دين ميں اپني طرف سے اضافے ہي کو
بدعت کہا جاتا ہے۔ پھر يہ چيزيں صرف بدعت ہي نہيں ہيں بلکہ اس سے بھي بڑھ
کر يہ شرک و بت پرستي کے ضمن ميں آجاتي ہيں۔ کيونکہ :
اولاً: تعزيے ميں روح حسين رضي اللہ عنہ کو موجود اور انہيں عالم الغيب
سمجھا جاتا ہے، تب ہي تو تعزيوں کو قابل تعظيم سمجھتے اور ان سے مدد مانگتے
ہيں حالانکہ کسي بزرگ کي روح کو حاضر ناظر جاننا اور عالم الغيب سمجھنا شرک
و کفر ہے، چنانچہ حنفي مذہب کي معتبر کتاب فتاوي بزازيہ ميں لکھا ہے من قال
ارواح المشائخ حاضرۃ تعلم يکفر "جو شخص يہ اعتقاد رکھے کہ بزرگوں کي روحيں
ہر جگہ حاضر وناظر ہيں اور وہ علم رکھتي ہيں ، وہ کافر ہے۔"
ثانياً: تعزيہ پرست تعزيوں کے سامنے سر نيہوڑتے ہيں جو سجدے ہي کي ذيل ميں
آتا ہےاور کئي لوگ تو کھلم کھلا سجدے بجا لاتے ہيں اور غير اللہ کو سجدہ
کرنا ، چاہے وہ تعبدي ہو يا تعظيمي ، شرک صريح ہے۔ چنانچہ کتب فقہ حنفيہ
ميں بھي سجدہ لغير اللہ کو کفر سے تعبير کيا گيا ہے۔ شمس الائمہ سرخسي کہتے
ہيں:
((ان کان لغير اللہ تعاليٰ علي وجہ التعظيم کفر))
"غير اللہ کو تعظيمي طور (بھي) سجدہ کرنا کفر ہے۔"
اور علامہ قہستاني حنفي فرماتے ہيں يکفروا لسجدۃ مطلقا يعني غير اللہ کو
سجدہ کرنے والا مطلقاً کافر ہے چاہے عبادۃًٍ ہو يا تعظيماً" (رد المحتار)
ثالثاً: تعزيہ پرست نوحہ خواني و سينہ کوبي کرتے ہيں اور ماتم و نوحہ ميں
کلمات شرکيہ ادا کرتے ہيں ، اول تو نوحہ خواني بجائے خود غير اسلامي فعل ہے
جس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمايا ہے۔ چنانچہ صحيح حديث ميں ہے کہ نبي ﷺ نے
فرمايا:
((لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا
بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ)) (صحيح البخاري، الجنائز، باب ليس منا من ضرب
الخدود، ح : 1297)
"وہ شخص ہم ميں سے نہيں جس نے رخسار پيٹے، گريبان چاک کيے اور زمانۂ جاہليت
کے سے بين کيے۔"
يہ صورتيں جو اس حديث ميں بيان کي گئي ہيں ، نوحہ و ماتم کے ضمن ميں آتي
ہيں، جو ناجائز ہيں۔ اس ليے فطري اظہار غم کي جو بھي مصنوعي اور غير فطري
صورتيں ہوں گي ، وہ سب ناجائز نوحے ميں شامل ہوں گي۔ پھر ان نوحوں ميں
مبالغہ کرنا اور زمين و آسمان کے قلابے ملانا اور عبدومعبود کے درميان فرق
کو مٹادينا تو وہي جاہلانہ شرک ہے جس کے مٹانے کے ليے ہي تو اسلام آيا تھا۔
رابعاً: تعزيہ پرست تعزيوں سے اپني مراديں اور حاجات طلب کرتے ہيں جو
صريحاً شرک ہے۔ جب حضرت حسين رضي اللہ عنہ ميدان کربلا ميں مظلومانہ شہيد
ہوگئے اور اپنے اہل و عيال کو ظالموں کے پنجے سے نہ بچا سکے تو اب بعد از
وفات وہ کسي کے کيا کام آسکتے ہيں؟
خامساً: تعزيہ پرست حضرت حسين رضي ا للہ عنہ کي مصنوعي قبر بناتے ہيں اور
اس کي زيارت کو ثواب سمجھتے ہيں حالانکہ حديث ميں آتا ہے:
((من زار قبرا بلا مقبور کانما عبد الصنم)) (رسالہ تنبيہ الضالين، از
مولانا اولاد حسن، والد نواب صديق حسن خان رحمہ اللہ تعاليٰ)
يعني" جس نے ايسي خالي قبر کي زيارت کي جس ميں کوئي ميت نہيں تو گويا اس نے
بت کي پوجا کي۔"
مولانا احمد رضا خاں بريلوي کي صراحت: علاوہ ازيں اہل سنت عوام کي اکثريت
مولانا احمد رضاخاں بريلوي کي عقيدت کيش ہے، ليکن تعجب ہے کہ اس کے باوجود
وہ محرم کي ان خودساختہ رسومات ميں خوب ذوق وشوق سے حصہ ليتے ہيں۔ حالانکہ
مولانا احمد رضا خاں بريلوي نے بھي ان رسومات سے منع کيا ہے اور انہيں بدعت
، ناجائز اور حرام لکھا ہے اور ان کو ديکھنے سے بھي روکا ہے۔ چنانچہ ان کا
فتويٰ ہے۔
"تعزيہ آتا ديکھ کر اعراض و روگرداني کريں۔ اس کي طرف ديکھنا ہي نہيں
چاہيے۔" (عرفان شريعت، حصہ اول، صفحہ: 15)
ان کا ايک مستقل رسالہ "تعزيہ داري" ہے، اس کے صفحہ 4 پر لکھتے ہيں:
"غرض عشرۂ محرم الحرام کہ اگلي شريعتوں سے اس شريعت پاک تک نہايت بابرکت
محل عبادت ٹھہرا تھا، ان بے ہودہ رسوم نے جاہلانہ اور فاسقانہ ميلوں کا
زمانہ کرديا۔"
يہ کچھ اور اس کے ساتھ خيال وہ کچھ کہ گويا خودساختہ تصويريں بعينہٖ
حضرات شہداء رضوان اللہ عليہم اجمعين کے جنازے ہيں۔"
"کچھ اتارا باقي توڑا اور دفن کرديے۔ يہ ہر سال اضاعت مال کے جرم دو وبال
جداگانہ ہيں۔ اب تعزيہ داري اس طريقۂ نامرضيہ کا نام ہے۔ قطعاً بدعت و
ناجائز حرام ہے۔"
صفحہ 11 پر لکھتے ہيں:
"تعزيہ پر چڑھايا ہوا کھانا نہ کھانا چاہيے۔ اگر نياز دے کر چڑھائيں، يا
چڑھا کر نياز ديں تو بھي اس کے کھانے سے احتراز کريں۔"
اور صفحہ 15 پر حسب ذيل سوال، جواب ہے۔
سوال: تعزيہ بنانا اور اس پر نذر ونياز کرنا، عرائض بہ اميد حاجت برآري
لٹکانا اور نہ نيت بدعت حسنہ اس کو داخل حسنات جاننا کيسا گناہ ہے؟
جواب: افعال مذکورہ جس طرح عوام زمانہ ميں رائج ہيں، بدعت سيئہ و ممنوع و
ناجائز ہيں۔
اسي طرح محرم کي دوسري بدعت مرثيہ خواني کے متعلق "عرفان شريعت" کے حصہ اول
صفحہ 16 پر ايک سوال و جواب يہ ہے۔
سوال: محرم شريف ميں مرثيہ خواني ميں شرکت جائز ہے يا نہيں؟
جواب: ناجائز ہے، وہ مناہي و منکرات سے پر ہوتے ہيں۔
محرم کو سوگ کا مہينہ سمجھا جاتا ہے ، اس ليے بالعموم ان ايام ميں سياہ يا
سبز لباس پہنا جاتا ہےاور شادي بياہ سے اجتناب کيا جاتا ہے، اس کے متعلق
مولانا احمد رضا خاں لکھتے ہيں:
"محرم ميں سياہ، سبز کپڑے علامت سوگ ہيں اور سوگ حرام۔" (احکام شريعت،71)
مسئلہ: کيا فرماتے ہيں مسائل ذيل ميں؟
1۔ بعض اہل سنت جماعت عشرۂ محرم ميں نہ تو دن بھر روٹي پکاتے اور نہ جھاڑو
ديتے ہيں، کہتے ہيں بعد دفن روٹي پکائي جائے گي۔
2۔ ان دس دن کپڑے نہيں اتارتے۔
3۔ ماہ محرم ميں شادي بياہ نہيں کرتے۔
الجواب: تينوں باتيں سوگ ہيں اور سوگ حرام ہے۔" (احکام شريعت ، حصہ اول 71)
قرآن و حديث کي ان تصريحات اور مولانا احمد رضا خان بريلوي کي توضيح کے بعد
اميد ہے کہ بريلوي علماء اپنے عوام کي صحيح رہنمائي فرمائيں گے اور عوام
اپني جہالت اور علماء کي خاموشي کي بنا پر جو مذکورہ بدعات وخرافات کا
ارتکاب کرتے ہيں يا کم از کم ايساکرنے والوں کے جلوسوں ميں شرکت کرکے ان کے
فروغ کا سبب بنتے ہيں، ان کو ان سے روکنے کي پوري کوشش کريں گے۔ |