جنسی تشدد اور ہمارا معاشرہ

جڑانوالہ میں سات سالہ بچی کے ساتھ زیادتی اور قتل کی واردات آج کی ایک عام خبر تھی۔ عام اس لیے کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس دن اخبارات اور ٹی وی چینلز پہ جنسی تشدد یا قتل کی خبر نہ پائی جاتی ہو۔ کہیں کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو ہر جانب سے مذمت اور متاثرین کے لیے ہمدردی کے بول سامنے آتے ہیں۔ تفشیشی ادارے مجرم کی تلاش میں لگ جاتے ہیں۔ سخت سے سخت قوانین بنانے اور ایسے مجرمین کو سرِ عام پھانسی دینے جیسے مطالبات سامنے آتے ہیں لیکن جرم پھر بھی بڑھتا جاتا ہے۔ کوئی عبرت نہیں پکڑتا کسی کا دل نہیں پسیجتا۔ اور نہ ہی معصوم آہوں سے آسماں کا سینہ شق ہوتا ہے۔

دراصل ہم بحیثیت قوم منافقت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہمارے معیارات کبھی کچھ ہوتے ہیں اور کبھی کچھ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہوا کا رخ کدھر کو ہے اور اسی جانب اڑنا شروع کر دیتے ہیں خواہ بے بال و پر ہی کیوں نہ ہوں۔ ملک میں کسی شخص کی مخالفت شروع ہو گی تو ہر کوئی اسی کام میں مشغول نظر آئے گا خواہ وہی اوصاف اپنی ذات میں موجود ہوں جن کی بنیاد پہ دوسرے کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہو۔ کسی کا کوئی فعل قابلِ مذمت ٹھہرے گا تو سب باجماعت اس کی مذمت شروع کر دیں گے اور ان میں ایسے لوگ بھی ملیں گے جو اسی فعل کے مہان کھلاڑی ہوں گے لیکن چونکہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے اس لیے ہمارا دوسرے کو مطعون کرنا ہمارا حق ہے۔ ایسا نہیں کہ کسی برے عمل یا جرم کے خلاف احتجاج نہیں ہونا چاہیے۔ ہونا چاہیے اور ضرور ہونا چاہیے لیکن یہ احتجاج تب ہی اثر رکھتا ہے جب احتجاجی کا دامن بھی ان آلائشوں سے پاک ہو جن کے خلاف وہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔

آج بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات جس تیزی سے بڑھ رہے ہیں انھی واقعات کو ذرا ملک کے مختلف شعبہ جات کے حالات کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کریں تو بہت سے تشنہ سوالات کے جواب واضح ہو جائیں گے۔ جنس اور اس سے جڑے موضوعات ہمارے معاشرے میں ناپسندیدہ تصور کیے جاتے ہیں لیکن صرف ان محفلوں کی حد تک جہاں کسی تعلق یا کسی نسبت نے باندھ رکھا ہوتا ہے۔ جہاں محفل میں کوئی نسبت یا تعلق نہ ہو وہاں ایسے موضوعات پہ کھلم کھلا گفتگو کی جاتی ہے اور محفل کی مناسبت سے کئی لوگ تو اپنے محسوسات کے اظہار میں کوئی بند باندھنا بھی روا نہیں رکھتے۔ کئی لوگ اپنے کارنامے بھی فخریہ بیان کرتے ہیں جن میں خواہ سچ رتی برابر بھی نہ ہو۔ لیکن ایسے تذکروں کے بعد اہلِ محفل عموماً مرعوب ہوتے ہی نظر آتے ہیں اور جس غریب کے بارے قصے سنائے جا رہے ہوتے ہیں اس کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوتا کہ ایک شخص چار چھ لوگوں کے درمیاں اس کے چال چلن پہ سند کا درجہ حاصل کر چکا ہے اور تماش بین آنکھیں بند کیے قصہ کی جزئیات پہ جھوم رہے ہیں اور شاید اپنی محرومی پہ حسرت سے دل ہی دل میں آہیں بھی بھر رہے ہیں لیکن کسی میں اتنی اخلاقی جرات نہیں پائی جاتی کہ راوی کو ایک بار ٹوک ہی سکے۔ کسی تیسرے چھوتے شخص سے متاثرہ فریق کو خبر ہو بھی جائے تو وہ شریکِ جرم نہ ہونے کے باوجود بھی منہ چھپانے میں ہی اپنی بقا جانتا ہے۔ اور بعض اوقات تو نہ جرم ہوتا ہے اور نہ ظلم ہوتا ہے لیکن کسی کی ہوا میں چھوڑی ہوئی بات بھی دوسرے فریق کے لیے وبالِ جاں ہو جاتی ہے۔

کچھ دن قبل ایک صاحب سے زینب کیس پہ بات ہوئی۔ عمران کا دیگر بچیوں کے قتل کا اعتراف موضوعِ بحث تھا۔ جناب نے مقتول بچیوں کے خاندانوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’عمران کو پھانسی ہو یا نہ ہو چھ سات خاندانوں کا تو منہ کالا ہو گیا……‘‘ مجھے اس جملہ سے شدید جھٹکا لگا کہ یہ صاحب کیسی گفتگو فرما رہے ہیں کہ ایک تو اُن خاندانوں پہ ظلم ہوا اور دوسرا انھی کا منہ بھی کالا ہوا…… یہ کیا بات ہوئی۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے یہ کیسی ظالمانہ بات کر دی تو ان نے توجیہ پیش کی کہ ہمارے معاشرے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ ظلم ہے اور سب تسلیم کرتے ہیں کہ ظلم ہے لیکن متاثرہ گھرانوں سے تعلق رکھنا کوئی گوارا نہیں کرے گا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور اس سے منہ نہیں موڑا جا سکتا۔

انھی دنوں ایسی ہی نوعیت کا ایک واقعہ ایک ٹی وی شو میں بھی ہو۔ ہوا یوں کہ ایک چینل پہ دو صحافی حضرات اور ایک خاتون اینکر حالات حاضرہ پہ شو کر رہے تھے ۔ صحافی صاحب نے رانا ثنا اﷲ کی ایک پرانی تصویر چلا دی جس میں وہ بنا قمیض موجود تھے اور ان کے سر اور سینے کے بال، مونچھیں اور آنکھوں کے بال موندھے ہوئے تھے۔ یہ تصویر اس وقت کی تھی جب رانا ثنا اﷲ کو مشرف دور میں اغواہ کیا گیا تھا اور ان پہ وحشیانہ تشدد ہوا تھا۔ صحافی صاحب نے بذریعہ ٹی وی شو اس تصویر کے ساتھ رانا ثنااﷲ کو پرانا وقت یاد دلانا شروع کر دیا اور انھیں یہ جتانے کی مکمل کوشش کی کہ آپ کے ساتھ اس وقت اغواہ کاروں نے جو کچھ کیا تھا وہ ہمیں اچھے سے یاد ہے۔ صحافی صاحب نے اشاروں کنایوں میں یہ بھی بتانے کی کوشش کی کہ رانا ثنا اﷲ کے ساتھ تب جنسی زیادتی کی گئی تھی اور انھیں آج تک ہمت نہیں ہوئی کہ اپنے اغواہ کاروں کے بارے بات کریں جبکہ ہم صحافیوں کے بارے کچھ بھی بول دیتے ہیں۔ اغواہ کاروں کے بارے صھافہ ساحب نے خود ہی پنڈی کا اشارہ بھی دے دیا۔ غالباً پنڈی سے مراد راولپنڈی کا ہی کوئی ادارہ ہے۔ میں یہ پروگروام دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ کیسے صحافی ہیں اور کہاں گیا ان کا تجربہ اور ان کی دانش کہ جو انھیں یہ تک احساس نہیں کروا پائے کہ وہ ایک جرم کی حمایت کر رہے ہیں اور ایک متاثرہ شخص کو اس ظلم پہ طعنہ دے رہے ہیں جس کا وہ شکار ہوا ہے۔ لیکن یہ ہمارے معاشرے کا اجتماعی رویہ ہے کہ دوسرے کو زچ کرنے کے لیے جنسی حربے اپنائے جاتے ہیں۔ ابھی چند دن قبل ہی کی بات ہے کہ ایک مسیح نوجوان نے ایک تحقیقی ادارے کی کھڑکی سے چھ منزل نیچے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی تھی کیونکہ تفشیشی افسر نے اسے دو موقع دیے تھے یا تو وہیں تفشیشی کمرے میں موجود اپنے چچازاد کے ساتھ جنسی عمل کرے یا کھڑکی سے باہر چھلانگ لگا دے۔ اس نے دوسرا راستہ چن لیا۔ کیا ہمارے تفشیشی ادارے یوں تفشیش کرتے ہیں؟؟؟ جی ہاں! ہمارے تفشیشی اداروں کے ہاں بھی جنسی تشدد ایک بھرپور ہتھیار ہے۔ تفشیشی جیلوں سے واپس آنے والے بتاتے ہیں کہ ان کی شرم گاہوں میں کرنٹ دیے جاتے رہے۔ ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی رہی۔ دراصل یہ حربہ جہاں جسمانی اذیت دیتا ہے وہیں انسان کو ایسی ذہنی اذیت سے دوچار کرتا ہے کہ جس سے چھٹکارہ صرف موت کے بعد ہی ممکن ہے۔ ویسے اگلے دنوں ایک صحافی صاحب نے پورنوگرافی سے متعلق انکشافات کیے تھے لیکن کوئی ثبوت عدالت میں پیش نہ کر سکے۔ انھیں اور ان کے ساتھیوں کو چاہیے کہ اداروں خواہ پولیس ہو یا کوئی دوسرے تفشیشی ادارے، ان کے سیلز تک رسائی کا وسیلہ ڈھونڈیں۔ انھیں بہت سا ایسا مواد مل جائے گا جسے پورنوگرافی کے درجہ میں شامل کیا جا سکے گا۔ اگر انھیں یہاں سے بھی سیری نہیں ہوتی تو مدارس کا چکر لگا لیں کہ وہاں تو آنا جانا رہتا ہی ہے۔ دو چار دن کسی مدرسہ میں قیام کریں چھوٹے بڑے بچوں کے انٹرویوز کریں۔ بہت کچھ واضع ہو جائے گا۔ چہروں کے تاثرات ہی بہت کچھ بیان کر دیتے ہی۔ کسی اسکول کے طلبا کا مشاہدہ کرنا شروع کر دیں۔ چھوٹے بڑے طلبا کا آپسی تعلق اور رویہ جانچیں۔ کچھ محنت کریں تو یہاں بھی بہت سے راز افشا ہوں گے۔ اور اگر یہاں سے سیری نہ ہو تو ملک کے پوش علاقوں کی خاص محافل میں ہو آئیں۔ کیا آئین کے محافظ، کیا قانون کے محافظ اور کیا دیواروں کے محافظ…… ہر جانب آپ کو بدن کی بو سونگھتے شکاری نظر آئیں گے۔ کس کی انیکسی میں کون رہائش پذیر ہے اور کس کی گاڑی کس کے لیے کس دروازے پہ کھڑی ہوتی ہے یہ سب باتیں ایک محقق صحافی کے لیے خاصے کی چیز ہوتی ہیں۔ یاد آیا کہ بھٹو کی موت کے بعد اس کی شرم گاہ کی تصاویر بھی اتاری گئی تھیں۔ سنتے ہیں فاطمہ جناح کو بھی شادی نہ کرنے کا طعنہ دیا گیا تھا اور سابق مشرقی پاکستان میں تو جنسی زیادتیوں کا ریکارڈ ویے بھی تاریخ میں محفوظ ہو چکا ہے۔ اسی معاشرے میں سیاست دان اپنے کنوارے رہنے کی توجہیہ میں بازاری امثال لاتا ہے۔ یہیں وزیر مشیر کسی ماتحت افسر کی بیوی کو طلاق دلوا کے اپنے حرم میں لے جاتا ہے اور یہیں ایک آہنی افسر ایک بڑے ہسپتال میں صبح صبح آتا ہے اور بولتا ہے ’’بیٹی سے غلطی ہو گئی ہے واش آوٹ کر دو‘‘۔ اس معاشرے میں سب ہو رہا ہے اور ہر طرف ہو رہا ہے۔ عمران نے بھی تو زینب کے قتل کے خلاف احتجاج کیا تھا!!!

Kashif Butt
About the Author: Kashif Butt Read More Articles by Kashif Butt: 25 Articles with 15738 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.