شکست خوردہ ذہنیت کا احوال

ہمارے معاشرے میں تنگ ذہنیت کا مادہ روزبروزفروغ پاتا جا رہا ہے۔ جسکا ثبوت کبھی ہم امریکہ سے نفرت اور کبھی انڈیا سے جنگی جنون ابھار کر لفظی جہاد کر کے دیتے ہیں۔حالانکہ تلخ حقیقت یے ہے کہ ہمارے بڑے آج تک انڈیا کی پرانی فلمز اور گانوں کے دیوانے ہیں اور ہماری ینگ جنریشن بھارت کی نیٔ فلمز اور ایکڑرز سے متاثر ہیں۔ لیکن جب ہمارے دانشور حضرات میڈیا پر بیٹھ کر جنگ کرنے کابحث و مباحثہ کرنے بیٹھتے ہیں تو لفظوں ہی لفظوں میں جنگ جیتنے کا مزہ لیتے ہیں۔ حالانکہ پاکستان میں مسلمانوں سے کہیں زیادہ مسلمان کمیونیٹی انڈیا میں ہے لیکن یہ بات ہم نہیں سوچتے کہ وہاں موجود جو مسلمان ہیں ہم ان سے جنگ کر کے آپﷺ کے سامنے کیا منہ دکھایٔیں گے ؟ پھر روزِقیامت یہ ہی ہوگا کہ بہت بڑی تعداد میں امتی،امتی کے ہاتھوں قتل ہو کر آقاﷺ کے سامنے کھڑے ہونگے۔ یہ بات بالکل سچ ہے کہ مسلمانوں کو جہاد کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے لیکن شریعت میں جہاد کی بھی شرایٔط رکھی گیٔ ہیں۔ جیسا کہ آقاﷺ نے فرمایا تھا اور صحابہ اکرام کو نصیحت کی تھی کہ کفار سے جنگ کرتے وقت انکی عورتوں اور بچوں کو کچھ نہیں کہنا ، انکے علاقہ میں لگے ہوے سبز یا پھل دینے والے درخت کو بھی نقصان نہیں پہنچانا لیکن جب ہم جنگی مباحثہ کرنے بیٹھتے ہیں امریکہ سے لے کر پوری دنیا پر لفظی قبضہ جما لیتے ہیں ۔

جبکہ اپنے ہاتھ پلّے کچھ بھی نہیں۔ کہا جاتا ہے کسی کے احسان کو مت بھولو۔۔۔! اور مسلمان کی یہ صفت بھی نہیں کہ کسی کے احسان کوبھولے تو پھر کیوں ہمیں بلب کی روشنی کے نیچے مطالعہ کرتے ہوے ایڈیسن کی یاد نہیں آتی؟ ہم امریکہ کو برا بھلا تو کہتے ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ آج ہمارے ملک میں انہی کا متعارف کردہ نظام ہے یے جمہوریت کس کا نظام ہے؟ ہماری ٹیکنالوجی کی کتب جو یونیورسٹیز میں پڑھایٔ جاتی ہیں انکے سلیبس میں کن کی ریسرچ کے بارے میں بتایا جاتا ہے؟ کچے دودھ سے لے کر اسکو ابالنے تک کے پراسیس کے دوران جو تبدیلی آتی ہے وہ بھی ویسٹ کے رہنے والے لویٔس پاسچر نامی شخص نے ہمیں بتایٔ جو آج فوڈ ٹیکنالوجی کی کتب میں پڑھایٔ جاتی ہے۔۔ ہماری رسایٔ تو اپنی کتابوں تک بھی نہیں ہے ۔ ٹایٔلٹ سے لے کر جہازوں تک کا نظام ویسٹ کا دیا ہوا ہے جسے ہم استعمال کرتے ہیں ۔ بجاے اسکے کہ ہم بھی ریسرچ کر کہ دنیاے ِعلم میں اپنا نام منوایٔں ۔ لیکن ہم انہیں گالیاں دیتے رہتے ہیں ۔ دنیا کی ٹاپ پانچ سو یونیورسٹیز میں پاکستان کا ایک بھی نام نہیں ہے ۔ لیکن ہمسایہ ملک بھارت کی دس یونیورسٹیز ان میں شامل ہیں۔ کیا یہ ہما رے لیے لمحہ فکریہ نہی ہے؟لیکن ہمارے یہاں ملاحضرات فتوے دیتے ہیں غیر مسلموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا پینا ، کاروبار کرنا سب حرام ہے۔ تو جب جنگِ بدر کے دوران آقا ﷺ کی قیادت میں غیر مسلم پکڑے تھے اور انکے رہا ہونے کی شرط یہ رکھی تھی کہ ہمارے مسلمان بچوں کو پڑھاــوہم تمہیں آزاد کر دیں گے توسوال یہاں یے بنتا ہے کہ وہ غیر مسلم قران کے حافظ تھے؟ احادیث کے ماہر تھے؟ قران پاک کی تفسیر جانتے تھے ؟ جواب ہے نہی۔۔ چونکہ وہ غیر مسلم قیدی تھے اور دنیاوی علوم جانتے تھے اور وہی ان مسلمان بچوں کو سکھایا اور رہایٔ ملی ۔۔! اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ علم حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری نہی کہ ٹیچر مسلمان ہو۔ اور ویسے بھی اگر دیکھا جاے تو پاکستان میں ٹاپ کا ڈاکٹر تو وہی بنتا ہے جو لندن یا امریکہ سے ڈاکٹر بن کر آیا ہو ۔۔

لہذا ہمیں اپنی ذہنیت اتنی تنگ نہی کرنی چاہیے کہ دنیا کے اس خطے میں اکیلے ہی رہ جایٔں ویسے بھی دنیا کے جس ملک میں بھی چلے جایٔں پاکستانیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے ۔ اور دنیا میں ہمارے کھوے ہوے وقار کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں محنت کرنا ہوگی دنیا کو دیکھ کر غوروفکر کر کے اپنا مقام بنانا ہوگا ۔۔۔ اور دنیا کو بتانا ہوگا کہ اسلام بہت ہی خوبصورت مذہب کا نام ہے جو ہمیں سلامتی اور پر امن معاشرے کی تلقین کرتا ہے اور زندگی گزارنے کے تمام آداب دیتا ہے جس سے ہم ایک اچھی قوم ہونے کے ناطے سر فخر سے بلند کر سکیں۔۔۔!
یا نبیﷺ تیری امت کا کیا حال سناوں؟
مسلم کو تو نہی بیداری سے لگن،کس کو جگاوں؟
 

Osama Sadique
About the Author: Osama Sadique Read More Articles by Osama Sadique: 35 Articles with 25085 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.