پریس کلب سمبڑیال کے چیرمین کا قتل

حدنگاہ انسانی سر ہی سرنظر آرہے تھے سمبڑیال کی تاریخ نے شائد اتنا بڑا جنازہ پہلے کبھی نہیں دیکھاتھا ۔لوگوں کایہ ہجوم آج ایک ایسے خوبصورت نوجوان صحافی کو رخصت کرنے کے لئے جمع تھا جس نے بڑی کم عمری میں بڑی عزت اور احترام کمایا۔

اٹھائیس مارچ کو ان کی نماز جنازہ میں ہر آنکھ اشک بار ہردل اداس تھا لوگ اتنی بڑی تعداد میں جمع ہوچکے تھے کہ جنازگاہ کم پڑ رہی تھی باہر سڑک اور قبرستان کے اندر بھی صفیں تنگئی داماں کاشکوہ کررہی تھیں ۔انتیس مارچ کی رات کچھ دوستوں کے ساتھ ان کے گھر تعزیت کے لئے حاضرہوئے کہ یہ رسم دنیا بھی ہے اور جانے والے کی محبت کا تقاضہ بھی ۔

ذیشان اشرف شہید اٹھائس سال قبل سیالکوٹ کی تحصیل سمبڑیال کے گاؤں بیگوالہ میں پیدا ہوئے،تعلم مکمل کرنے کے بعد "نوائے وقت"سے عملی صحافتی زندگی کا آغاز کیا،اپنی محنت لگن اور خلوص کے باعث دلوں میں گھر کر لینے والا"ذیشان اشرف"جلدہی اپنی ایک جدا گانہ حیثیت بناگیا، سینئر صحافیوں کی موجودگی میں چھوٹی سی عمر میں ناصرف پریس کلب کی چیرمین شپ کا الیکشن لڑا بلکہ جیت بھی گیا ۔

ان کے بڑے بھائی عرفان اشرف نے بتایا "ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی بیگوالہ گاؤں کے کچھ دکاندار ذیشان بھائی کے پاس آئے اور بتایا"یونین کونسل کے چیرمین عمران اسلم چیمہ کےآدمی ایک نوٹس لے کر دکانوں پہ آئے ہیں جس میں لکھا ہے کہ ہر دکاندار دوہزار روپے فوری ٹیکس ادا کرے ورنہ پولیس کارروائی کی جائے گی"ذیشان اشرف نے اپنی صحافتی ذمہ داری کااحساس کرتےہوے ضلعی چیئرمین حناءارشدوڑائچ صاحبہ سے رابطہ کیاانہوں نے تردید کی کہ ایسا کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔مزید معلومات کے حصول اور یوسی چیرمین کا موقف جاننے کے لئےستائس مارچ صبح دس بجے کے قریب ذیشان یونین کونسل کے دفتر پہنچے جہاں انہیں نو ایم ایم پستول کی گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا"۔
ذیشان اصل میں ذی شان ہی تھا
سچ کی آواز تھا وہ بیباک انسان تھا
ملک بھر میں ہے جس نام کا چرچا
شہراقبال میں صحافت کی پہچان تھا
خوں میں لت پت تھاجوسچائی کاپیکر
قتل ناحق ہے کہ وہ بھی تو انسان تھا

پاکستان صحافت کے حوالے سے خطرناک ترین ممالک میں شامل ہے،آئے روز صحافی اپنے پیشہ ورانہ فرائض سر انجام دیتے ہوئے اپنی جانیں قربان کرتے رہتے ہیں, ریاستی ادارے انہیں تحفظ تو کیا فراہم کرتے ؟بلکہ بعض اوقات انہی سے صحافیوں کو عدم تحفظ کااندیشہ لاحق ہو جاتا ہے۔آخر کب تک ریاست کا چوتھا ستون اپنے ہی خون میں نہلایا جاتا رہے گا؟ ۔پریس کلبز اور صحافتی تنظیموں کو اب اپنا شعور بیدار کرنا ہوگا۔صحافی صرف وہی نہیں ہوتا جو ان کی ہی تنظیم یا کلب کا رکن ہو،سب کو ملکر پرزور آواز بلند کرنی چاہیے۔بابرخان ولی سے ذیشان اشرف تک ہر ناحق قتل کئے جانیوالے صحافی کا لہوملک بھر کے پریس کلبز اور صحافتی تنظیموں کے عہدیداران سے ایک سوال کا جواب ضرور چاہے گا!

"کہ ایساکیوں ہوتا ہے کہ کراچی میں قتل ہونے والے صحافی کے حق میں لاہور پشاور یاکوئٹہ میں آواز نہیں سنی جاتی ؟یا سمبڑیال میں قتل کیے جانے والے ذیشان اشرف (سابقہ چیرمین پریس کلب)کے بارے کراچی پشاور یاکوئٹہ میں کوئی صحافی احتجاج نہیں کرتا"؟

جب تک متحدہوکر کوئی لائحہ عمل مرتب نہیں کریں گے کسی کو تحفظ ملے گا نہ کسی قتل ہونےوالے غریب صحافی کے ورثاء کو انصاف ملے گا۔

Shahid Mushtaq
About the Author: Shahid Mushtaq Read More Articles by Shahid Mushtaq: 114 Articles with 87186 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.