آج اسلام دشمن طاقتیں اسلامی تہذیب،ثقافت وتمدن کوبے
حیائی وعریانیت میں تبدیل کرکے اُسے روشن خیالی اورآزادی کانام دینے کے لئے
مکمل طورسے کوشاں ہیں،وہ فحاشی پرمبنی رسوم کواس طرح آراستہ کرکے پیش کررہے
ہیں کہ مسلمان اپنی پاکیزہ تہذیب وعمدہ تمدن کوچھوڑ کراغیارکے تہواروں
کادلدادہ ہوتاجارہاہے۔آزادی کے نام پرغیرمحرم کے ساتھ گھومنے پھرنے اورجنسی
تعلقات قائم کرنے کوباعث فخرسمجھاجارہاہے،جس کے نتیجہ میں یہ حیاسوزحرکتیں
صرف کلبوں اورہوٹلوں ہی میں نہیں کی جارہی ہیں بلکہ کالجوں اورسڑکوں پربھی
طوفان بے حیائی وبدتمیزی بپاکیاجارہا ہے۔احساس کمتری میں مبتلالوگ مغرب کی
ہرچھوٹے بڑے معاملہ میں تقلیدونقالی کواپنے لئے ترقی وکامیابی کارازسمجھتے
ہیں،یہی وجہ ہے کہ آج اگراُمتِ اسلامیہ کے حالات پرذراسی نظرڈالی جائے توبے
شماربیماریاں ایسی نظرآئیں گی جن کااسلامی تہذیب ومعاشرت سے دورکابھی واسطہ
نہیں،بلکہ شریعت اسلامیہ میں ان کے خلاف واضح ہدایات موجودہیں،اس کے
باوجودمسلمان اُن کے عادات واطواراوررسو م ورواج کواپناتاجارہاہے،اوریوں
دھیرے دھیرے اپنے اسلامی تشخص اورمسلم آئیڈینٹی کوکھوتاجارہاہے۔نتیجہ یہ کہ
شکل وشباہت،اندازِخوردونوش،نشست وبرخاست،خوراک وپوشاک،چال ڈھال اورکام کاج
غرضیکہ ہرمعاملہ میں اغیارکی نقل کرنے پرفخرمحسوس کرتے ہیں۔اورتمام ذرائع
ابلاغ(میڈیا)انہیں اس نقّالی پراُکساتے رہتے ہیں،کبھی ہندؤں کے گستاخ رسول
ؐ شخص کی یادمیں منائی جانے والی تقریبات’’بسنت میلہ‘‘کے نام سے مناتے ہیں
،اوراس میں بڑے بڑے ناموروں کوپتنگ بازی کرتے ہوئے دکھایاجاتاہے ۔کبھی
مجوسیوں کے ’’جشن نوروزاورکبھی جشن بہاراں‘‘میں مگن نظرآتے ہیں،اوران میلوں
پرلاکھوں کروڑوں روپے بربادکئے جاتے ہیں،کہیں سرکاری سطح پراورکہیں
غیرسرکاری رنگ میں ،جب کہ یہ تمام رسوم ‘اسلامی تعلیمات کے مغائرہیں۔حجاب
اٹھتاجارہاہے،عورتیں پردہ چھوڑرہی ہیں اوروہ پردہ مردوں کی عقلوں
پرپڑتاجارہاہے۔ایسی ہی بے شماررسوم وعادات میں سے ایک''اپریل فول ''منانے
کی رسم بھی ہے،فرنگیوں نے آپس میں ایک دوسرے کواُلُّوبنانے کے لئے
اوردوسروں کوپریشانی میں مبتلاکرکے خودخوش ہونے کے لئے اس ''اپریل فول
''نامی رسم کورواج دیااورہماری قوم نے اُسے ہاتھوں ہاتھ قبول کرلیا۔
معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں میں ایک ناسُور''اپریل فول ''(April
Fool)''بھی ہے جسے یکم اپریل کورسم کے طورپرمنایاجاتاہے ،نادان لوگ اس دن
پریشان کردینے والی جھوٹی خبرسناکر،مختلف اندازسے دھوکادے کراپنے ہی اسلامی
بھائیوں کو(Foolیعنی بے وقوف)بناکرخوش ہوتے ہیں،مثلاًکسی کویہ خبردی جاتی
ہے کہ ٭آپ کاجوان بیٹافلاں جگہ ایکسیڈنٹ ہونے ک وجہ سے شدیدطورپرزخمی ہے
اوراُسے فلاں اسپتال میں پہنچادیاگیاہے۔٭آپ کافلاں رشتہ دارانتقال کرگیاہے
۔٭آپ کی دکان میں آگ لگ گئی ہے ۔٭آپ کی دوکان میں چوری ہوگئی ہے۔٭آپ کے
پلاٹ پرقبضہ ہوگیاہے۔٭آپ کی گاڑی چوری ہوگئی ہے۔٭آپ کے بیٹے کوتاوان کے لئے
اغواکرلیاگیاہے وغیرہ۔پھرحقیقت کھلنے پر''اپریل فول ''اپریل فول ''کہہ کر
اس کامذاق اُڑایاجاتاہے ۔جوجتنی صفائی اورچالاکی سے دوسرے کوبے وقوف بنائے
وہ خودکواتناہی عقل مندسمجھتاہے مگراس''فول ''کویہ احساس نہیں ہوتاکہ وہ
کتنی بڑی بھول کرچکاہے۔''اپریل فول ''منانے والے دانستہ یانادانستہ طورپرکن
لوگوں کی پیروی کررہے ہیں ملاحظہ کیجئے:
اپریل فول کیسے شروع ہوا؟:اپریل فول کے آغازکے بارے میں مختلف اسباب بیان
کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ جب کئی سوسال پہلے عیسائی افواج نے
اسپین کوفتح کیاتواس وقت اسپین کی زمین پرمسلمانوں کااِتناخون بہایاگیاکہ
فاتح فوج کے گھوڑے جب گلیوں سے گزرتے تھے توان کی ٹانگیں مسلمانوں کے خون
میں ڈوبی ہوتی تھیں،جب قابض افواج کویقین ہوگیاکہ اب اسپین میں کوئی بھی
مسلمان زندہ نہیں بچاہے توانہوں نے گرفتارمسلم حکمراں کویہ موقع دیاکہ وہ
اپنے خاندان کے ساتھ واپس مراکش چلے جائیں جہاں سے اس کے آباؤ اَجدادآئے
تھے ،قابض افواج ’’غرناطہ ‘‘سے کوئی بیس کلومیٹردورایک پہاڑی پراُسے
چھوڑکرواپس چلی گئیں۔جب عیسائی افواج مسلمان حکمرانوں کواپنے ملک سے نکال
چکیں توحکومتی جاسوس گلی گلی گھومتے رہے کہ کہیں بھی مسلمان نظرآئے تواُسے
شہیدکردیاجائے جومسلمان زندہ بچ گئے وہ اپنے علاقے چھوڑ کردوسرے علاقوں میں
جابسے اوراپنی شناخت پوشیدہ کرلی،اب بظاہراسپین میں کوئی مسلمان نظرنہیں
آرہاتھامگراب بھی عیسائیوں کویقین تھاکہ سارے مسلمان قتل نہیں ہوئے ہیں کچھ
چھپ کراوراپنی شناخت چھپاکرزندہ ہیں ،اب مسلمانوں کوباہرنکالنے کی ترکیبیں
سوچی جانے لگیں اورپھرایک منصوبہ بنایاگیا۔پورے ملک میں اعلان ہواکہ ’’یکم
اپریل ‘‘کوتمام مسلمان غرناطہ میں اکٹھے ہوجائیں تاکہ جس ملک میں جاناچاہیں
جاسکیں۔اب ملک میں چونکہ امن وامان قائم ہوچکاتھااس لئے مسلمانوں
کوخودظاہرہونے میں کوئی خوف محسوس نہیں ہوا،مارچ کے پورے مہینے اعلانات
ہوتے رہے ،’’الحمراء ‘‘کے نزدیک بڑے بڑے میدانوں میں خیمے نصب کردیے گئے
،جہازآکربندرگاہ پرلنگراندازہوتے رہے،مسلمانوں کوہرطریقے سے یقین
دلایاگیاکہ انہیں کچھ نہیں کہاجائے گااورنہ ہی کوئی تکلیف پہنچائی جائے
گی۔جب مسلمانوں کومکمل یقین ہوگیاکہ اب ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہوگاتووہ سب
’’غرناطہ ‘‘میں اکٹھے ہوناشروع ہوگئے ۔اس طرح حکومت نے تمام مسلمانوں کوایک
جگہ اکٹھاکرلیااوران کی بڑی خاطرمدارت کی ۔یہ'' یکم اپریل ''کادن تھاجب
تمام مسلمانوں کوبَحری جہازمیں بٹھایاگیاتواس وقت مسلمانوں کواپناملک
چھوڑنے میں کافی تکلیف ہورہی تھی مگراطمینان تھاکہ چلو!کم سے کم جان توبچ
جائے گی۔دوسری طرف حکمراں اپنے محلّات میں جشن منانے لگے ،جرنیلوں نے
مسلمانوں کوالوداع کیااورجہازوہاں سے چل پڑا،اُن مسلمانوں میں بوڑھے
،جوان،خواتین ،بچے اورکئی ایک مریض بھی تھے۔جب جہازگہرے سمندرمیں
پہنچاتومنصوبہ بندی کے تحت اُنہیں گہرے پانی میں ڈُبودیاگیااوریوں وہ تمام
مسلمان سمندرمیں ڈوب گئے ۔اس کے بعداسپین میں خوب جشن منایاگیاکہ ہم نے کس
طرح اپنے دشمنوں کوبے وقوف (Fool)بنایا۔
اپریل فول کے حرام ہونے کے دلائل: ’’اپریل فول‘‘اسلامی شریعت توکیا؟اسلامی
تہذیب وثقافت کے بھی منافی ہے ۔اس مہلک وجان لیوارسم’’اپریل فول‘‘کے بارے
میں قرآن وسنت میں کئی ایسے واضح اشارات موجودہیں جواس کی قباحت وشناعت کے
ساتھ ساتھ اس کی حرمت کابھی پتہ دیتے ہیں۔اپریل فول کی بنیادہی ان چارچیزوں
پرمنحصرہے،جسے ہم آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
(۱)جھوٹ : اپریل فول کو’’جھوٹ کاعالمی دن ‘‘کہاجاتاہے۔اس رسم کی ادائے گی
تب تک ممکن ہی نہیں جب تک جی بھرکرجھوٹ نہ بولاجائے ،کسی کوکہاجائے کہ آپ
کاجوان بیٹافلاں جگہ ایکسیڈنٹ ہونے ک وجہ سے شدیدطورپرزخمی ہے اوراُسے فلاں
اسپتال میں پہنچادیاگیاہے۔٭آپ کافلاں رشتہ دارانتقال کرگیاہے ۔٭آپ کی دکان
میں آگ لگ گئی ہے ۔٭آپ کی گاڑی چوری ہوگئی ہے،فلاں کویہ ہوگیاہے اورفلاں
کووہ وغیرہ۔اوریہ سب دوسروں کامذاق اُڑانے کے لئے جھوٹ بولاجاتاہے ،جبکہ
جھوٹ کی مذہب اسلام میں قطعاً اجازت نہیں ہے،چنانچہ قرآن کریم میں اﷲ تبارک
وتعالیٰ منافقین کے بارے میں ارشادفرماتاہے :’’اوران کے لئے دردناک عذاب ہے
بدلاان کے جھوٹ کا‘‘۔(ترجمہ کنزالایمان،البقرۃ،آیت10)
اورآگے چل کرایک جگہ ارشادفرماتاہے :’’بے شک اﷲ راہ نہیں دیتااسے
جوجھوٹابڑاناشکراہو‘‘۔(ترجمہ:کنزالایمان،الزمر،آیت3)
اورجھوٹ بولناقرآن کریم کے روسے باعث ِ لعنت فعل ہے ،جیساکہ واقعۂ مباہلہ
میں اﷲ تبارک وتعالیٰ نے حضورنبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے
ارشادفرمایا:’’پھرائے محبوب جوتم سے عیسیٰ کے بارے میں حجت کریں بعداس کے
کہ تمہیں علم آچکاتوان سے فرمادوآؤ ہم بلائیں اپنے بیٹے اورتمہارے بیٹے
اوراپنی عورتیں اورتمہاری عورتیں اوراپنی جانیں اورتمہاری جانیں پھرمباہلہ
کریں توجھوٹوں پراﷲ کی لعنت ڈالیں ‘‘۔(ترجمہ: کنزالایمان،آل عمران،آیت61)
مذکورہ آیات طیبات سے واضح ہوگیاکہ جھوٹ ایک قبیح فعل ہے جس کی شریعت
اسلامیہ میں قطعاًاجازت نہیں ہے۔توپھر’’اپریل فول‘‘منانے والے مسلمانوں کے
لئے کیوں کرجھوٹ بولناجائزہوگا۔اس لئے جو مسلمان بھائی اس طوفان بدتمیزی
والے رسم کی ادائے گی میں مبتلاہیں وہ ہوش میں آئیں اوراس فعل قبیح کوانجام
دینے سے خودبھی بازرہیں اوراپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کوبھی بازرہنے کی
تلقین کریں۔
حضورنبی اکرم ،نورمجسم ،سیدعالم ،شافع اُمم ﷺ کی احادیث طیبہ میں بھی جھوٹ
کی بڑی مذمت آئی ہے ،چنانچہ صحیح بخاری ومسلم شریف میں ہے کہ:’’ جھوٹ بندے
کوفسق وفجورونافرمانی کی طرف لے جاتاہے اورفجورونافرمانی اُسے جہنم تک
پہنچادیتی ہے،بندہ جھوٹ بولے چلاجاتاہے حتیٰ کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے یہاں
جھوٹالکھ دیاجاتاہے ‘‘۔حضرت ابن عمررضی اﷲ عنہ نے کہاکہ حضورپاک ﷺ نے
فرمایاکہ جب بندہ جھوٹ بولتاہے تواُس کی بدبوسے فرشتہ ایک میل دُورہٹ
جاتاہے۔(ترمذی شریف)
اوربخارومسلم شریف میں ہی آقائے دوجہاں صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے منافق
کی جوچارعلامتیں بتائی ہیں اُن میں سے (۱)خیانت،(۲)بدعہدی،(۳)گالی گلوج
اور(۴)جھوٹ بولناہے،چنانچہ ارشادنبوی ﷺ ہے:’’آیۃ المنافق اربعۃ:منافق کی
چارنشانیاں ہیں...:اوران میں سے ایک یہ ہے:......واذاحَدَّثَ
کَذَبَ.....اورجب بات کرے توجھوٹ بولے‘‘۔اورمنافق کی سزااتنی سخت ہے کہ اﷲ
تعالیٰ ارشادفرماتاہے:بیشک منافق دوزخ کے سب سے نیچے طبقے میں ہے
اورتوہرگزاُن کامددگارنہ پائے گا۔(ترجمہ:کنزالایمان،النساء،آیت145)
اورصحیح بخاری شریف میں واقعۂ معراج ِمصطفی ﷺ سے متعلقہ ایک طویل حدیث میں
ہے کہ حضورنبی اکرم،نورمجسم ،سیدعالم ﷺ نے دیکھااُن لوگوں کوکہ جن کوعذاب
دیاجارہاتھا،ان میں سے ایک آدمی کے جبڑوں اورباچھوں کوگدی تک
چیراجارہاتھا،اس کی ناک کے نتھنے بھی گدی تک چیرے جارہے تھے،اوراس کی
آنکھیں بھی گدی تک چیری جارہی تھیں۔آقائے دوجہاں ﷺ نے جبرئیل امینؑ سے
پوچھاتوجبرئیل امین ؑعرض کرتے ہیں:’’کہ یہ آدمی جب بھی صبح کواپنے گھرسے
نکلتاتھاتوجھوٹ بولتاتھااوراس کی جھوٹ بات دنیاکے کناروں تک پھیل جاتی
تھی‘‘۔(اسی جھوٹ بولنے کی وجہ سے آج یہ عذابِ الٰہی میں مبتلاہے)مذکورہ
احادیث طیبہ سے بھی ثابت ہواکہ جھوٹ ایک بہت ہی قبیح فعل ہے ۔اورجھوٹاانسان
دنیاوآخرت دونوں میں ذلیل ورسواہوکرعذاب الٰہی کامستحق ہوگا۔
مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولیں:مسنداحمدکی روایت میں ہے کہ آقائے دوجہاں ﷺ نے
ارشادفرمایا: ’’بندہ کامل ایمان والانہیں ہوسکتاحتیٰ کہ مذاق میں جھوٹ
بولنااورجھگڑناچھوڑدے اگرچہ سچاہو‘‘۔’’اپریل فول ‘‘میں دوسروں کی پریشانی
پرخوشی کااظہاربھی ہوتاہے،ایسے لوگوں کوڈرناچاہئے کہ وہ بھی اس کیفیت
کاشکارہوسکتے ہیں،عربی کاایک مقولہ مشہورہے:مَنْ ضَحِک ضُحِکَ یعنی جوکسی
پرہنسے گااُس پربھی ہنساجائے گا۔
(۲)دھوکہ دہی: اپریل فول کی رسم اداکرنے کے لئے دھوکہ دہی کی جاتی ہے جوکہ
اس کی ادائے گی کایہ ایک لازمی عنصرہے ،جبکہ دھوکہ دہی کواسلام نے حرام
قراردیاہے،حتیٰ کہ صحیح مسلم شریف میں حضورنبی اکرم ﷺ کاارشادپاک ہے:’’جس
نے ہمیں دھوکہ دیاوہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔
اورایک حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے ارشادفرمایا:’’کہ پانچ آدمی اہل جہنم سے
ہیں،اوراُنہیں میں سے ایک وہ شخص ہے جوشب ورُوزآپ کے اہل وَمال میں دھوکہ
کررہاہو‘‘۔بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے ارشادفرمایا:’’جومسلمان
کودھوکہ دے اس پراﷲ تعالیٰ کی لعنت ہے،فرشتوں اورتمام لوگوں کی لعنت ہے،نہ
اس کی نفل عبادت قبول ہوگی اورنہ فرض‘‘۔
دھوکہ دہی کے نقصانات: ٭دھوکہ دِہ اورپُرفریب شخص لوگوں پرظلم وستم
کرتاہے،دھوکہ دے کرلوگوں کامال بٹورتاہے اوراُسے پریشان کرتاہے۔٭دھوکہ دِہ،
چالباز،حقوق اﷲ اورحقوق العباددُونوں کی خلاف ورزی کامرتکب ہے۔٭ایک کامل
مسلمان کی شان سے بہت بعیدہے کہ وہ لوگوں کودھوکہ دے ،دھوکہ
دینااورچالبازیاں کرناعدم ایمان کی علامت ہے۔٭دھوکہ دیناپاک وشفاف معاشرے
کوخراب اورتباہ کرنے کے مترادف ہے۔٭دھوکہ دہی منافق،فاسق اورمجرم شخص کاہی
کام ہوسکتاہے۔(نضرۃ النعیم)
(۳)دوسروں کوپریشان کرکے خوداُن کاتماشہ دیکھنا: اس رسم کی ادائے گی کاسب
سے اہم عنصریہ ہے کہ دوسروں کو’’اُلّوبنانے‘‘کے نام سے عارضی طورپرہی سہی
مگرذہنی طورپرپریشان کیاجائے اوراس کوپریشانی کے عالم میں دیکھ کرخوداس
کاتماشہ دیکھاجائے اورظاہری وباطنی طورپراپنے اُن اَحباب کے درمیان جواس
رسم ِبدکاحامی وناصرہو اظہارمسرت کیا جائے۔اسلام نے اس طوفان بدتمیزی والے
رسم ’’اپریل فول‘‘اوردیگرہرقسم کی ایذارسانی سے سختی کے ساتھ منع
کیاہے۔اوراس رسم کی قباحت وشناعت اُس وقت اوربھی بڑھ جاتی ہے جب اُس
کاارتکاب کسی کمزوردل مسلمان بہن یابھائی سے کیاجائے۔کیوں کہ پریشانی کے
اچانک جھٹکاسے وہ بے ہوش ہوجائے گا،اوراَمراض قلب میں مبتلالوگوں کاایسے
میں ہارٹ فیل ہوجانااوروفات پاجانابھی کوئی بعیدازقیاس بات نہیں ہے۔ایسے
مواقع پرپھروہ کہاوت صادق آتی ہے ،جس میں کہتے ہیں کہ’’چڑیوں کی موت
اورگنواروں کی ہنسی‘‘]چڑیادی موت تے گنواراں داہاسا[۔
(۴)کُفّارکی مشابہت: اپریل فول کی رسم کافروں کی ایجادکردہ ہے،چنانچہ جب اس
رسم بدکی جڑوں کی کھوج لگائی جائے تویہ سولہویں صدی عیسوی کے فرانسیسیوں کے
یہاں جانکلتی ہے،اُن دِنوں اُن کے کلینڈرکاپہلامہینہ
’’اپریل‘‘ہواکرتاتھااور1564 ء میں انہوں نے اپناکلینڈربدلااورجنوری
کوپہلامہینہ قراردیا۔اس وقت جن لوگوں نے اس تبدیلی کوقبول نہ کیاانہوں نے
یکم اپریل کولوگوں کومختلف طریقوں سے اُلّوبنایا۔سب سے پہلے جو’’اپریل
فول‘‘منایاگیاوہ 1698ء کااپریل تھا۔اور1846ء کی 31؍مارچ کوایک انگلش
اخبارنے لکھاکہ کل]یکم اپریل[ایک جگہ گدھوں کاایک بہت بڑامیلہ لگ رہاہے۔جب
بیشمارلوگ وہاں پہنچ گئے تووہاں کچھ بھی نہیں تھا،اس طرح سب لوگوں
کواُلّوبناکراپریل فول منایاگیا۔اپریل فول کی اس بنیادی تاریخ سے معلوم
ہواکہ یہ کافروں کی جاری کردہ رسم ہے،اوراُسے اپنانے والاکافروں کی مشابہت
کاارتکاب کرتاہے جس سے حضورنبی اکرم،نورمجسم،سیدعالم،شافع اُمم ﷺنے سختی سے
منع فرمایاہے،جیساکہ ایک مشہوراِرشادنبوی ﷺ ہے:’’من تشبہ بقوم فہومنہم-جس
نے کسی قوم سے مشابہت اختیارکی وہ اُنہیں میں سے ہے‘‘۔’’اپریل فول ‘‘کی یہ
رسم جھوٹ،دھوکہ دہی،دوسروں کواذیت دینااورکُفّارکی مشابہت انہیں چاروں امور
پرمشتمل ہیں،اسی لئے اس رسم بدکوشرعاًحرام وناجائزقراردیاگیاہے۔
مذاق میں بھی ڈرانے سے روکا: حضرت سیدناابن ابی لیلیٰ رضی اﷲ عنہ سے روایت
ہے کہ:صحابۂ کرام ؓ کابیاب ہے کہ وہ حضرات آقائے دوجہاں ﷺ کے ساتھ سفرمیں
تھے،اس دَوران اُن میں سے ایک صحابی رسولؐ سوگئے توایک دوسرے صحابیؓ اُن کے
پاس رکھی اپنی ایک رسی لینے گئے ،جس سے وہ گھبراگئے،(یعنی اس سونے والے
صحابی رسول ؐ کے پاس رسی تھی یااُس جانے والے کے پاس تھی اُس نے یہ رسی
سانپ کی طرح اس پرڈالی وہ سونے والے صحابیؓ اُسے سانپ سمجھ کرڈرگئے اورلوگ
ہنس پڑے)توسرکارعالی وقار،مدینے کے تاجدارصلی اﷲ علیہ وسلم نے
ارشادفرمایا:کسی مسلمان کے لئے جائزنہیں کہ دوسرے مسلمان کوڈرائے۔(ابوداؤد
شریف)
حکیم الاُمت حضرت مفتی احمدیارخان نعیمی علیہ الرحمہ اس حدیث مبارکہ کے تحت
لکھتے ہیں کہ:جب رسول اﷲ ﷺ نے یہ سناتویہ فرمایا،اس فرمان عالی کامقصدیہ ہے
کہ ہنسی مذاق میں کسی کوڈراناجائزنہیں کہ کبھی اس سے ڈرنے والامرجاتاہے
یابیمارپڑجاتاہے،خوش طبعی وہ چاہئے جس سے سب کادل خوش ہوجائے کسی کوتکلیف
نہ پہنچے۔اس حدیث پاک سے معلوم ہواکہ ایسی دل لگی یاہنسی کسی سے نہیں کرنی
چاہئے جس سے اس کوتکلیف پہنچے مثلاًکسی کوبے وقوف بنانا،اس کوچَپِت
لگاناوغیرہ حرام ہے۔(مرأ ۃ المناجیح،ج5،ص270)
غلط خبرنے جان لے لی: رینالہ خورد(پنجاب پاکستان )کے 70؍سالہ رہائشی شخص
کوخبرملی کہ اس کے بھائی کااوکاڑہ میں اکسیڈنٹ ہوگیاہے جس کے نتیجے میں اس
کی موت واقع ہوگئی ہے ،وہ اوکاڑہ اسپتال آرہاتھاکہ روڈ پرگرپڑااَوردل
کادورہ پڑنے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھوبیٹھا،بعدمیں پتاچلاکہ کسی منچلے نے
’’اپریل فول‘‘کامذاق کیاتھا(اردوپوائنٹ،یکم اپریل 2008) افسوس ! اتنی
خرابیوں کامجموعہ ہونے کے باوجودہرسال’’ یکم اپریل‘‘ کوجھوٹ بول کر،اپنے
مسلمان بھائیوں کوپریشان کرکے اُن کی ہنسی اُڑانے کوتفریح کانام
دیاجاتاہے،اﷲ تبارک وتعالیٰ اپنے حبیب مکرم ﷺ کے صدقے میں ایسے لوگوں کوعقل
سلیم عطافرمائے اورایسے قبیح فعل سے اپنے دامن کوبچانے کی توفیق عطافرمائے
۔آمین بجاہ النبی الامینؐ۔
بھائیوں کادل دکھاناچھوڑدو
اورتمسخربھی اُڑاناچھوڑدو |