گل جان کا ہاتھ ابھی تک درد کررہا تھا،،،! اسے یہ پتا
نہیں چل پایا تھا،،،کہ
اس نازک سی لڑکی نے اس کا ہاتھ موڑا تھا،،یا اس نے اس کا ہاتھ توڑنے کی
کوشش کی تھی،،،!!
دیکھنے میں نازک سی دبلی پتلی لڑکی اسکاکچھ بگاڑ تو نہیں سکتی تھی
مگر گل جان کا دماغ اس لڑکی سے ہٹ کے نہیں جارہا تھا،،،!!
ڈاکٹر انعم نے گل جان کو غور سے دیکھا،،،اسکو سوچوں میں ڈوبی دیکھ کر
انعم مسکرا دی،،،! اس نے اک کونے میں ستون کی اوٹ میں خود کو کر لیا،،،
اب کالی گول سی مرچ سا دانہ ڈوپٹے کی سلائی میں سے نکال کراپنی انگلی
کے ناخنوں سےدبایا،،،!!
فوراَ آفندی کے کان کے پاس گدگدی سی ہوئی،،آفندی نے کچھ سننے کے
بعد اوور اینڈ آل کے الفاظ کہے،،،!!
آفندی کے میزبان کا کتا بڑی سی بوری کو کھینچتا ہوا سکندر خان کی حویلی
کے پاس لے آیا تھا،،،اب اس نے نرم سی زمین میں اپنے پنجوں کی مدد سے،،،
گڑھا کھودا،،اور بوری کو اس میں دبا کے اوپر سےمٹی ڈال دی،،،!!
اس کےبعد وہ اونچے سے مقام پر آکر بیٹھ گیا،اس کی نظروں کے سامنے پوری
حویلی اور اس کے اندر کا کچھ حصہ صاف نظر آرہا تھا،،،!
حویلی میں اک جیپ داخل ہوئی اور کورال خان اس میں سے نکل کر سیدھااندر
چلا گیا،،،
آفندی نے رانا کو بتا دیا کہ کبوتر حویلی میں پہنچ چکا ہے،،رانا
مسکرادیا،،مہمان
اطمینان سے بولا،،ٹائم آنے والا ہے کہ کبوتر کے پر کاٹ دئیے جائیں،،،رانا
غرا کر
بولا،،،پر،،یا،،گردن،،،،جو بھی آسان ہو،،،اس کا سر کندھے پر ہو یا زمین
پر،،اب وہ سر
ہمارے لیے بے کار ہے،،،
آفندی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا،،،‘‘رانا اِٹس ٹائم فار ایکشن،،،‘‘
رانا مسکرا کے بولا،،،یس سر بہت ٹائم لگا دیا مگر ہم تو پولیس والوں کی جان
بچاتے
بچاتے کہاں تک پہنچ گئے۔
پڑوسی ملک بھی ہمارا ہی کھاتا ہے پیتا ہے اور ہماری ہی تھالی میں سوراخ کے
درپے ہے،،،!!!
آفندی مسکرا کے بولا ،،،بے وقوف ہے پڑوسی،،،ہم لوگ ہمدرد ضرور ہیں مگر غافل
نہیں،،،،(جاری)
|