عظیم سائنس دان کا اعتراف حقیقت

تمام تر عقیدت اور اعتقادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف عقلی اور علمی انداز میں اس دعویٰ کو حقائق اور سچائی کی کسوٹی پر پرکھیں کہ’’یہ لوگ قرآن کی صداقت سے اِس وقت انکار کرتے ہیں تو کوئی بات نہیں، یہ کرتے رہیں۔ ہم ایسے حالات پیدا کرتے جائیں گے کہ اِن لوگوں میں بلکہ اقوام عالم میں ہمارے قانون کی صداقت کی محسوس نشانیاں نظر آجائیں گی حتّیٰ کہ یہ حقیقت ان کے سامنے نکھر کر آجائے گی کہ قرآن نے جو کچھ ان سے کہا تھا وہ حق پر مبنی تھا اور ٹھیک اسی طرح واقع ہو کر رہے گا‘‘۔ یہ دعوی اولین مخاطب یعنی اہل عرب تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ دنیا بھر تمام انسانوں کے لیے اور ہر دور کے لیے تھا۔ یہ حقائق اب واضح ہورہے ہیں اور جوں جوں علم انسانی بڑھتا جائے گا اور دنیا پر نئے نئے حقائق منکشف ہوتے جائیں گے.وہ انسانوں کی داخلی دنیا سے متعلق ہوں یا خارجی کائنات سے، وہ سب قرآن کے دعاوی کی زندہ شہادتیں بنتے جائیں گے اور یوں دنیا رفتہ رفتہ دیکھ لے گی کہ قرآن کی ہر بات حقیقت پر مبنی ہے۔ یہ اس لئے کہ یہ کتاب اْس خدا کی طرف ہے جو کائنات کی ہر شے پر نگران ہے۔ اس لئے اْسے خوب معلوم ہے کہ یہاں کیا ہونے والا ہے۔ لہذا اُس کا ایسا ہمہ گیر علم ہی اس بات کی کافی ضمانت ہے کہ جو کچھ اس نے کہا ہے وہ حقیقت ثابتہ ہے۔ قرآن کی سورہ فصلت کی آیت 53 کی طرف دھیان اس وقت گیا جب اس صدی کے عظیم ترین سائنس دان سٹیفن ہاکنگ نے یہ کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ زمین کے علاوہ کائنات میں کوئی اور مخلوق بھی کہیں آباد ہے تو یہ بالکل منطقی ہے۔ قرآن حکیم نے اس بارے میں سورہ الشوریٰ کی آیت 29 میں بتا دیا تھا کہ خدا کے قوانین فطرت اسی زمین تک محدود نہیں بلکہ یہ ساری کائنات میں جاری وساری ہیں۔ اسی لئے زمین اوراجرامِ فلکی کی پیدائش، خدا کی نشانیوں میں سے ہے۔ نیز وہ ذی حیات یعنی چلنے پھرنے والی آبادیاں جو اس نے اِس زمین اور آسمانی کرّوں میں پھیلا رکھی ہیں۔ یہ آبادیاں،اِس وقت تو الگ الگ ہیں۔ لیکن وہ اس پر بھی قادر ہے کہ انہیں اکٹھا کر دے۔ یعنی زمین اور اْن کرّوں میں بسنے والی آبادیاں باہمی ربط پیدا کر لیں اور اور ایک دوسرے کے ساتھ مل جائیں۔کائنات میں پھیلی ہوئی ان آبادیوں کے بارے میں کتاب حکمت نے سورہ حجرات کی آیت 16میں واضح کردیا کہ یادرکھو! کائنات کی پستیوں اور بلندیوں میں جو کچھ ہے، اﷲ کو سب کا علم ہے۔ اسے ہر بات کی خبر ہوتی ہے۔ اب آیئے اس صدی کے عظیم ترین سائنس دان کی تحقیق کی طرف جو انہوں نے 2010ء میں انہوں نے انٹرویو دیتے ہوئے کہی تھی کہ انسانوں کے علاوہ یقیناً کوئی نہ کوئی مخلوق کہیں ضرور آباد ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میرے خیال میں نسل انسانی اگر خلا میں نہیں جاتی تو اس کا کوئی مستقبل نہیں۔

معروف برطانوی سائنسدان سٹیفن ہاکنگ نے اپنی آخری نصیحت میں انسانوں کو خبردار کیا تھا کہ کسی بھی اجنبی مخلوق سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کرنے چاہیے ۔انہوں نے یہ اس بنیاد پر کہا ہوگا کہ ممکن ہے وہ بیرونی مخلوق انسانوں سے زیادہ ترقی یافتہ ہو اور باہمی رابطہ شاید زمین کے باسیوں کے لیے مشکلات پیش کردے۔ یہ سوال کہ کیا انسان سے بہتر مخلوق اس کائنات میں موجود ہے یا انسان ہی اشرف المخلوقات ہے؟ قرآن اس کا بھی جواب دیتا ہے کہ انسان کائنات کی اشرف المخلوقات نہیں بلکہ انسان سے بہتر مخلوق بھی کائنات میں ممکن ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت 70 واضح کرتی ہے کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو اپنی اکثر مخلوق پر فضیلت اور برتری عطا کی ہے‘‘۔ اس آیت میں’’ اکثر مخلوق پر‘‘ یہ واضح کرتا ہے کہ انسان خدا کی پیدا کی گئی اکثر مخلوق سے تو بہتر ہے لیکن ’’ سب سے بہتر نہیں ‘‘ یعنی Better among others not The BEST۔ بلکہ قرآن حکیم کی سورہ النحل کی آیت 16 میں تو مزید یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ کائنات میں نئی نئی مخلوقات پیدا ہونے کا سلسلہ جاری ہے اور بہت سی ایسی بھی ہیں جو انسانوں کے علم میں بھی نہیں ہیں یعنی بقول حکیم الامت
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دما دم صدائے "کن فیکوں

اس کائنات کے معرض وجود میں آنے کے بارے میں جدید نظریات ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ عظیم دھماکہ جس سے اس کائنات کی تخلیق ہوئی وہ ایک سیکنڈ کے پدم ویں حصہ (10x-32 Second) یعنی ہزاروں کھرب ویں حصہ سے بھی کم وقت میں ہوا ہے۔ اب سورہ قمر کی آیت 54 کو دیکھئے اور جھوم جائیے جس میں فرمایا کہ ’’ اور ہمارا حکم تو فقط یک بارگی واقع ہو جاتا ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا ہے‘‘ عظیم سائنس دان سٹیفن ہاکنگ نے یہ بھی کہا تھا کہ ’انسانیت کو انسان کی اپنی تخلیقات کی وجہ سے خطرات کا سامنا ہے۔ قرآن حکیم نے یہ حقیقت روز اول ہی واضح کردی کہ تمہاری تباہیاں خود تمہارے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی ہیں۔ اب ان قرآنی حقائق کے بعد یہ سوال کہ دنیا میں جب بھی کوئی سائنسی ایجاد ہوئی ہے یا کائنات کی وسعتوں کے راز افشا ہوئے ہیں تو مسلم مذہب کے اہل علم فوراً دعویٰ کرتے ہیں کہ اس بات کا ذکر تو اﷲ نے چودہ سو سال پہلے قرآن میں کیا ہوا ہے۔ اگر قرآن کی تعلیمات ہی سائینسی ایجادات کا موجب بنتی ہیں تو پھر دنیا کی تمام سائینسی ایجادات اور کائنات کے رموز تو مدرسوں سے افشا ہونے چاہیے تھے۔ اگر واقعی غیر مسلم سائنسدان قرآنی تحقیق سے استفادہ کر کے ایجادات یا کائنات کے راز افشا کرتے ہیں تو پھر مسلم کمیونٹی قرآنی پیغام سے کیوں محروم تصور ہوتی ہے اور کیا مغربی سائنس دان قرآن سے استفادہ کرکے ایجادات کرتے ہیں؟ سوال بہت اہم ہے اور جواب یہ ہے کہ قرآن میں حقائق تو موجود ہیں جیسا کہ اس کالم میں بھی کچھ بیان کردیئے گئے ہیں لیکن ان پر تحقیقی نظر سے توجہ ہی نہیں دی گئی۔ میرے خیال میں دنیا میں کوئی یونیورسٹی یا ایسا کوئی اور ادارہ نہیں جو قرآن کے بیان کئے گئے سائنسی حقائق کی تعلیم و تحقیق کرے۔ ایک بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ قرآن کوئی سائنس کی کتاب نہیں البتہ جن سائنسی حقائق نے اس نے بیان کیا ہے اسے جدید سائنس درست قرار دے رہی ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ قرآن اپنی تصدیق کے لئے سائنس کا محتاج نہیں کیونکہ یہ خالق کائنات کا کلام ہے اور سچائی پر مبنی ہے۔ یہ بھی درست نہیں کہ مغربی سائنس دان قرآن پڑھ کر تحقیق کرتے ہیں۔ ایسا بالکل نہیں بلکہ اپنے طور پر تحقیق کرتے ہیں البتہ ان کی تحقیق سے قرآن کی سچائی ثابت ہوتی جارہی ہے۔جن حقائق پروہ ایک مدت کے بعد پہنچتے ہیں وہ بات وحی نے روز اول کہہ دی ہوتی ہے ۔ علامہ اقبال نے اس حقیقت کو اس خوبصورت انداز میں یوں بیان کیا ہے۔
عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں

دور حاظر کے مایہ ناز سائنس دان اور عظیم دانشور پروفیسر اسٹیفن ہاکینگ کے دل ایک چیخ نکلی ہے کہ ا نسانیت کیلئے سب سے بڑا خطرہ روبوٹ نہیں بلکہ نظام سرمایہ داری ہے۔پندرہ سو سال قبل سورہ حشر کی آیت 7 میں خبردار کردیا گیا تھا کہ ’’دولت صرف مال داروں میں گردش نہ کرے‘‘۔اب ا س صدی کے سب سے بڑے انسان نے اس حقیقت کا اعتراف کردیا ہے جس کا اظہار علامہ اقبال نے کیا تھا کہ
جو حرف ’’قل العفو‘‘ میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار

Arif Kisana
About the Author: Arif Kisana Read More Articles by Arif Kisana: 276 Articles with 264285 views Blogger Express Group and Dawn Group of newspapers Pakistan
Columnist and writer
Organiser of Stockholm Study Circle www.ssc.n.nu
Member Foreign Pr
.. View More