تعارف:
اسلامی مملکت اور تخت و تاج کا مرکز سعودی عرب اسلامی ثقافت، تہذیب و تمدن
کی بنیادی اور مذہبی ریاست ہے جہاں خدا کا گھر اور روضۂِ رسول ﷺ جیسے
انتہائی مقدس مقامات موجود ہیں جو بحیثیتِ مسلمان کسی تعارف کی قائل
نہیں۔سعودی عرب وہ ریاست ہے جس پر خداکے رسولﷺ خود قیام پزیر رہ کر رحلت
فرما چکے ہیں، اس دورسے آج تک انبیاء کی سرزمین پرشریعت کا بول بالا رہاہے،
نبیﷺ کی سنت کو اولین ترجیح دی گئی ہے۔ اسلامی قوائد و ضوابط کی ہرشعبہ
ہائے زندگی میں مستقل پابندی رہی ہے۔
موجودہ صورتحال:
کئی ہزار سالوں سے سعودیہ کو اسلام کی شہہ رگ تسلیم کیا جاتا رہا ہے، اور
تاقیامت اس مملکت کی اہمیت اور حیثیت میں کبھی کوئی فرق بھی نہیں آئیگا،،
لیکن اچانک یہ کیسا جدیدی انقلاب برپا ہوگیا ہے کہ آج خدا کے گھر کی زمین
اور اسکے مقینوں کا خون سفید ہوتا نظرآراہے آج یہ کیا پلٹا ارضِ عرب نے کھا
یا کہ وہ تمام سیاسی ، سماجی ، معاشی ، معاشرتی اصول و ضوابط اور عام زندگی
کے معملات میں اس درجہ جدیدیت ، ماڈرنائزیشن یا گلوبلائزیشن آگئی کہ اب وہ
تمام قاعدے قوانین کو ردوبدل کردیا گیا ہے کہ اسلامی اثرورثوخ کی اعلیً شان
کا دائرہ ختم ہوتا نظرآرہا ہے۔
شخصی آزادی اس قدر خواتین کے دماغوں میں ھر دی گئی کہ کل تک جہاں
عبایا،حجاب، اور پردے کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا
تھا آج وہی خواتین برہنہ سر گھومنے کے لیئے اس قدر جدوجہد کررہی ہیں کہ اب
پردہ انکے لیئے حقارت کا باعث بن چکاہے، اسکارف کوچھوڑ کر اسکرٹس اور منی
اسکرٹس کی جانب متوجہ ہورہی ہیں، ساحلوں پر بیچ پارٹی اور ٹوپیس کپڑوں کو
پہننے کیلیئے ترجیح دے رہی ہیں ، یا تلخ جملے میں کھلی ہوئی نظرآرہی ہیں،
نہ صرف کپڑے بلکہ آج سعودیہ میں خواتین کو مکمل طور پر مرد کے شانہ بشانہ
اور حد سے زیادہ چھوٹ فراہم کردی گئی ہے۔
نہ صرف خواتین کی شخصی آزادی بلکہ مغربی معاشرے کی سی آزادی کو ہوا مل رہی
ہے ، کل تک جہاں عرب میں فلموں کا نام تک نہ لیا جاتا تھا آج وہیں فلمی
ستارے فلمیں بنارہے ہیں، سینیما ہال کو لائسنس دے دئیے گئے ہیں۔
غیرملکی طرز کے لووننگ اسٹائل کی سرایئت نے اسلامی تہذیب کا گلا گھوٹ کر
رکھ دیا ہے۔ہر وہ فعل جو ماضی میں اسلامی مملکت میں گناہِ کبیرہ سمجھا جاتا
تھاّ ج اسکو سرِ عام اعزازی طور پر کیاجاہاہے۔ہر ریاست جہاں فآشی و بیحیائی
میں اپنا منفی کردار ادا کررہی تھی وہاں سعودیہ مسلمانوں کا فخر ہواکرتی
تھی کہ یہاں اس اقسام کی حرکتوں کا تصور بھی کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کیونکہ
یہاں شریعت کی پاسداری یقینی تھی۔ لیکن آج یہ فخر مغربی اثرورثوخ کی وجہ سے
مٹی تلے روند دیاگیا۔اس عریاں تبدیلی کے خلاف بات کرنا حاصلِ مقصد ہے
کیونکہ آج ان تمام حالات کی وجہ سے معاشرہ بگاڑ کی جانب جارہا ہے ایک مرتبہ
پھر دورِ جاہیلیت کے تمام اسباب پیدا ہورہے ہیں۔۔۔
معاشرے پر اثرات:
سرزمینِ عرب میں پیداہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے ملک میں خاصی حد تک بگاڑ
اور بیحیائی پھیل رہی ہے۔ معاشرے میں مرتب ہونیوالے منفی اثرات درج ذیل
ہیں۔
سیاسی اثرات:
سیاست وہ اہم جز ہے جسکی وجہ سے ملکی رہنماؤں نے غیرملکی رہنماؤں اور خصوصؔ
امریکہیوں سے معاہدے، مکالمے، گفتگو اور ملاقاتوں کے عوض غیراسلامی روایات
کو اپنے معاشرے کی ذینت بناکر ٹرمپ کی پالیسی کوقابلِ قبول کردیاہے۔ اندیشہ
ہے کہ چند ڈالر بیرل تیل اور معدنی وسائل کی دولت اور شان و شوکت کا جنازہ
معاشرے کی بے راہ روی اور عریانیت کے سبب کیاجارہاہے۔ پرامن اور ترقی پسند
معاشرہ کی بنیاد رکھنے کی وجہ سے ان تمام تبدیلیوں کو مثبت قرار دیا ہے
لیکن علمیہ یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں معاشرے میں منفی اثرات مرتب کررہی ہیں۔۔
معاشی اثرات:
معیشیت کسی بھی ملک کی ریڈھ کی ہڈی ہے، اور سعودیہ میں تیل کی برآمدات کی
وجہ سے یہاں کی معیشیت ویسے ہی بہت اہم تھی مگرآجکل کیونکہ یہاں غیرملکی
کپڑے اور دیگر تمام اشیاء کی درآمدات بڑھ گئی ہے اور نہ صرف کپڑے بلکہ
گاڑیاں، کاسمیٹک کے سامان کی وجہ سے بھی معیشیت کی حدود تیزی سے تجاوز
کررہی ہیں۔
نفسیاتی اثرات:
عورت کو چار دیواری میں قید رہنے کی مترادفات دے دے کر یہ قید ہر عورت کے
ذہن میں اس قدر women empowerment کی اصطلاح اس قدر ذہن میں سرائیت کرگئی
ہے جسکی وجہ سے معاشرے کی ساخت ہی بدل گئی ہے۔نفسیاتی بنیاد کی وجہ سے ان
تبدیلییوں کو سعودی قوم مثبت قرار دے رہی ہے۔
حرفِ آخر:
موجودہ صورتحال معاشرے کی تباہی و بربادی اور جدیدیت کی بنیاد پر ہے مگر
اگر یہی صورتحال رہی تو خدشہ یہی ہے کہ کفار ایک مرتبہ پھرمسلمانوں کی
حکومت چھین کر قابض ہوجائیں گے اور عرب کی وہ شان و شوکت جو نبی ﷺ نے بحال
کی تھی آج وہ زوال کی طرف جاتی نظر آرہی ہیں۔
|