تحریر : مہرین اظہار شیخ (اوکاڑہ )
نئے سال کاآغاز ہوا اور تین ماہ بیت بھی گئے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارت
اندر کیا مثبت تبدیلی آئی ہم دوسروں کی زندگی میں کیا مثبت تبدیلی لانے میں
کامیاب ہوئے یہ فکری سوچ وہ عمل اور راستہ ہے جو ہمارے لئے اپنی ذات اورا
فعال کو جانچنے اور پرکھنے کا پیمانہ بن سکتا ہے اس فکری سوچ اور نظریے کا
نام ہی خود احتسابی ہے جو خدا کو ماننے اور خدا کی ماننے والوں میں باریک
سی لکیر کھینچ دیتا ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس زاویئے سے
کتنے لوگ سوچتے ہیں تعلیمی اداروں پر بوجھ ڈال دیا جاتا ہے کہ وہ قوم
کوڈاکٹرز،انجینئرز،پروفیسرز،ماہر فلکیات ،قانون دان، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ،پائلٹس،بنکرز
اور انتظامی امور کے ماہرین دیں توجہ طلب بات یہ ہے کہ والدین اور ہمارا
معاشرہ تعلیمی اداروں کے سربراہان سے اس فکر کا اظہار نہیں کرتا کہ تعلیمی
ادارے اُن کے بچوں کو پیشہ وارانہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تربیت ،اچھی
سوچ، غور و فکر کی صلاحیت اور بھرپورقوت ارادی دیں ہم اپنے بچوں کیلئے
خوبصورت تابناک مستقبل کی منزل تلاش کرتے ہیں لیکن یہ فراموش کردیتے ہیں کہ
اگر ہم ابتدا میں اپنے بچوں میں پیدا ہونے والے معمولی سے اخلاقی بگاڑ کو
نظر انداز کر دیں گے تو وہ بڑی خرابی کا باعث بنے گا مت بھولیں کہ ترقی صرف
معاشی میدان میں نہیں ہوتی،اصل ترقی ذہنی اور فکری ہے جس کی پاکستان کو اشد
ضرورت ہے اور یہی وہ مشکل راستہ ہے جو خوبصورت پاکستان کی منزل کی جانب
جاتا ہے۔
|