جامعات میں پڑھنے والے طلبا و طالبات اس حقیقت سے بخوبی
واقف ہیں کہ ہمارے تعلیمی اداروں کا ماحول کیسا ہے۔ یہاں پڑھنے والے طلبا
اور بالخصوص طالبات کی عزت یہاں کس قدر محفوظ ہے۔سانحہ قصور میں ننھی زینب
کے قتل کے بعد اس کے مجرم کو سزا سنائی جا چکی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس
سزا پر عملدرآمد بھی ہوگا تاکہ دیگر مجرم ذہنیت افراد بھی اس سے عبرت کا
سامان پکڑیں۔ لیکن کچھ تلخ سوالات ابھی باقی ہیں۔
بجا طور پر ننھی کمسن بچیوں سے جنسی زیادتی کا مرتکب ہونے ولا سخت سزا کا
حقدار ہے لیکن جامعات میں پڑھنے والی طالبات کی زندگیاں اور عزت بھی اسی
قدر قیمتی ہے۔ اعلی تعلیم کے حصول کے لیے بنائی گئی یونیورسٹیوں میں طالبات
سے جنسی زیادتی کی آئے روز خبریںتشویشناک ہیں۔گزشتہ دنوںبہائوالدین زکریا
یونیورسٹی میں ایک طالبہ سے جنسی زیادتی کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ حسب سابق
کچھ با اثر افراد ملوث ہیں جن پر پولیس یاجامعہ کی انتظامیہ کوئی ایکشن
لینے سے گریزاں رہی تھی بعد ازاں معاملہ ذرائع ابلاغ کی زینت بنا تو دبائو
کو ٹالنے کے لیے چند افراد کے خلاف کاروائی کر دی گئی۔ اب حالیہ دنوں جامعہ
کراچی میں ایسے ہی واقعات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
اس سے پہلے بھی متعدد ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں جن میں جامعات میں پڑھنے
والی طالبات کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ۔ کچھ کو قتل کر دیا گیا
اور کچھ نے مارے شرمندگی کے خودکشی کر لی۔
کچھ عرصہ قبل حیدر آباد کی یونیورسٹی میں بھی ایسا ہی معاملہ سامنے آیا
تھا۔ ایسے معاملات سامنے آتے ہیں، چند دن تک شور شرابا رہتا ہے، میڈیا بھی
اس واقعے کو خوب نمک مرچ لگا کر بیان کرتا ہے اوربعد ازاں کچھ لوگوں کو
گرفتار بھی کیا جاتا ہے۔لیکن اکثر واقعات میں اصل مجرم محفوظ رہتے ہیں اور
اگر کہیں اصل مجرم پکڑا بھی جائے تو اسے قرار واقعی سزا نہیں مل پاتی ہے۔
یوں معاشرے میں موجود اس جیسے دیگر افراد کے لیے عبرت کا سامان نہیں ہو
پاتا او ر پھر کسی دن ہمیں کسی طالبہ کی ایسی ہی مسخ شدہ لاش ملتی ہے۔ یوں
یہ سلسلہ چل رہا ہے مگر ہمارے ارباب اختیار اور مقتدر حلقوں کے کان پر جوں
تک نہیں رینگ رہی ہے۔
طالبات کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے واقعات میں اگر اسباب اور قصور
واروں کا تعین کیا جائے تو بھانت بھانت کی بولیاں سامنے آنے لگتی ہیں۔ ایک
بڑا طبقہ صرف طالبات کو ہی قصور وار ٹھہراتا ہے ۔ اس طبقے میں بھی مختلف
آراء موجود ہیں کچھ کے نزدیک طالبات کی طرف سے حیا باختہ لباس وجہ بنتا ہے
اورکچھ طالبات کے کردار پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔اگر کسی معاملہ میں طالبہ کا
لباس حیا باختہ ہو اور نا ہی اس کے کردار پر انگلیاںاٹھائی جاسکیں تو اس کا
تعلیم کے لیے محض گھر سے نکلنا ہی جرم گردانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے
جملے بھی سننے کو ملتے ہیں کہ ’’اس لڑکی کا بھی کوئی نا کوئی قصور تو ہوگا۔
‘‘
ان تمام طبقات کی رائے سے کلی اتفاق تو ممکن نہیں کہ ان میں جابجا سقم نظر
آتے ہیں۔ البتہ کچھ باتیں ان میں درست ہیں مثلاًحیا باختہ لباس یا اسی
نوعیت کے دیگر معاملات ۔ لیکن اس سب کے باوجود قصور وار صرف طالبات نہیں
ہیں ۔ محض زیادتی کا شکار بننے والی طالبات کو ہی قصور وار ٹھہرا کر ان
معاملات سے نبٹنا ناممکن ہے۔
یونیورسٹیز کا ماحول اوریہاں مروج بہت سے اطوار بھی طالبات کے لیے غیر
محفوظ حالات کو تشکیل دینے میں معاون ہوتے ہیں۔مثلاً طالبات پر جملے بازی
یا کسی بھی طالبہ کو لڑکوں سے اختلاط نا کرنے پر تضحیک کا نشانہ بنانا ،
اسی مانند لباس کے معاملات میں طالبات کا احساس کمتری کا شکار ہوجانا ،
جنسی زیادتی کے لیے دروازوں کا کام کرتا ہے۔ یہ معاملات ابتداً طلبا و
طالبات کو حیا سے دو ر کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ لیکن اس پر مہمیز ہماری
یونیورسٹیز کی جانب سے بنایا گیا وہ ماحول بنتا ہے کہ جس میں طلبا و طالبات
کے لیے اختلاط کو لازم کر دیا گیا ہے۔ ایک کمرے میں بیٹھ کر پڑھنا یہاں
اختلاط کے معنی میں نہیں ہے بلکہ یہاں اختلاط سے مراد گروپ سٹڈی کے نام پر
طلبا و طالبات کا اکٹھے بیٹھنا اور اسی مانند ویلکم پارٹیز وغیرہ کے نام پر
حد سے بڑھا ہوا اختلاط ہے۔ اس میں اساتذہ کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل
ہے۔
بجا طور پر اساتذہ روحانی والدین کا درجہ رکھتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے
جامعات میں طالبات سے ہونے والے جنسی زیادتی کے اکثر واقعات میںا ساتذ ہ ہی
ملوث پائے گئے ہیں۔ اس لیے ہمیں یہ کہتے ہوئے دکھ ہو رہا ہے کہ طلبا و
طالبات کے اختلاط کی اساتذہ کی طرف سے نا صرف حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ
بعض اوقات اسے لازم بھی کر دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی طالبہ یا طالب علم اس
اختلاط سے جان چھڑوانا چاہے تو یہ بھی جوئے شیر لانے کے مترادف قرار پاتا
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے طلبا و طالبات کو نا چاہتے ہوئے بھی اس ماحول کا
حصہ بننا پڑتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ اس مخلوط ماحول سے کراہت ختم ہوجاتی ہے
اور یوں کسی بھی طالبہ کا زیادتی کاشکار بننا آسان ہوجاتا ہے۔
طالبات جنسی زیادتی کا شکار کیسے بنتی ہیں ، اس میں کچھ حد تک طلبا و
طالبات بھی ملوث ہیں مگر حالیہ واقعات میں اساتذہ کی شمولیت اس معاملے کے
شرمناک پہلوئوںکو مزید واضح کرتی ہے۔بجا طور پر اساتذہ کو مجموعی طور پر
قصور وار ٹھہرانا انصاف کے منافی ہے مگر ایسی کالی بھیڑوں کا علاج بھی
ضروری ہے جو استاد کے بھیس میں طالبات کی زندگیوں سے کھیلنے میں مصروف ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ کالی بھیڑوں کی تعداد اب اس قدر بڑھ گئی ہے کہ شاید پاک
دامن اب نظر بھی نہیں آتے ۔
جامعات میں پڑھنے والے طلبا و طالبات بخوبی واقف ہیں کہ کس طرح اساتذہ کے
روپ میں چھپے بھیڑیے طالبا ت کا شکار کرتے ہیں ۔ عموما ً دور دراز سے آنے
والی اور کامیابی کے لیے پرجوش طالبات آسان ہدف قرار پاتی ہیں۔ اس مقصد کے
لیے ان کو دفتر میں یا گھر میں بلا کر خصوصی ’’شفقت‘‘ سے نوازا جاتا ہے ۔
بعد ازاں حسب نوعیت شکار کر لیا جاتا ہے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بہت سی طالبات جنسی زیادتی کا شکار ہونے کے
باوجود چپ سادھ لیتی ہیں کہ آواز اٹھانے کی صورت میں اپنی ہی بد نامی کا
خدشہ ہے۔یوں بہت سے بھیڑیے مزید حوصلہ پکڑتے ہیں۔ اب ہم یوں بھی نہیں کہہ
سکتے کہ طالبات آواز ضرور اٹھائیں کہ ہم اپنی انتظامیہ اور دیگر اداروں سے
بخوبی واقف ہیں کہ آواز اٹھانے کی صورت میں جو بدنامی مول لینی پڑتی ہے وہ
اکثر متوسط طبقے کی طالبات برداشت نہیںکر سکتیں۔لیکن ہم اپنے مقتدر طبقے
اور ارباب اختیار سے تو گزارش کر سکتے ہیں کہ وہ ایسے معاملات پر قابو پانے
کے لیے کوئی جامع حکمت عملی ترتیب دیں۔
جنسی زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے لیے طلبا و طالبات کا کردار بھی
اہمیت کا حامل ہے۔ طالبات کے لیے بہت سی حفاظتی تدابیر ہیں جو انہیں اختیار
کرنا چاہئیں لیکن کچھ گزارشات طلبا سے بھی ہیں۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید
میں عورتوں کے لیے پردہ کے احکامات نازل کیے ہیں انہیں ان پر پوری طرح سے
عمل پیرا ہونا چاہیے۔ اسی مانند مردوں کے لیے غض بصر کے احکامات ہیں ۔ یعنی
طلبا غیر محرم طالبات کو دیکھ کر نظریں جھکا لیں۔ اعتماد کے نام پر آنکھوں
میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا صرف فتنے کے دروازے کھولتا ہے۔جبکہ نظر کو
جھکا لینا آپ کے وقار اور وجاہت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔جیسے طالبات کے
لیے با حیا لباس ضروری ہے اسی مانند طلبا بھی لباس کے معاملے میں اسلامی
حدود و قیود کا خاص خیال رکھیں۔
طالبات کسی بھی غیر محرم سے تنہائی میں ملنے گریز کریں۔ بھلے وہ آپ کا
ستاد ہی کیوں نا ہو، یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے
ہیں :
جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو ان دونوں کے ساتھ
تیسرا شیطان ضرور ہوتا ہے۔
(جامع الترمذی: 2165)
معاشرے میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو جامعات میں بڑھتے ہوئے جنسی زیادتی کا
واقعات کے تدارک کے لیے بھی مغرب ہی کی جانب نظریں اٹھاتا ہے۔ گویا جس کے
سبب بیمار ہیں اسی سے تریاق کے خواہشمند ہیں۔کیونکہ مغرب بھی اس معاملے میں
کوئی حل پیش کرنے سے قاصر رہا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں کہ جہاںمکمل
مغربی نظام کو اپنایا گیا ہے وہاں جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات اس
نظام کی ناکامی کا ثبوت ہیں۔
لہذا ایسے واقعات کے تدارک کے لیے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک جامع
حکمت عملی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مزید براں جامعات میں بھی ایسے ماحول کو
پروان چڑھانے کی ضرورت ہے کہ جس میں طالبات آزادانہ ماحول میں تعلیم حاصل
کرسکیں اور کسی بھی طالبہ کی عزت سے کوئی بھیڑیا نا کھیل سکے۔ |