ایک پرائیویٹ یونیورسٹی ہر ماہ کسی اتوار کے روز ایک ادبی
نشست کا اہتمام کرتی ہے۔ انتظامیہ میں میری ایک ساتھی استاد بھی شامل ہیں۔
انہوں نے بہت دفعہ دعوت دی مگر کچھ مصروفیت اورکچھ سستی، چاہنے کے باوجود
کبھی جا نہ سکا۔ سوئے اتفاق اس دفعہ ایک دوست جاتے ہوئے ساتھ لے گئے۔
خوبصورت محفل تھی، بہت کچھ سننے اور سیکھنے کو تھا، افسوس ہوا کہ اتنی
شاندار محفل اور میں بڑا عرصہ اس کی برکات اور فیوض سے محروم رہا۔انتظامیہ
کی طرف سے پہلے ناشتے کا بندوبست تھا، شاید اس لئے کہ لوگ جی بھر کے کھائیں
اور پھر دیر تک اونگھتے ہوئے مزے سے ادبی محفل کے مزے لوٹیں۔ لاہور کی خاص
چیز لسی کی کمی محسوس ہوئی مگر انہوں نے لسی نہ رکھ کر اچھا کیا تھا، ورنہ
تو شاید لوگ اس مزے سے نیند کے طالب ہوتے کہ یونیورسٹی کو اس طعام کے ساتھ
قیام کا بندوبست بھی کرنا پڑتا۔
ناشتے کا اہتمام بڑا زبردست تھا۔ لوگ اس انہماک سے ناشتہ کرنے میں مصروف
تھے کہ پہلے مجھے یوں لگا کہ ان لوگوں کی دلچسپی شاید ناشتے تک ہی ہے۔ مگر
حیران ہوں کہ ناشتے سے اس قدر انصاف کرنے کے باوجود لوگوں نے بہت چاک و
چابند ہو کر ادبی نشست میں حصہ لیا۔نا شتے کے وقت میں غور کر رہا تھا کہ ہم
میں آج بھی ہر دور کے انسان موجود ہیں۔معاشی طور پر ہم انسانی عہد کو چار
حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا شکار کا عہدجسے عام طور پر پتھر کا زمانہ
بھی کہتے ہیں۔ اس زمانے میں لوگ تہہ در تہہ کھاتے تھے۔صبح سے شام تک وادیوں
اور جنگلوں میں پھرنا، جہاں کہیں شکار میسر ہونا اسے شکار کرنا اور خوب
کھانا اس لئے کہ آئندہ کب شکار ملے گا یہ کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا۔ شکار ملنا
اور اس کا شکار ہو جانا بڑے غیر یقینی عمل تھے۔بعض دفعہ کئی کئی دن بغیر
شکار کئے بسر ہوتے، اس لئے جب کچھ ہاتھ آتا تو اسے اس طرح کھاتے کہ اگلی
پچھلی کسر پوری ہو جاتی۔ میرے قریب ہی ایک صاحب بیٹھے تھے جو سب سے پہلے
بہت تیزی سے بھاگ کر آئے تھے اور پوری کوشش کی تھی کہ جو کچھ پڑا ہے سب
سمیت لیں، ان کی پلیٹ میں پندرہ کے لگ بھگ پوریاں تھیں۔ آملیٹ اور فرائی
انڈے ملا کر بیس سے زیادہ ہوں گے اور پتہ نہیں کیا کیا تھا۔ یہ صاحب یقیناً
شکار کی دور کی باقیات میں سے تھے۔
شکار کے بعد زراعت کا دور آتا ہے۔اب لوگ پھل اور سبزیاں اگانا سیکھ گئے
تھے۔اس دور کے لوگ وقت کی قید سے آزاد تھے مگر جب بھوک لگتی ، کھا لیتے تھے
مگر قدرے کم ۔ انہیں پتہ تھا کہ جب ضرورت ہو گی پھل اور سبزیاں رسائی میں
ہیں، اسی وقت کھا لیں گے۔اس محفل میں وہ لوگ جو آرام سے ٹہلتے آئے ۔جو کچھ
پلیٹ میں ڈالا وہ شکار والی نسل سے کچھ کم تھا مگر معقول تھااور قسطوں میں
تھا۔ انہیں نظر آ رہا تھا کہ ہر چیز وافر ہے ،اس لئے انہیں جلدی نہ تھی۔
کھایا انہوں نے بھی خوب مگر پتھر یا شکار والی نسل کو مات نہ دے سکے۔پھر
تیسری طرح کے لوگ تھے۔ ان لوگوں نے فقط ایک دفعہ کھانا ڈالا اور کھا لیا یہ
ہمارے انڈسٹریل دور کے لوگ تھے۔ جو دن کے مخصوص اوقات میں ایک خاص مقدار
میں کھاتے اور کھانے کے لئے بھاگ ڈور نہیں کرتے۔ پھر میرے جیسی ایک نسل بھی
تھی جسے I.T دور کی نسل کہتے ہیں۔ ان میں بوڑھے ہیں، دل کے روگی ہیں، شوگر
کے مریض ہیں اور میرے جیسے جنہیں اﷲ نے یہ تین ہی نہیں اور بھی کئی روگ
دئیے ہیں۔ وہ کھانے کا تکلف کر رہے تھے۔ بہر حال کھانا بہت اچھا اور بہت
وافر تھا اور گرم گرم چیزوں کی سپلائی لگاتار تھی ۔ کسی کو کمی محسوس نہیں
ہوئی۔اس حوالے سے انتظامیہ پوری طرح مبارکباد کی مستحق ہے۔
ادبی محفل بہت معلوماتی تھی۔ مہمان خصوصی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے ایک
پروفیسر تھے۔ پروفیسر صاحب ایک فلسفی، ادیب ، ڈرامہ نویس اور معروف
اداکاررہے ہیں۔ انہوں نے ادب کے حوالے بڑی خوبصورت باتیں کیں انہیں اپنے
مضمون پر پورا عبور تھا اور سامعین کے لئے بہت معلوماتی اور فکری باتیں
تھیں۔ اسی محفل میں ان کے ہمراہ ایک اداکارہ بھی تھیں جو دوسری مہمان خصوصی
تھیں۔ ادب اور بے ادبی کا یہ گٹھ جوڑ بڑا عجیب تھا۔ مگر ان اداکارہ نے ایک
بہت خوبصورت بات کہی کہ ان کے مرحوم شوہر جو شاعر تھے، انہیں سامنے بٹھا کر
شعر کہا کرتے تھے۔ میں بہت دیر اس خوبصورت منظر نامے کو سوچتا رہا اور یہ
بھی کہ کاش میں شاعر ہوتا۔ادب اور ہمارے ادیبوں کے بارے میں پروفیسر صاحب
نے بڑی تفصیل سے انتہائی شاندار گفتگو کی۔ ان کی گفتگو کے بعد سوال جواب کا
سلسلہ چلا۔بہت سے سوالوں کے درمیان میں نے بھی اک سوال داغ دیا۔ وہ سوال جو
میں پہلے بھی بہت سے لکھاریوں سے کر چکا ہوں۔
کچھ عرصہ پہلے مجھے ایک نامور ، مستند اور جید عالم نے اپنی ایک کتاب ’’عمر
بن عبدالعزیز‘‘ دی تھی کہ پڑھیں ، بہت خوبصورت کتاب ہے۔ ایک سو پچیس یا تیس
صفحے کی کتاب تھی۔ کتاب شروع سے آخر تک اک نوحہ تھا، کوئی صفحہ ایسا نہیں
تھا جس صفحے پر ان کے رونے کا کوئی واقعہ نہ تھا۔میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک
بہترین انسان اور بہترین قائد تھے۔ ان کی گورننس مثالی تھی اسی لئے انہیں
عمر ثانی کہا جاتا ہے۔مگر اس کتاب کے بقول انہیں اپنے دور اقتدار میں رونے
سے فرصت ہی نہیں ملی۔ یہ بڑا عجیب انداز تحریر ہے کہ کام کی بات کوئی نہیں
بس جذباتی سی تحریر، اپنے جاننے والوں کو کتاب بانٹ کر خوش ہوجاؤ۔ہر خالق
کو اپنی تخلیق سے پیار ہوتا ہے۔ اسے یہ کہنا کہ تحریر اچھی نہیں اس کی دل
آزاری کا باعث ہوتا ہے۔میرے پاس ایسی کئی کتابیں ہیں۔میں سوچتا ہوں کہ اگر
آپ کو نفس مضمون پر پورا عبور نہیں تو اس مضمون پر لکھنے کا کوئی فائدہ
نہیں ہوتا۔
میں نے مہمان خصوصی سے سوال کیا کہ میں تاریخ اور کلچر کے حوالے سے کتابیں
شوق سے پڑھتا ہوں۔ مگر محسوس کرتا ہوں کہ غیر ملکی تاریخ نویسوں کی نسبت
ہمارے لکھنے والوں کی تحریریں اتنی اچھی اور جاندار نہیں ہوتیں، اس کی کیا
وجہ ہے۔اس سے پہلے کہ مہمان خصوصی کچھ کہتے، سامعین کے ہجوم سے کسی نے نعرہ
لگایا، کونسی کتابیں آپ نے پڑھی ہیں، پہلے مجھے بتائیں۔ میں پریشان کہ سوال
میں نے کسی سے کیا ہے او ر جوابی آواز کسی اور طرف سے آئی ہے۔ بھئی آپ کون،
میں خوامخواہ۔ میں نے اس طرف نظر ڈالی۔ دل چاہا کہ کچھ دیر جوابی وار کرنے
والے صاحب سے الجھ کر ان کی علمیت کا اندازہ کروں ۔ مگر مجھ سے ملتی جلتی
عمر کے ایک بزرگ تھے۔ میرے آبا نے بزرگوں کا احترام کرنا سکھایا ہی نہیں
سختی سے عمل کرنے کا بھی کہا ہے۔ایک خیال ذہن میں آیا کہ بزرگی بہ عقل است
۔ انہوں نے اگرمجلسی اور صحافتی اخلاقی اصولوں کی پرواہ نہیں کی تو بات
کرنے میں کوئی حرج نہیں۔قائد اعظم یونیورسٹی کی سٹوڈنٹ یونین کی صدارت سے
لے کر پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچرز ایسوسی ایشن کی صدارت تک ہمیشہ یونین
لیڈری کا ساانداز اپنائے رکھا ، ہر طرح چھیڑ چھاڑ وطیرہ رہا مگراب سفید
بالوں نے اسے روک رکھا ہے۔ ان کی تکرار کے باوجود چپ رہا۔
محفل ختم ہوئی تو میرا اشتیاق مجھے ان کے پاس لے گیا۔ میرا خیال تھا کہ
تاریخ کے کوئی بڑے لکھاڑی ہیں میری بات سے جن کی دل آزاری ہوئی ہو گی جو
میرے سوال پر اس قدر تلملائے۔ میں نے عرض کی کہ میں کتابوں کی لسٹ لے کر آپ
کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہوں کچھ تعارف کرا دیں کہ میں آپ تک پہنچ
جاؤں۔ مگر وہ مسکرا کر ایک طرف چل دئیے۔ ان کے ایک ساتھی کا چہرہ کچھ شناسا
لگا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ سے کہیں ملاقات ہوئی ہے ۔ کہنے لگے مجھے بھی
لگ رہا ہے۔ میں فلاں اخبار کا کالم نویس ہوں اور ان صاحب کی طرف اشارہ کرکے
کہنے لگے کہ بہت بڑے صحافی فلاں صاحب ہیں۔ میرے دوست جو میرے ساتھ تھے ۔
میرے بارے کہنے لگے یہ بھی پاکستان اخبار میں لکھتے ہیں۔ بہت بڑے صحافی
صاحب مڑے، اور بولے شامی کے اخبار میں لکھتے ہو، میرا کولیگ ہے۔ میں نے
جواب دیا کہ جناب ریاضی میرا مضمون ہے۔بنیادی طور پر ریٹائرڈ پروفیسر ہوں
اور اب بھی فلاں یونیورسٹی میں تدریس کر رہا ہوں۔ شامی صاحب سے برادرانہ
تعلقات ہیں، سو ان کی مہربانی کہ ان کی وجہ سے اک بھرم قائم ہے۔مسکرائے اور
خوشگوار موڈ میں یہ بتا کر چلے گئے کہ میں بھی اسی یونیورسٹی سے پڑھا ہوں
جہاں تم پڑھاتے ہو۔ میں اپنی بدقسمتی اور لاعلمی پر آج تک ماتم کناں ہوں کہ
اتنے بڑے آدمی سے میں اس دن تک ناواقف تھا۔ لیکن ان سے چند باتیں کرنے کے
بعد مجھے ان کی بڑھائی کا اندازہ ہو گیا تھا۔ کیونکہ اس ملک کا ہر بڑا آدمی
چاہے اس کا تعلق کسی شعبے سے ہو اپنے شعبے کا نواز شریف ہوتا ہے ۔ اس کا
طرز عمل اور طرز سخن اس کی بڑائی کا خود بخود تعارف کرا دیتا ہے۔ |