جیسا کہ آج کل دیکھا جارہا ہے کہ ہر شعبے، ہر ادارے ، ہر
جماعت ، ہر معاشرے اور یہاں تک کہ ہر تعلیمی ادارے میں بھی اپنی الگ ہی
سیاست چل رہی ہے ایک دوسرے کو چیرپھاڑنے اور انگڑی دیکر گرانے کی جی
توڑکوشش میں لگے ہیں ۔ پرنٹ میڈیا ہو ،سوشل میڈیا ہو، یا الیکٹرانک میڈیا
ہو خبر کو تو ایسے چٹخارے لے لیکر بتایاجاتاہے جیسا کہ چورن بک رہا ہو یا
گول گپـّے والے کے ٹھیلے پر بیٹھے ایک گھونٹ کھٹّے پانی کا پی کر خبریں
پڑہی اور لکھی جا رہی ہوں ۔ صحافت تو ایک معتّبر پیشہ ہے جو کہ با علم لوگ
اپناتے ہیں ایک زمانے میں صحافی کا تو یہ مقام تھاکہ صحافی کے آنے سے اچھے
سے اچھا بندہ اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوجاتا تھا اب یہ اعزاز یہ سمجھ لیں یا
ڈر خوف مگر بلاشبہ صحافت ایک عظیم ،با عزّت،باوقاراور نہایت سنجیدہ شعبہ ہے
۔ یہ ایک ذمہ داری ہے۔ انسانی اور ملک و ملّت کی خدمت کا ذریعہ ہے ۔ صحافت
عوام کے معاملات ومسائل کو سمجھنے سمجھانے اور انکو حل کرنے کی کو شش کرنا
، خبر کی تہہ تک پہنچنا ،سچ جاننا اور سچھ عوام تک پہنچانا اور عوام کے لئے
آواز بلند کرنا انکی تکلیفیں ،دکھ درد بیان کرنا، پریشانیوں کو نمایاں کرنا،
انکی نمائندگی کرنا اور اگر حکومت انکے مسائل سے نا واقف ہے تو انکی آوز بن
کر حکومت پہنچانا انکے معاملات پر توجّہ دلانا صحافی کا فرض ہے۔ صحافت سماج
کی اصلاح کا بہترین ذریعہ ہے ۔یہ شعبہ ایک اہم ادارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہر
ملک کی صحافت وہاں کے باشندوں کے جذبات و احساسات کا آئینہ ہوتی ہے ۔صحافی
تو لوگوں کو اسطرح واقعات اور حالات سے واقف کراتا ہے کہ دنیا میں زبان و
مکاں اور ماحول ،نسلی و ثقافتی اور مذہبی فرق باقی نہ رہے ۔مگر افسوس کے
ساتھ آج کی صحافت میں اخلاقی اقدار خانہ جنگی شروع ہے۔ذاتی زندگی کے تماشے
بریکنگ بنا کر نمایاں کئے جاتے ہیں مزے لے لیکر سُنائے اور بتائے جاتے ہیں
سمجھ نہیں آ تا کہ ذاتی زندگی کو سیاست اور صحافت میں کیوں گھسیٹا جاتا ہے
؟اب تو ہر شخص، ہر جماعت،ہر ادارے کو اپنی مرضی کا میڈیا چاہیے جو انکے
نظریات کی حمایت کرے انکے مقصدو مطلوب کو عیاں کرے ۔اسی لئے تو نئی نسل
کمرشلزم کا شکار ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ کوئی بھی صنعتکار،اہم شخصیات میں
اپنی پہچان اور تعلقات بنانے کے لئے ایک اپنااخبار یا کوئی چینل کھول لیتا
ہے یا اب تو سوشل میڈیاانتہا کا ایکٹِو ہے کہ جسکو پرنٹ میڈیا ، یا
الیکٹرانک میڈیا میں جگہ نہیں ملتی تو وہ اپنی ویب سائٹ یا ایف بی پییج بنا
کر اپنی دکان کھول لیتا ہے حالانکہ ان معزز افراد میں رتّی بھر بھی صلاحیت
موجود نابھی ہو بس اپنا منجن بیچنے سے سروکار ہے اور اس دوڑ میں سب سے پہلے
سب سے آگے کی جنگ میں ہمہ تن مصروف ہیں ۔ صحافت کو ایک مشغلہ سمجھا ہوا ہے
ایک کھیل بنا کر ر کھ دیا ہے۔سنجیدگی تو دور یہ شعبہ تو انٹر ٹینمنٹ کی شکل
اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ کہیں کسی پارٹی یا سیاستدان کے ساتھ ہوا بُرا سلوک
اداسی کے گانوں کے ساتھ لگاکر دکھایا جاتا ہے تو کہیں شادیانے بجا کر
دیکھنے اور سننے والوں میں سے غیر شادی شدہ حضرات کو للچایا اور شادی شدہ
حضرات کو اپنا وقت یاد دلانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے یا دوسری طرف اگر
کوئی سنجیدہ خبر ہو جیسا کہ غریب کے ساتھ زیادتی کامعاملہ ہو یا اغواء کا
کیس بڑے ہی ہمدرد بنے لواحقین کے آگے مائک تھامے انکے زخموں پر نمک چھڑکنے
فوراًپہنچ جاتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ سوالات بھی ایسے کہ اغواء ہونے والے
بچے کے باپ سے پوچھا جاتا ہے کہ آپکا بچہ اغواء ہواہے اب آپ کیا کرینگے یا
پھر کسی مرنے والے کی ماں ،بہن،بیوی سے سوال کیا جاتا ہے کہ آپکا عزیز چلا
گیا اب آگے کی زندگی میں وہ آپکے ساتھ نہیں رہے اس دنیا میں تو آپکو کیسا
محسوس ہو رہا ہے اب کیا سوچا ہے کہ زندگی کیسے بسر کرنی ہے ۔بس ریٹنگ کی
پرواہ ہے جذبات بھاڑ میں جائیں آج کے میڈیا کا رویّہ ایسا بے حس ہے جیسا کہ
کوئی کمسن بچہ۔ بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ روز ایک معصوم بچی جو کہ
وی آئی پی پروٹوکول کے باعث بر وقت ہسپتال نہیں پہنچ سکی اور زندگی موت کی
جنگ لڑتے ہوئے اپنے والد کے ہاتھوں میں ہی دم توڑ گئی ۔اسکے علاوہ روزانہ
کی بنیاد پر کتنے ہی بچے یتم ہوتے ہیں، کتنی ماؤں کے لختِ جگر اُنسے جدا
ہوجاتے ہیں، کتنی ہی عورتوں کے سہاگ اُجڑتے ہیں،مگر مجال ہے کہ اسکو ہائی
لائٹ کیا جائے وہ کو ئی نامور شخصیت تو نہیں پھر کیوں انکے معاملات کو
دیکھا جائے گا یا بریکنگ بنایا جائیگا مگر جب بات ہو نواز کو جوتا پڑنے
کی،خان کی شادی،یا ہو بلاول کی تقریر ،عامر کی شمولیت یافاروق کی بے دخلی
ہو یا سری دیوی کے مرنے کی خبر میڈیا دھاڑنے سے باز نہیں آتا اور ۵ سے ۸
منٹ کی ہیڈلائنز میں ۳سے۴ منٹ تو اسی خبر کو روتا رہتا ہے اسی طرح سوشل
میڈیا میں بے پناہ رائٹر ز دکھائی دیتے ہیں ۔لہذا خبر کو خبر کی حدود میں
رکھنے اور خبروں میں سے جذباتیت کا عنصر ختم کرنے کی اشد ضرورت
ہے۔انٹرٹینمنٹ کے بے تہاشہ چینلز ہیں تو خدارا کسی چیز میں تو احساس کیا
جائے پیمرا سے گزارش ہے کہ اِدھر اُدھر کے معاملات کے ساتھ اس پر بھی توٹس
لیا جائے اور ہر چینل کو ایک حدود میں رہتے ہوئے سنجیدگی کا نوٹس جاری کیا
جائے۔ |