ڈاکٹر فوزیہ صدیقی 15 سال سے امریکا میں جرم بے گناہی کے
سبب قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ہیں۔ جب 2003ء میں ان کی بہن ڈاکٹر عافیہ
صدیقی کو کراچی سے اغوا کر کے امریکا کے حوالے کردیا گیا، اس وقت سے یہ
اپنی بہن کی رہائی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ انہوں نے ’’عافیہ موومنٹ‘‘ کے
نام سے ایک تنظیم بھی بنائی، جو ملک اور دنیا بھر میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی
رہائی کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں۔ان کی راہ میں بہت مشکلات آئیں، لیکن نہ
تو وہ ڈریں اور نہ ہی تھکیں، بلکہ اس دوران ہر دور حکومت میں اپنی محب وطن
بے گناہ اور تعلیم یافتہ بہن کی رہائی کا مطالبہ کرتی آرہی ہیں۔ روزنامہ
اسلام نے ان سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق تفصیلی گفتگو کی، جو
نذر قارئین ہے۔
عابد محمود عزام :آپ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے 15سال سے مسلسل
جدوجہد کر رہی ہیں، بتائیے اس دوران آپ کو کن حالات سے گزرنا پڑا اور اب کن
حالات سے گزر رہی ہیں؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی:کوئی انسان مر جاتا ہے تو اسے دفنا دیا جاتا ہے، جس کے
کچھ عرصے بعد لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں، لیکن اگر کوئی
اپنا کھو جائے تو صبر نہیں آتا کہ نجانے کن حالات میں ہوگا اور کن مشکلات
سے گزر رہا ہوگا۔ کسی اپنے کو تکلیف ہو تو خود کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ ہم تو
روز صبح کو ایک امید لے کر جاگتے ہیں اور شام کو تھک ہار کر سوتے ہیں۔ اب
تو روز جیتے ہیں اور روز مرتے ہیں۔ بیچ میں پتہ چلتا رہتا تھا کہ عافیہ کن
حالات میں ہے، لیکن اب تو دو سال سے عافیہ سے کوئی رابطہ بھی نہیں ہوا۔
ماضی میں کئی بار امید کی کرن نظر آئی، مگر ہمیشہ اپنوں کی طرف سے ہی تکلیف
پہنچی ہے۔ اگر دشمن نقصان پہنچائے تو زیادہ تکلیف نہیں ہوتی، کیونکہ دشمن
کا تو کام ہی تکلیف دینا ہوتا ہے، لیکن اگر اپنوں کی طرف سے نقصان پہنچے تو
زیادہ تکلیف پہنچتی ہے۔عافیہ کے معاملے میں ہمیشہ ہماری اپنی حکومتوں نے ہی
عملی طور پر رکاوٹ ڈالی ہے۔
عابد محمود عزام : مسلسل جدوجہد کے باوجود بھی اب تک عافیہ صدیقی کی رہائی
ممکن نہیں ہوسکی، اس حوالے سے اب تک کیا پیشرفت ہوئی ہے اور مستقبل میں
کامیابی کے کتنے فیصد چانسز ہیں؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی:ہماری جدوجہد کے 15سالوں کے دوران کافی حد تک کامیابی
ملی ہے۔ شروع میں تو ہمیں یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ عافیہ زندہ بھی ہے کہ
نہیں، ہم اپنی بہن کو تلاش کر رہے تھے، جدوجہد کے نتیجے میں ہمیں یہ علم
ہوا کہ عافیہ زندہ ہے۔ ہم نے جدوجہد جاری رکھی تو اس کے دونوں بچے بھی میری
آغوش میں آگئے۔ہم نے عافیہ کے لیے جدوجہد کی تو اس کا یہ فائدہ بھی ہوا کہ
کئی لوگ جن کو ہماری حکومتیں امریکا کے حوالے کرنا چاہتی تھیں، ان کو
امریکا کے حوالے کرنے سے باز آگئیں۔ ہماری جدوجہد کے نتیجے میں کئی لوگ
واپس بھی آئے۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا نظام ہے کہ کسی کی آزمائش جلد ختم ہوجاتی ہے
اور کسی کی آزمائش طویل ہوتی ہے۔ مجھے اﷲ تعالیٰ پر 100فیصد یقین ہے کہ
عافیہ ضرور پاکستان واپس آئے گی، یہ کب ہوگا کیسے ہوگا یہ اﷲ جانتا ہے،
لیکن اﷲ کرے گا ضرور۔
عابد محمود عزام : ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس کی قانونی حیثیت کتنی مضبوط ہے؟
کیا امریکی عدالت سے آپ کو انصاف کی توقع ہے؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی:امریکی عدالت نے تو انصاف نہیں کیا، لیکن انصاف حاصل
کرنے کے اور بھی کئی طریقے ہیں۔ ہم نے امریکا کا آرٹیکل 250 جیت لیا ہے، اس
کے مطابق ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستانی شہری ہے، نہ یہ گرین کارڈ ہولڈر ہے
اور نہ ہی امریکا کی شہری ہے۔ اس لیے امریکا میں اس پر مقدمہ نہیں چل سکتا۔
اس کی سزا عالمی قانونی کے مطابق غیر قانونی ہے۔ہماری قانونی حیثیت بہت
مضبوط ہے، اسی وجہ سے امریکی انتظامیہ نے عافیہ کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا
تھا۔ عافیہ چونکہ پاکستانی شہری ہے، اس کے لیے پاکستان کے صدر یا وزیر اعظم
کے صرف ایک دستخط چاہیے تھے، صرف ایک دستخط سے عافیہ پاکستان واپس آسکتی
تھی، لیکن پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور موجودہ صدر ممنون
حسین نے دستخط نہیں کیے۔ سیاست دان الیکشن سے پہلے ہمارے پاس آتے رہے اور
ہمیں کہتے تھے کہ عافیہ ہماری ہی بیٹی ہے، ہماری بہن ہے، لیکن اقتدار میں
آنے کے بعد اپنی بیٹی اور بہن کو بھول گئے۔ جو لوگ اپنی بیٹی اور بہن کے
ساتھ مخلص نہیں ہیں، وہ پوری قوم کے لیے کیسے مخلص ہوسکتے ہیں؟
عابد محمود عزام : سابق نااہل وزیر اعظم میاں نواز شریف اور صدر مملکت
پاکستان نے امریکی صدر کو خط نہ لکھ کر عافیہ کی رہائی کا اہم موقع گزشتہ
سال گنوا دیا تھا، آپ کیا سمجھتی ہیں اسی طرح کا کوئی اور موقع بھی جلد مل
سکتا ہے؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی:اﷲ تعالیٰ ان سے خود بدلہ لے رہا ہے اور مزید بدلہ لے گا
ان شاء اﷲ۔ اﷲ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ چانسز ملنا کوئی مشکل نہیں ہے، لیکن
ہماری حکومتیں چانسز لینا ہی نہیں چاہتی ہیں۔ ہماری حکومتیں عافیہ کے
معاملے کو سنجیدہ ہی نہیں لے رہی ہیں۔ اگر حکومت پراپر طریقے سے بات کرے تو
کوئی وجہ نہیں کہ امریکا انتظامیہ عافیہ کو رہا نہ کرے۔
عابد محمود عزام : آپ کی سرپرستی میں عافیہ موومنٹ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی
رہائی کے لیے بھرپور آواز اٹھا رہی ہے۔ عافیہ کی رہائی کے لیے آواز اٹھانے
میں کن کن لوگوں نے آپ کا ساتھ دیا اور ساتھ دے رہے ہیں؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی: ایک ساتھ تو زبانی ہوتا ہے اور دوسرا ساتھ عملی ہوتا
ہے۔ زبانی تعاون تو بہت سے لوگ کرتے ہیں، لیکن عملی تعاون سب لوگ نہیں
کرتے۔ پاکستان کی حکومتوں نے بہت سارے مواقع ضایع کیے ہیں، مگر عوام اس
ایشو کو اٹھاتے ہیں اور پھر خاموش ہوجاتے ہیں، حالانکہ جب تک یہ معاملہ
مکمل اور کلیئر نہیں ہوجاتا، تب تک خاموش نہیں ہونا چاہیے۔ ہر پلیٹ فارم پر
آواز بلند کرنی چاہیے۔
عابد محمود عزام : کچھ عرصے بعد الیکشن آنے والے ہیں، ہر بار سیاست دانوں
نے عافیہ کو واپس لانے کا جھوٹا وعدہ کیا، مگر تعاون نہیں کیا۔ آپ کیا
سمجھتی ہیں کہ عوام کس طرح سے بااختیار لوگوں پر دباؤ ڈال سکتے ہیں جس کے
نتیجے میں عافیہ کی رہائی ممکن ہوسکے؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی:اس میں میڈیا کا کردار اہم ہے۔ اگر میڈیا اپنی ذمہ داری
ادا کرتے ہوئے ہمارا ساتھ دے تو میرا نہیں خیال کہ پندرہ سے بیس دن میں
عافیہ پاکستان واپس نہ آجائے۔ الیکشن آنے والے ہیں، اس دوران الیکٹرانک
میڈیا جب بھی کوئی پروگرام کرے تو ساتھ صرف اتنی سا ٹکر چلادے کہ عافیہ کو
امریکا کی قید میں 15سال ہوگئے، لیکن اب تک کوئی حکمران اسے واپس نہیں
لاسکا۔ پاکستان کا حکمران وہی بنے گا جو عافیہ کو واپس لائے گا۔ اسی طرح
پرنٹ میڈیا بھی آواز اٹھائے۔ اگر میڈیا اس حوالے سے عوام کو آگاہ کرے گا
اور حقائق بتلائے گا تو ہی عوام بھی ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں گے۔ عوام کو
چاہیے کہ اچھے ووٹر بنیں، اچھے حکمرانوں کو منتخب کریں۔
عابد محمود عزام : ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے سلسلے میں مسلم لیگ (ن)
کی موجودہ حکومت نے آپ کے ساتھ کتنا تعاون کیا اور سابقہ حکومتوں نے کتنا
تعاون کیا؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی:ڈاکٹر فوزیہ صدیقی:اب تک ہمارے ساتھ عافیہ کے معاملے میں
سب سے زیادہ تعاون رحمن ملک نے اپنے دور میں کیا ہے۔ موجودہ حکومت نے وعدے
تو بہت کیے، لیکن پورا کوئی بھی نہیں کیا۔ سابق وزیر اعظم گیلانی کے دور
میں بھی یہ خبر سنی تھی کہ 2ملین ڈالر امریکا کو دے کر عافیہ کی رہائی کا
انتظام کیا جارہا ہے، لیکن وہ پیسے کہاں گئے، کچھ پتہ نہیں۔
عابد محمود عزام : ڈاکٹر عافیہ صدیقی اب کن حالات سے گزر رہی ہے اور ان سے
سے آپ کی آخری بار کب بات اور ملاقات ہوئی؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی: عافیہ سے آخری بار دو سال پہلے بات ہوئی تھی، اس کے بعد
ہماری بات ہی نہیں کروائی گئی۔ ہم نے بات کرنے کی بہت کوششیں کیں، لیکن
امریکا انتظامیہ کہتی ہے کہ پاکستان کی طرف سے ہمیں کہا ہی نہیں جاتا۔
عابد محمود عزام : ڈاکٹرعافیہ صدیقی کے بچے، والدہ اور آپ ان کی رہائی کے
حوالے سے پاکستانی قوم سے کیا توقع رکھتے ہیں؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی:عوام سے بس یہی گزارش ہے کہ خدارا اب سمجھدار ہوجاؤ،
جھوٹے لیڈروں کے جھوٹے نعروں پر یقین کرنا اب تو چھوڑ دو۔ کب تک ان کے
نعروں میں آتے رہوگے۔ عافیہ کو اپنے ووٹ کا معیار بنا لو۔ ووٹ اسی کو دو جو
پاکستان کی بیٹی کو واپس لائے گا۔
عابد محمود عزام :15 سال کے بعد بھی عافیہ صدیقی پاکستان واپس نہیں لائی
جاسکی، مگر آپ بھرپور جدوجہد کر رہی ہیں، آپ کا آئندہ کا کیا لائحہ عمل ہے؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی:ہم تو جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہم تو عافیہ کی رہائی تک
جدوجہد کرتے رہیں گے اور ان شااﷲ کامیابی بھی ضرور ملے گی۔ ہر طرح سے بات
چیت بھی جاری ہے۔ پبلک سپورٹ کافی حد تک چاہیے۔ |