکن اﷲ بھلا کر ے اس آفیسر شا ہی کا لگتا ہے کہ اس منصو بہ کو ختم کر نے پرتلے ہو ئے ہیں ۔ ان سکو لو ں میں پڑھنے والے غر یب تر ین بچو ں کو عر صہ تقر بیا ًتین سا ل سے کتا بیں نہیں دی جا رہی ہیں عر صہ دراز سے ٹیچر ز کے لئے کر سی بچو ں کے بیٹھنے کے لیے چٹا ئی وغیر ہ نہیں دی گئی ۔بچو ں کے لئے کتا بیں اور دیگر ضروریات، ٹیچرز کے لئے کر سی وغیر ہ سکولو ں میں پا نی کے لئے واٹر کو لر پنکھے وغیر ہ کا انتظا م وہی مقا می NGOS جو ان سکو لو ں کی ما نٹر نگ کر رہی ہیں ۔ اپنے طور پر کر تی آرہی ہیں کئی سا لو ں سے ٹیچر ز کو ریفریشر کو رس تک نہیں کر ائے گئے ان کی ٹر یننگ بھی NGOS ہی نے مقا می سطح پر کراتی آرہی ہیں ان سکو لو ں کی ما نٹر نگ بھر پور طر یقے سے کی جا تی ہے کئی بار تھر ڈ پارٹی نے بھی سکو ل چیک کر کے حکا م با لا کو رپورٹس دی ہیں جن میں چند انفرادی فعل کے علاوہ اس منصو بے کو بہتر قرار دیا گیا BECS کے تقر بیا ً13000/- سکو ل پورے پا کستا ن میں اور پنجاب میں تقر بیا ً8000/- سکو ل قا ئم ہیں اگر اوسطاًفی سکو ل 30 طلباء بھی لگا ئیں تو صر ف پنجا ب میں ہی 2,40000/- (دد لا کھ چا لیس ہزار ) انتہا ئی غر یب تر ین طلبا ء اور طالبا ت زیر تعلیم ہیں جن میں اکثر یت لڑکیو ں کی ہے ان سکو لو ں سے ہر سا ل ہزاروں بچے PEC میں پنجم کا امتحا ن پا س کر کے نکل رہے ہیں انہیں BECS سکو لو ں سے پڑھے ہوئے غر یب بچے آج (انجنیئر)بھی ہیں اور ڈاکٹر ، ٹیچر بن کر اپنی پر یکٹیکل لائف میں خد مت خلق اور ملک کی تر قی کے لئے خد ما ت سر انجا م دے رہے ہیں اس کے علا و ہ بھی یہ BECSسکو ل فیڈر سکو لو ں کاکر دار بھی ادا کر رہے ہیں کہ NGOS مقا می سطح پر سٹر یٹ چلڈرن اور انتہائی غر یب لو گو ں کے بچو ں کو ان سکو لو ں میں داخل کر اتے ہیں کچھ بچے دو سر ی یا تیسر ی کلا س میں دو سر ے سکو لو ں میں چلے جا تے ہیں تو وہ بچے مین سٹر یم تو آجا تے ہیں جبکہ اس خلا کو پر کر نے کے لئے اسی طر ح کے دو سر ے بچے BECS میں داخل کر کے کم از کم 30 طلبا ء کی سطح کو بر قرا ر رکھا جاتا ہے BECS کی ٹیچر ز اور مقا می NGOS جو ان سکو لو ں کو چلا رہی ہیں انتہا ئی نا ما ئمد حا لا ت میں اب بھی اس منصو بے کو جا ری رکھے ہو ئے ہیں با وجو د اس کے ٹیچر ز کو چھ چھ مہینے تنخواہ نہیں ملتی NGOS کو جو ن 2016 سے ما نٹر نگ کا سٹ نہیں ملی اس کے با وجو د بھی یہ پرا جیکٹ چل رہا ہے بچو ں کو کتا بیں نہ ملنے اور ٹیچر ز کو تنخواہیں وقت پر نہ ملنے کی شکا یت پر راقم نے جب تحقیق کی تو یہ سب عوا مل سا منے آئے بلکہ یہ بھی معلو م ہوا ہے کہ 21 سا ل سے چلنے والا یہ عا م آدمی کا منصو بہ ختم کر نے کا پلا ن تیار کر لیا گیا ہے کیو نکہ اس BECSمیں ضلع سطح پر 7,8 سال پہلے بھر تی کیے گئے آفیسر مستقل ہو چکے ہیں جنہیں مستقبل کی کو ئی فکر نہیں یہ منصو بہ ختم تو وہ کسی اور محکمہ میں چلے جا ئیں گے جبکہ 21 سال سے کا م کر نے والی ٹیچر ز اور ذاتی وسا ئل استعما ل کر کے اس منصو بے کو کا میا ب کر نے والی NGOS کو نکا لے جا نے کے خد شا ت لا حق ہو گئے ہیں یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ان سکو لو ں کا انتظا م اور ما نٹر نگ سسٹم میں تبد یلی کا منصو بہ بنا یا جا رہا ہے پھر سے مقا می NGOS کو ان سکو لو ں سے لا تعلق کر نے اور سپر وائز روالا نا کا م تجر بہ ایک بار پھر سے دھرانے بارے میں پلا ننگ کی جا رہی ہے جبکہ حکو مت اپنے سر کاری سکو ل NGOS کو چلا نے کے لئے دے رہی ہے تعلیم کے شعبے میں نت نئے تجر با ت کی وجہ سے ہما ری شر ح خواند گی تنزلی کا شکا ر ہے پور ی دنیا میں سکو ل نہ جا نے والے بچو ں میں آدھی تعد اد صرف پا کستا ن میں ہے ایسے میں BECS کو ختم کر نا یا اس کے بنیا دی ڈھانچہ میں تبد یلی کر نا ظلم ہو گا حکو مت کو چاہئے کہ اس پر ا جیکٹ کو مستقل کر دیا جا ئے جیسے بنیا د ی صحت کے لئے ہیلتھ ورکر ز کو مستقل کیا گیا ہے اس طر ح BECS ٹیچر ز کو بھی مستقل کیا جا ئے اور ان کی تنخواہ کم از کم حد 14000/- ہزار تک کر دی جا ئے ان سکو لو ں کا انتظا م NGOS جو سب مقا می سطح کی تنظیمیں ہیں کے پا س ہی رہنے دیا جا ئے فی سکو ل ما نٹر نگ کا سٹ میں اضا فہ کر دیا جا ئے ان سکو لو ں کے طلبا ء کو کتا بیں اور سکو ل میں دیگر ضر وریات پور ی کر دیں جا ئیں تو یہ پروجیکٹ اپنی پور ی افا دیت سے ملک کی تر قی میں شر ح خواند گی میں اضا فہ کیلئے اپنا بھر پور کردار ادا کر تارہے گا وزیر اعظم پا کستا ن اور وزیر تعلیم پاکستا ن لا کھو ں غر یب طلبا ء کا مستقبل تا ریک ہو نے سے بچائیں اور BECS میں پا ئی جا نے والی غیر یقینی صورت حا ل سے قوم کو چھٹکارا دلا ئیں۔

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 191850 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More