کیا ہم احمق (فول) ہیں ؟

دنیا عارضی اور فنا کا مقام ہے۔ یہاں کسی کو بقا حاصل نہیں۔ ایک بندہ مومن کے لیے اس کی مثال قید خانہ اور امتحان گاہ کی سی ہے۔ اس عالم کی تخلیق سے پہلے ہی حق اور باطل دو گروہ بن چکے تھے اور ابلیس کہ جو آدم خاکی کو سجدہ کرنے کے حکم ربی سے تکبر کرنے کے باعث راندہ درگاہ باری تعالی قرار پایا باطل کا راہنما ٹھہرا۔ تکبر اور اکڑ کا یہ عالم کہ اپنے خالق و مالک کو چیلنج کر دیا کہ مجھے مہلت دی جائے تو میں دیکھا سکوں کہ آدم کی اولاد میں اکثر میرے پیرو ہوں گے۔ اسے مہلت تو دی گئی مگر ساتھ ہی فرما دیا گیا کہ میرے بندوں پر تیرا زور نہیں چلے گا۔
ابلیس ، اس کی ذریت اور ان کے پیروکار مسلسل انسان کے درپے ہیں۔ *عروج آدمیت ابلیس کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔* اس لیے وہ مسلسل کوشش میں رہتا ہے اور انسان کو گمراہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اللہ تعالی کے حرام کردہ اور ناپسندیدہ اعمال ابلیس کا جال قرار پائے۔ گناہ اور معصیت کے کاموں میں بعض صغائر ہیں جو اعمال صالحہ بجا لانے سے معاف ہو جاتے ہیں جبکہ دیگر کبائر ہیں جو بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ ان کبائر میں سب سے بڑا گناہ شرک ہے۔ جھوٹ اور دروغ گوئی بھی ان کبائر میں شامل ہے۔ جھوٹ کی مذمت اور اس سے اجتناب کی تعلیم کے لیے قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے۔

*22 : سورة الحج 30*

*ذٰلِکَ وَ مَنۡ یُّعَظِّمۡ حُرُمٰتِ اللّٰہِ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ؕ وَ اُحِلَّتۡ لَکُمُ الۡاَنۡعَامُ اِلَّا مَا یُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَ اجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ*

*یہ ہے اور جو کوئی اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے اس کے اپنے لئے اس کے رب کے پاس بہتری ہے ۔ اور تمہارے لئے چوپائے جانور حلال کر دیئے گئے بجز ان کے جو تمہارے سامنے بیان کئے گئے ہیں پس تمہیں بتوں کی گندگی سے بچتے رہنا چاہیے اور جھوٹی بات سے بھی پرہیز کرنا چاہیے ۔*

جھوٹ ایک ناسور ہے جس کو لوگ معمولی خیال کرتے ہیں حالانکہ یہ ایسا قبیح گناہ ہے جو برکت مٹا دیتا ہے اور ہلاکت کا باعث ہے۔ جھوٹ بولنے والے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعراض کرتے۔

Jam e Tirmazi Hadees # 1973

*حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ مَا كَانَ خُلُقٌ أَبْغَضَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْكَذِبِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ يُحَدِّثُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْكِذْبَةِ فَمَا يَزَالُ فِي نَفْسِهِ حَتَّى يَعْلَمَ أَنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ مِنْهَا تَوْبَةً ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.*

*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک جھوٹ سے بڑھ کر کوئی اور عادت نفرت کے قابل ناپسندیدہ نہیں تھی، اور جب کوئی آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھوٹ بولتا تو وہ ہمیشہ آپ کی نظر میں قابل نفرت رہتا یہاں تک کہ آپ جان لیتے کہ اس نے جھوٹ سے توبہ کر لی ہے۔*
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
جھوٹ کو منافقت کی علامت قرار دیا گیا۔


Sahih Bukhari Hadees # 34

حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَسْرُوقٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ""أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا إِذَا، ‏‏‏‏‏‏اؤْتُمِنَ خَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ""، ‏‏‏‏‏‏تَابَعَهُ شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ.


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ ( بھی ) نفاق ہی ہے، جب تک اسے نہ چھوڑ دے۔ ( وہ یہ ہیں ) جب اسے امین بنایا جائے تو ( امانت میں ) خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب ( کسی سے ) عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب ( کسی سے ) لڑے تو گالیوں پر اتر آئے۔ اس حدیث کو شعبہ نے ( بھی ) سفیان کے ساتھ اعمش سے روایت کیا ہے۔

مگر میرے عہد کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ جھوٹ کو بھی لوگ فیشن سمجھ بیٹھے اور اس کو تفریح طبع اور مذاق کا ذریعہ بنا لیا گیا حالانکہ امام الانبیا فرماتے ہیں:

Sunnan e Abu Dawood Hadees # 4800

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ أَبُو الْجَمَاهِرِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو كَعْبٍ أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ السَّعْدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ حَبِيبٍ الْمُحَارِبِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَنَا زَعِيمٌ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا، ‏‏‏‏‏‏وَبِبَيْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَانَ مَازِحًا، ‏‏‏‏‏‏وَبِبَيْتٍ فِي أَعْلَى الْجَنَّةِ لِمَنْ حَسَّنَ خُلُقَهُ .

*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس شخص کے لیے جنت کے اندر ایک گھر کا ضامن ہوں جو لڑائی جھگڑا ترک کر دے، اگرچہ وہ حق پر ہو، اور جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو جھوٹ بولنا چھوڑ دے اگرچہ وہ ہنسی مذاق ہی میں ہو، اور جنت کی بلندی میں ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو خوش خلق ہو ۔*

جھوٹ کی مذمت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی محل نظر رہے۔

Sunnan e Abu Dawood Hadees # 4990

حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ فَيَكْذِبُ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ وَيْلٌ لَهُ وَيْلٌ لَهُ .

*میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: تباہی ہے اس کے لیے جو بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس سے لوگوں کو ہنسائے، تباہی ہے اس کے لیے، تباہی ہے اس کے لیے۔*

اے قابل صد احترام مسلم بہنو اور بھائیو ! آئیے ہم عہد کریں کہ ہم مغرب اور اس کے ابلیسی پھندوں کو ناکام بنا دیں گے۔ اور اللہ کی توفیق سے اسلام کی روشن تعلیمات پر عمل پیرا رہیں گے اور کسی فول قوم کا اپریل کا دن منانے سے باز رہیں گے۔

و ما توفيقي الا بالله عليه توكلت و اليه انيب.

*ابو محمد ، محمد نعیم شہزاد ، لاہور*

Follow me on Twitter
@MNaeemShehzad

For more articles and much more
Like my fb page:
https://www.facebook.com/Discover-the-World-808270346036164/
[3/31, 9:21 PM] 🌹Muhammad 🌹Naeem Shehzad🌹: *اب فول نہیں بننا*

*رائٹر ام محمد*

مسلمانوں اور خاص طور پہ پاکستانیوں کے ساتھ بڑا مسئلہ ہے کہ جو بھی اہل مغرب کرتے ہیں اندھا دھند انکی تقلید میں وہی کرنا شروع ہو جاتے ہیں
اس بات کا مقصد پتہ ہوتا ہے نہ پس منظر بس اہل مغرب کرتے ہیں سو ہم پہ بھی فرض ہو گیا
گویا کہ مغرب کو قبلہ بنا لیا،اگر وہ ٹخنوں تک پینٹ پہنیں گے تو ہم بھی ٹخنوں تک ہی پہنیں گے اگر وہ پھٹی جینز پہنیں گے تو ہم بھی پھٹی ہوئی جینز ہی پہنیں گے
ڈاڑھی ویسے سنت سمجھ کے رکھنے میں شرم آتی ہے ہاں اہل مغرب ڈیزائن بنائیں گے تو وہ عجیب و غریب ڈیزائن بنانے میں کوئی شرم نہیں آۓ گی
حد تو یہ ہے کہ ایسے ہیئر اسٹائل بھی اہل مغرب کی تقلید میں بناۓ جاتے ہیں لگتا ہے سویا تھا اماں نے بال کھینچ کھینچ کر اٹھایا اور یہ سر جھاڑ منہ پھاڑ ایسے ہی باہر کو چل دیئے
ارے اتنی پیروی تو ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاحق تھا لیکن وہاں مجبوریاں معزوریاں ،اور منطقیں جھاڑنےلگتے ہیں
حالانکہ ہم مسلمان ہیں اللہ نے اعلی اور کفار کے بارے میں کہا کہ وہ جانور ہیں بلکہ جانور سے بھی بدتر ہیں
اور وہ جانور سے بدتر تو ہماری کسی معاملے میں نقل کرتے نہیں،نہ عید،نہ قربانی،نہ جمعہ کی نقل کرتے ہیں اور ہم ہر معاملے میں گویا کہ جانوروں کی نقل کرتے ہیں
حد تو یہ ہے کہ اس اندھی تقلید میں اپریل فول بھی منانے چل پڑے
اور جب پوچھو کہ یہ کیا ہوتا ہے تو جواب آتا ہے پتہ نہیں،بس سبھی کرتے ہیں
اور اس سے بھی افسوسناک امر یہ ہے کہ بعض معلوم ہونے کے بعد بھی جسٹ فار انجواِِۓ منٹ اڈونچر کرتے ہیں
جب کہ اس دن کی حقیقت بڑی درد ناک ہے
اس دن کا تعلق اس واقعے سے ہے جب عیسائی افواج نے سپین فتح کیااور پھرانھوں نے مسلمانوں کا اتنا
خون بہایا تھا کہ جب وہ گھوڑوں پر بیٹھ کر گلیوں سے گزرتے تھے تو گھوڑوں کی ٹانگیں گھٹنوں تک مسلمانوں کے خون میں ڈوب جاتی تھیں
وہ چن چن کر مسلمانوں کو مارتے تھے،
سو جو مسلمان بچ گئے تھے وہ اپنے علاقے چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں چلے گئے اور وہاں جاکر جان بچانے کے لئے گلوں میں صلیب ڈال لیں،اور عیسائی نام رکھ لئے

اب بظاہر اسپین میں کوئی مسلمان نظر نہ آتا تھا،
لیکن عیسائیوں کو ابھی بھی شک تھا کہ کہیں نہ کہیں مسلمان موجود ہیں اور بھیس بدل کر رہ رہے ہیں
انھیں مسلمانوں کا وجود برداشت نہیں تھا

ویسے آج یورپ و امریکہ میں بھی مسلمانوں کو نکالنے کے لئے آۓ دن سازشیں ہوتی ہیں
بہرحال اسکے لۓ ایک منصوبہ بنایا گیا اور اعلان کیا گیا کہ یکم اپریل کو تمام مسلمان غرناطہ میں اکٹھے ہو جائیں تاکہ انہیں ان ممالک میں بھیج دیا جائے جہاں وہ جانا چاہیں
مارچ کے پورے مہینے میں اعلان ہوتا رہا
مسلمانوں نے یہ اعلان ایک خوشگوار تبدیلی سمجھا کہ اب انھیں چھپنا بھی نہیں پڑے گا
وہ سب خوشی خوشی غرناطہ میں اکٹھے ہونے لگے
الحمراء کے نزدیک بڑے بڑے خیمے نصب کر دئیے گئے تھے،جہاز آ کر بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتے رہے
،اس طرح عیسائی حکومت نے تمام مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا کر لیا،
انکی بڑی خاطر مدارت بھی کی گئی،پھر انھیں بحری جہاز میں بٹھایا گیا،مسلمان اپنا وطن چھوڑتے تکلیف بھی محسوس کر رہے تھے لیکن اطمینان بھی تھا کہ جان بچ گئی اور شناخت بھی چھپانی نہیں پڑے گی۔
جرنیلوں نے مسلمانوں کو الوداع کیا اور جہاز وہاں سے چل دیئے
ان مسلمانوں میں،بچے،بوڑھے،جوان سب شامل تھےاور جب جہاز عین سمندر کے وسط میں پہنچا تو منصوبہ بندی کے تحت انھیں گہرے پانی میں ڈبو دیا گیا
،اور سپین سے مسلمانوں کا خاتمہ کر کے عیسائی حکمران اپنے محلات میں خوب جشن منانے لگے،کہ ہم نے کیسے مسلمانوں کو بےوقوف بنایا۔
پھر ہر سال وہ یہ دن خوشی کے طور پہ منانے لگے کہ سپین سے مسلمانوں کا خاتمہ اور انھیں بےوقوف بنایا گیا

پھر یہ دن پورے یورپ میں منایا جانے لگا
جانتے ہیں یہ دن کون سا دن تھا ؟
یہ دن کوئی پانچ سو سال پہلے یکم اپریل کا دن تھا
یہی وہ دن پے جو ہم پورے جوش و خروش سے مناتے ہیں،،اپنے ہی مسلمانوں کو بےوقوف بنانے کا دن ہنسی مذاق کرکےمناتے ہیں خوش ہوتے ہیں،اور جھوٹ بول کر اپنی آخرت تباہ کرتے ہیں تو دوسرے مسلمان کو اذیت دیتے ہیں بعض اوقات تو بات کسی کے پیارے کی غلط خبر دینے کی وجہ سے موت تک جا پہنچتی ہے

ویسے تو انسان خوشی میں گناہ کر بیٹھتا ہے
لیکن اس دن کی مسلمانوں کو کیوں اتنی خوشی چڑھ جاتی ہے کہ وہ قرآن و حدیث بھی بھول جاتا ہے
اللہ تعالی قرآن مجید کی سورہ بقرہ کی آیت نمبر 10 میں فرماتا ہے
في قلوبهم مرض فزادهم الله مرضاولهم عذاب أليم بما كا نو يكذبون(10)
;;" ان کے دلوں میں ہی ایک بیماری ہے تو اللہ نے انکو بیماری میں زیادہ کر دیا
اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے;;

یعنی جھوٹ بولنے کی وجہ سے ایمان نہ نصیب ہوا استغفراللہ
یہ کتنی بڑی بات ہے
اس کا احساس ہی نہیں ہمیں،ہم تو بس انجواۓ کرنا جانتے ہیں
اور ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
*ويل للذي يحدث فيكذب ليضحك به القوم ؤيل له ويل له**
سنن ابو داؤد
حدیث4990
تباہی ہے اسکے لئے جو بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس سے لوگوں کو ہنساۓ تباہی ہے اسکے لئے تباہی ہے اسکے لئے۔

اپنے دین کو دیکھیں تو بھی تباہی نظر آتی ہے اس سلسلے میں اور جن کی اپنے نبی کو چھوڑ کر پیروی کرتے ہیں وہ بھی کتنا ہنستے ہونگے ہم پہ کہ اپنے ہی بے وقوف بننے کا دن مناتے ہیں جوش و خروش سے اور یقینا کہتے ہونگے یہ تو آج بھی فول ہیں۔
ویسے اہل مغرب آج بھی ہمیں فول بناتے ہی رہتے ہیں بہت سارے معاملات میں،اور ہم ہیں کہ بنے ہی جا رہے ہیں ۔
لیکن اللہ کے لئے پاکستانیو! اندھی تقلید چھوڑ دو روشن خیالی اور بیوقوفی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
اب ہمیں ثابت کرنا ہے کہ ہم فول نہیں ہیں
بس اب اس سال سے فول اپریل منانا چھوڑ کر
اپنے آپ کو ایک عقل مند باشعور سلجھی ہوئی قوم ثابت کرو۔اب انھیں پتہ یہ چلے کہ جو بھی ہوا لا علمی میں ہوا ورنہ یہ قوم فول نہیں ہے اور جو فول بنا کر مارے گئے وہ بھی ان ظالموں کو انسان سمجھ بیٹھے تھے لیکن اب نہیں۔
اب ہمیں سر اٹھا کر جینا ہے۔اپنے آپ کو اتنا مضبوط اور اعلی بنانا ہے کہ دنیا ہمیں فالو کر ے اب پیچھے نہیں آگے لگنا ہے
اب ہم دنیا کی نہیں دنیا ہماری نقل کرے
سلف رسپیکٹ کرانی ہے
اب لوگوں کو یعنی اہل مغرب،تمام کفار کو اپنا پیروکار بننے بننے پہ مجبور کردو اپنے کردار سےانکار سے اب انھیں بتا دو کہ اب فول نہیں بننا ہم نے۔
اللہ ہمیں سمجھ بوجھ عطا فرمائے
آمین

Muhammad Naeem Shehzad
About the Author: Muhammad Naeem Shehzad Read More Articles by Muhammad Naeem Shehzad: 144 Articles with 106749 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.