تقریباً پچیس سالہ تدریسی خدمات کے بعد کل 31 مارچ 2018
کو امی اپنی ملازمت سے سبکدوش ہو گئیں. اس پوری مدت میں ان کی زندگی مجاہدہ
سے بھری رہی. عورت ہونے کے باوجود انہوں نے ہر طرح کے حالات کا ڈٹ کر
مقابلہ کیا اور الحمد للہ بہت ہی عزت و وقار کے ساتھ اپنی ملازمت مکمل کی.
اس پچیس سالہ مدت میں ان کی ذات سے کبھی کسی کو معمولی سی بھی تکلیف اور
شکایت نہیں ہوئی. یہ باتیں میں اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کہ میں ان کا بیٹا
ہوں بلکہ جو لوگ بھی امی کو جانتے ہیں وہ میرے لفظ لفظ کی صداقت پر گواہی
دے سکتے ہیں.
امی کی ملازمت 1993 میں ہوئی تھی. ان کی پہلی جوائینگ پلاموں کے ایک دور
افتادہ گاؤں رنکا میں ہوئی تھی. گاؤں کیا تھا ایک چھوٹا موٹا جنگل تھا. رات
میں سیار کے رونے کی آوازیں میری یاد داشت میں آج بھی محفوظ ہیں. امی کی
ملازمت سے بہت پہلے ابو سرکاری ملازت سے استعفی دے کر صحافت کی دنیا میں
سرگرم ہو چکے تھے. اس وقت اردو اخبارات کارکن صحافیوں کا خون نچوڑ کر نکالے
جاتے تھے. مشاہرہ برائے نام تھا، وہ بھی وقت پر نہیں ملتا تھا. خودداری
ایسی کہ اپنے درد کا اظہار گھر والوں کے سامنے بھی نہیں کر سکتے تھے. امی
کو ملازت ملی تو امیدوں کے چراغ جل اٹھے. لیکن گھر سے کوسوں دور کی ملازمت
اس پر عورت کا وجود. گھر میں دو طرح کی باتیں ہونے لگیں. کچھ لوگ دوری کی
وجہ سے ملازمت کے حق میں نہیں تھے تو کچھ سرکاری ملازمت کو ٹھکرا دینے کے
خلاف. آخر میں نانا جان اور ابو نے فیصلہ امی پر چھوڑ دیا کہ وہ اسکول
جوائن کر کے دیکھ لیں اور اگر انہیں دشواری محسوس ہو تو نوکری چھوڑ کر گھر
آ جائیں.
امی نے پہلے ہی مرحلے میں اپنی بلند ہمتی سے یہ ثابت کر دیا کہ ان کی رگوں
میں "بزرگان بلخ" کا خون ہے. انہوں نے رنکا جیسے دور افتادہ اور انتہائی
پسماندہ علاقے میں صبر و استقامت کے ساتھ پورے دو سال گزار دئیے. اس وقت
فون اور موبائل کا زمانہ نہیں تھا. خط پہنچنے میں ہفتہ دس دن لگ جاتے تھے.
امی پابندی سے فرداً فرداً سب کے نام سے خط لکھتی تھیں. ہم لوگوں کو یاد ہے
کہ چھٹیوں میں امی کے گھر آنے کا ہم لوگ کس شدت سے انتظار کرتے تھے اور جب
امی واپس جاتی تھیں تو ایسا لگتا تھا کہ جسم سے روح جدا ہو رہی ہو. یقیناً
امی کے ساتھ بھی کچھ ایسی ہی گزرتی ہوگی لیکن وہ اپنے آنسؤوں کو تنہائی کے
وقت کے لیے مؤقر رکھتی ہوں گی کیوں کہ ہم لوگوں نے انہیں ہمیشہ صبر و
استقامت کا مجسمہ پایا.
1997 میں ابو کی کوششوں سے امی کا تبادلہ نالندہ ضلع کے نیرپور گاؤں میں ہو
گیا. امی بہت خوش تھیں کہ انہیں گھر نہ سہی گھر سے قریب آنے کا تو موقع
ملا. نیرپور میں جوائننگ کے بعد اسکول آنے جانے کا سلسلہ بہار شریف کے
میرداد محلہ سے رہا لیکن دوری اتنی تھی کہ گھر پہنچتے پہنچتے اندھیرا ہو
جاتا تھا. کچھ مہینے بعد نیرپور سے سات کلیومیٹر کے فاصلے پر واقع پنہسہ
گاؤں میں ایس ایم شرف (متولی صغری وقف اسٹیٹ) نے اپنے گھر میں ٹھکانا عطا
کیا. اس وقت شرف صاحب ابو کے ساتھ دوردرشن، پٹنہ میں کام کرتے تھے.
پنہسہ سے نیرپور کی دوری سات کیلومیٹر تھی. یہاں امی نے پورے دس سال ملازمت
کی. وہ اکثر گاؤں سے اسکول پیدل جایا کرتی تھیں کیوں کہ نالندہ سے نیرپور
کے لیے بہت کم سواریاں چلتی تھیں.
2007 ء میں ہائی کورٹ کے اسپیشل آرڈر پر امی کا تبادلہ جالان ہائی اسکول،
پٹنہ میں ہوا اور تقریباً گیارہ سال بعد اسی اسکول سے امی اپنی ملازمت سے
سبکدوش ہوئیں. رخصت ہوتے وقت بھی امی کا حوصلہ قابل دید تھا. ان کی کولیگز
رورہی تھیں اور امی سب کو سمجھا رہی تھیں کہ آپ روئیں گی تو میں بھی اپنے
آنسوؤں کو ضبط نہیں کر پاؤں گی. تحائف، دعائیں اور پیار بھرے اشکوں کا
نذرانہ لیے امی عام دنوں کی طرح گھر واپس آئیں لیکن گھر آنے کے بعد ان کا
ضبط جواب دے گیا. رہ رہ کر ان کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے یا یوں کہیے کہ
ماضی کی تلخ و شیریں یادیں اشکوں کی مالا گوندھ رہی تھیں.
امی اپنی پوری ملازمت میں زیادہ تر غیر مسلموں کے بیچ رہیں لیکن انہوں نے
اپنی شناخت قائم رکھی. انہوں نے پیار دیا اور پیار حاصل کیا. خاموشی اور
ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض ادا کیے. یہی وجہ ہے کہ جہاں بھی رہیں طلبہ
اور اساتذہ میں مقبول رہیں.
ماں تو پھر بھی ماں ہوتی ہے. ایثار و قربانی اور وفا شعاری کا مجسمہ. اس پر
سلمی بلخی جیسی ماں ہونا ہر کسی کو میسر نہیں ہوتا. امی نے پورے پچیس سال
ہم لوگوں کی خوشی کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کر دیا. اب ہماری ذمہ داری ہے
کہ ہم امی کو آرام پہنچانے اور خوش و خرم رکھنے کی استطاعت سے بڑھ کر کوشش
کریں.
اللہ امی کا سایہ ہمیشہ قائم رکھے. انہیں ہماری ذات سے کبھی کوئی تکلیف نہ
ہو. وہ ہمیشہ خوش و خرم اور فعال و متحرک رہیں. آمین
|