کسی بھی مہذب معاشرے میں آزادی رائے کا اختیار ہر خاص و
عام، چھوٹے بڑے، عورت مرد کا بنیادی حق ہے۔ آزادیء رائے کے اظہار کے لئیے
رنگ نسل، پڑھائی لکھائی، معاشرتی ، لسانی اور امیری غریبی جیسی کوئی شرط
لاگو نہیں۔ کوئی بھی شخص اپنے خیالات کے اظہار کا حق محفوظ رکھتا ہے، بد
قسمتی سے ہمارے پاکستانی معاشرے میں اپنے خیالات کے اظہار کو بہت سی غیر
ضروری بندھنوں میں پرو دیا گیا ہے۔ ابا کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار بد
تہزیبی اور ناقابل معافی خطا، اپنے رشتہ داروں کے سامنے رائے دینا ماں کی
غلط تربیت، بڑے بہن بھائیوں کے ساتھ مباحثہ خود غرضی ٹھہرایا جاتا ہے۔
ہم پیدائش سے وفات تک ایسی بہت سی بندشوں میں جکڑے رہتے ہیں ، بہت چاہنے کے
باوجود اپنے جذ بات کو الفاظ کی شکل نہیں دے پاتے، جس کا نتیجہ اس ناسور کی
شکل میں نکلتا ہے جس کے سد باب کا کوئی انتظام نہیں کیا جاتا اور آخر کار
وہ زہر کی صورت پورے جسم میں سرایت کر جاتا ہے۔
آج کل ہمارے معاشرے میں لو میرج ، بھاگ کر شادی کرنے کا رواج بہت بڑھ چکا
ہے، ہمیں یہ سوچنے کی اشد ضرورت ہے آخر کیوں ایک بیٹی اپنے بابل کی تمام
عمر کی عزت ایک لمحے میں خاک کر دینے پر مصر ہو جاتی ہے، کیوں خود اپنے
ہاتھوں اک عذاب مسلسل خریدنے پر مجبور ہوتی ہے، اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں
ہم نہ صرف ایک معصوم زندگی برباد کرنے کے مجرم ہیں بلکہ پوری ایک نسل
کیونکہ یہ معاشرہ اس عورت کوتو تمام عمر سزا دیتا ہی ہے بلکہ اس کے بچوں کو
بھی یہ طعنے تمام عمر برداشت کرنے ہوتے ہیں یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے ہم
انکار نہیں کر سکتے۔ اگر صرف آزادی رائے کے اظہار سے ہم اپنے معاشرے سے اس
عفریت کا خاتمہ کر سکتے ہیں تو پھر کیوں جھوٹی شان اور دبدبے کی خاطر ہم
نسلوں کی بربادی کا باعث بن رہے ہیں۔
خدارا اپنی مائوں بہنوں بیٹیوں کو اعتماد دیں، ان کی رائے کو اہمیت دیں
انکو بھی اپنے فیصلوں میں شامل کریں۔ یقین مانیں اس معاشرے کو پھر سے رضیہ
سلطان، جھانسی کی رانی ، بینظیر بھٹو اور ملالہ جیسی عظیم خواتین کی ضرورت
ہے نہ کہ سنی لیونی، کترینہ اور کرینہ کی۔
میرے وطن عزیز کے آدھے سے زیادہ لوگ اس غم سے نڈھال ہوئے جا رہے ہیں کہ
ملالہ واپس کیوں آگئی، کتنی شرم کی بات ہے ہم اپنی قوم کی بیٹی کو اس ملک
میں آنے کی اجازت دینے کے بھی متحمل نہیں لیکن کیوں کیا اس نے اس ملک کی
دولت لوٹی، خدانخواستہ کوئی قومی راز افشاں کئے نہیں صرف اس لئے کہ ہم اس
کے اس کام سے خوفزدہ ہیں جو ہم مرد ہو کر بھی نہیں کر سکےوہ اس نے عورت ہو
کر اقوام عالم کے ہر فورم پر کر دکھایا۔
خدارا قوم کی بیٹیوں کی عزت کریں، ان کو تحفظ دیں اور ان کو بحیثیت انسان
تسلیم کریں ایک شو پیس اور آئٹم گرل ہر گز نہیں۔
بقول علامہ اقبال
مکالمات فلاطُوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطُوں
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو، پاکستان پائندہ باد!
|