سڑک پر جینا آسان نہیں

دنیا بھر میں سڑک پر رہنے والے بچوں کے مسائل یکساں ہیں،بھوک اور تحفظ کی تلاش ان میں قدرِ مشترک ہے، ان بچوں کامقدر،سڑکیں اور گلیاں ہیں۔

ہر وہ بچہ اسٹریٹ چائلڈ ہوتا ہے،جس کیلئے سڑک معمول کا ٹھکانہ اور زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کا زریعہ ہو۔‘‘ اس عالمی ادارے کے مطابق دنیا بھر میں تقریباََایک کروڑ اسٹریٹ چلڈرن ہیں۔ان میں سے دو کروڑ بچے دن بھر تمام وقت سڑکوں پر گزارتے ہیں۔کراچی لاہور ،پشاور اور کوئٹہ میں کیے جانے والے سروے کے مطابق پاکستان میں تین چوتھائی ایسے بچے خاندان سے دو گروہوں کی شکل میں رہتے ہیں اور ان کا کوئی مستقبل ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ان میں سے زیادہ تر باغات اور مزارات کے ارد گرد کے علاقوں میں سوتے ہیں۔ان میں سے 76 فیصد نے کبھی اسکول کا رخ نہیں کیا ہوتا۔ 55فیصد کی سانس کی نالی میں سوزش ہوتی ہے،جس کے نتیجے میں انہیں بخار رہتا ہے اورمعدے کی بیماریاں اور جلدی سوزش عام ہوتی ہے۔ان کی اکثریت گلیو Glueگا نشہ کرتے ہیں،باقی بچے اکثرچرس Charas کا نشہ کرتے ہیں۔

دنیا بھر میں ان بچوں کے مسائل ہت زیادہ ہیں ۔ بھوک اور تحفظ کی تلاش، میں ہوتے ہیں۔ منشیات کا استعمال اور جنسی بے راہ روی ان کی روح تک کو گھائل کر دیتی ہے۔ یے بچے کون ہوتے ہیں کہاں سے آتے ہیں، کراچی میں اور ملک کے دیگر حصوں میں ان کی کیا تعداد ہے؟ ان کی سرگرمیاں کیا ہوتی ہیں، ان کے مراکز کہاں واقع ہیں؟
ان کے سرپرست کون ہوتے ہیں؟ ان کے مسائل کیا ہیں؟

کیا ان کی فلاح وبہبود کے سرکاری یا غیر سرکاری ادارے موجود ہیں؟

یہ بچے بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں ۔ ہمیں ان کے بارے میں درج بالاسوالات کے جواب جاننے کی ضرورت ہے۔

کوئی بچہ محض ایک دوروز میں پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے سڑک پر نہیں آجاتا۔ اکثر حالات وواقعات کی بہت سی کڑیاں اور مختلف مسائل مل کر ان بچوں کو ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ ان میں سے اکثر کے خاندان کو زندگی کی بنیادی ضروریات دستیاب نہیں ہوتیں۔ اُن کے گھروں میں لڑائی جھگڑے اور تشدد معمول ہوتا ہے ۔ کچھ ٹوٹے ہوئے خاندان کے منفی اثرات کا شکار ہوتے ہیں ۔ کوئی والد یا والدہ کی شادی سے پیدا ہونے والے حالات کی چکی میں پِسا ہوا ہوتا ہے۔ کوئی کم عمری میں محنت مشقت کر کے کما کر لانے کے دباؤ سے جان چھرانے کے لیے ایسا کرتا ہے۔ کسی کے والد ین اور سرپرست نہیں ہوتے ، تو کوئی برُے دوستوں کی صحبت میں رہتے ہوئے اس راہ پر چل پڑتا ہے،تاہم ہمارے معاشرے میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں بہت کم ہی خودسڑکوں پر آتی ہیں۔

یہ بچے خواہ کسی بھی صورت حال کے تحت نادانی میں سڑکوں پر آجاتے ہیں ، سوال یہ ہے کہ معاشرہ ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتا ہے۔ ، یہ بچے جن مختلف معاشی سرگرمیوں کے زریعے اپنا پیٹ پالنے کی کوشش کرتے ہیں،ان کے فوائد پر ہم کبھی غورنہیں کرتے،حالہ نکہ یہ بچے کچرا چُن کر ماحول کو صاف رکھنے میں مددگار ہوتے ہیں۔جس سے بہت سی چیزیں تیار ہوتی ہیں ۔ یہ گاڑیاں دھونے ، جوتے صاف کرنے اور محنت مشقت کے دیگر کام بھی کرتے ہیں۔اس کے بدلے میں معاشرہ انہیں کیا دیتا ہے؟ نفرت اور حقارت سے دکھانا اور دھتکارنا ، انہیں دوسری دنیا کی مخلوق سمجھنا، انسان کے بجائے کیڑے مکوڑے سمجھنا، ان بچوں کے لیے دنیا تاریک ہوتی ہے ۔ زندگی،موت،خوشی اور غم کے مفاہیم ان کی نظر میں وہ نہیں ہوتے، جو ہمارے لیے ہوتے ہیں۔ان کی ایک الگ دنیا ہوتی ہے۔ ۔ انہیں قدم قدم پر استحصال کا نشانہ بنانا اور دھتکارا جاتاہے۔ انہیں روٹی ،کپڑے اور رہائش کا جھانسہ دے کر بھیک مانگنے اور جرائم کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ ان کے لیے سڑک تفریح کا واحد ذریعہ ہوتا ہے۔ والدین،بھائی بہنوں ، عزیزوقارب اور دوست احباب کی محبت، تعلیم،روشن مستقبل،بزرگوں کی توجہ اور راہ نمائی،تحفظ کا احساس اور خاندانی زندگی کی حسرتیں ان کے خوابوں سے بھی دور ہوتی ہیں۔

ان میں سے اکثر بچے طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔خارش،جوؤں کی بھرمار،پیٹ میں کیڑے پڑجاتا، مرگی،پھیپھڑوں، کان ناک حلق اور دانتوں کی سوزش،پرانے زخم،ہیپا ٹائٹس اور سب سے بڑھ کر جنسی طورر پر پھیلنے والی بیماریاں،موزی مرض بھی انہیں اپنا شکار بنا لیتا ہے۔یہ بچے عام طور پر سڑکوں، ریلوے اسٹیشنوں کے پلیٹ فارمز، پلوں کے نیچے ،قبرستانوں، کھلے میداونوں،باغات اور کچی آبادیوں وغیرہ میں رہتے ہیں۔ ان کے کپڑے میلے کچیلے، جسم بدبودار اور بال بکھرے ہوئے ہوتے ہیں ۔ان کے لیے محبت کی زبان بہت عجیب وغریب ہوتی ہے۔یہ اجنبیوں سے ملتے ہوئے خوف زدہ رہتے ہیں۔ان کے دل میں پولیس کا خوف ہر وقت رہتا ہے۔گرفتاری یا پکڑے جانے پراپنا درست نام نہیں بتاتے۔ اگر انہیں گھر لوٹ جانے کے لیے کہا جائے تو ان میں سے اکثر انکار کردیتے ہیں۔

ان بچوں کی آمدنی کا بڑاحصہ منشیات، شراب ، Glueسونگھ کرنشہ کرنے والے محلوں، چرس Charas ،ہیروئنHeroin اور جوئے پر خرچ ہوتا ہے۔ ان میں سے بہت ہوں کو فلم دیکھنے کابھی شوقین پایا گیا ۔ یہ اکثر سڑکوں پر لڑتے جھگڑتے بھی نظر آتے ہیں ۔کم عمری، آذادی اور ہاتھ میں پیسہ ہونے کی وجہ سے یہ بہت آسانی سے غلط عادت اور افراد کا شکار ہوجاتے ہیں۔ان کے بڑے ساتھی نہ صرف ان کی کمائی میں سے حصہ لیتے ہیں ، بلکہ ان کے ساتھ جنسی زیادتی بھی کرتے ہیں۔ان تمام زیادتیوں کے باوجود یہ بچے ایک دوسرے کے بہت وفادار ہوتے ہیں۔

نادانی کی عمر میں مکمل آزادی انہیں بہت سے مسائل کا شکار کردیتی ہے،جس کی وجہ سے ان میں سے بہت سے بچے منشیات کے دھندے سمیت بہت سے جرائم کا شکار اور جسمانی افعال کے عادی ہوجاتے ہیں ۔یہ اپنی خواحشات پوری کرنے کے لیے چوری چکاری ،ڈکیتی اور رہزن وغیرہ کی وارداتیں بھی کرتے ہیں۔یہ اپنے تحفظ کے لیے گروہوں کی شکل میں رہتے ہیں، لہٰذا کسی ایسے گروہ سے انہیں علیحدہ کرنا کافی مشکل کام ہوتا ہے،ان بچوں میں سے بہت سے بچے ،عام زندگی میں وہ مزہ نہیں پاتے جوانہیں سڑک کی زندگی میں ملتا ہے ۔ وہ اخلاقی اور قانونی پابندیوں سے گھبر جاتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح جلدیا بہ دیر واپس اپنے گروہ میں پہنچ کر زندگی کا پرانا رنگ ڈھنگ اختیار کرلیتے ہیں۔نشہ انہیں پرانی باتیں بھلانے کے قابل بنادیتا ہے۔

ان بچوں کی مکمل بحالی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ماہرین کی مدد سے ان کا علاج کرا کے جسمانی اور نفسیاتی طور سے نشہ کی عادت ختم کرائی جائے، لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں ہوتا، کیوں کہ عام طور سے یہ بچے علاج کے دوراں بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ۔دوسری طرف معاشرہ انہیں کسی طرح قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا اور نہ انہیں عام زندگی کی طرف لوٹنے کے لیے حوصلہ فراہم کرتا ہے،تاہم محبت، اخلاق اور صبرو تحمل کے ساتھ کام کرنے سے یہ بچے حوصلہ افزا نتائج دینے کے قابل ہوجاتے ہیں۔

مسلسل اصلاح اور تعلیم کے ذریعے ان بچوں کو معاشرے کا فرد بنایا جا سکتا ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ان بچوں کو مستقل طور پر ایسی جگہوں میں رکھا جائے، جہاں ان پرہر وقت نگاہ رکھی جا سکے اور ان کی کردار سازی اور تعلیم و تربیت ممکن ہو۔ اس کے ساتھ انہیں وقت کی ضرورت کے مطابق ہنر سکھانا بھی ضرور ی ہے،تا کہ بعد میں یہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔اس کام میں معاشرے کا تعاون حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان بچوں کے بارے میں لوگوں میں شعور بیدار کیا جائے اور عوام کو یہ بتایا جا ئے کہ بچے پورے معاشرے کی ذمے داری ہیں ۔لوگوں کو یہ بھی بتایا جائے کہ اگر انہیں نہ سدھارا گیا تو یہ معاشرے کے لیے کس قسم کے مسائل کھڑے کر سکتے ہیں۔

کینٹ اسٹیشن پر بچوں سے زندگی کی حقیقت معلوم کرنے وہاں پہنچا تو ماحول بہت گرم تھا کچھ گروہوں کی نظریں ان بچوں پر تھی لیکن ایک بچہ بسوں کی صفائی کرنے والے بارہ سالہ آصف کے ساتھ گفتگو ہوئی وہ غربت کی وجہ سے یہ کام کرنے پر مجبور ہوا ہے۔ان کی چہرے سے لگ رہا تھا کے آصف سچ بول رہا ہے انہوں نے کہا کے میں دن بھر میں دوسو روپے کما لیتا ہوں۔ دوستوں کے ساتھ کبھی فلم دیکھنے چلا جاتا ہے اور دن بھر میں ایک ڈبی سگریٹ کی پیتا ہوں ۔رات کے نودس بجے وہ گھر لوٹ جاتا ہوں۔

سول ہسپتال کے اندر کچرا چننے والا دس سالہ عبدلشکور کے مطابق وہ دوتین سال سے یہ کام کر رہا ہے اور روزانہ دوتین سو روپے کمالیتا ہے۔وہ روزانہ چھ سات بچوں کے ساتھ کچرا چننے نکلتا ہے ۔اس کے تین بھائی اور دو بہنیں ہیں ۔اس کا پورا خاندان اس کام سے منسلک ہے۔عبدلشکور سے جب نشے کے بادرے میں سوال کیا تو جواب کو توڑ مروڑ کر غائب ہو گیا۔

ٹاور کے قریب کھا رادر کے علاقے میں ایک عمارت کے باہر فرش پر لیٹے سگریٹ Smokingپیتے ہوئے دو بچوں سے گفتگو کا موقع ملا ۔ان میں پندرہ سالہ عطا محمداوربارہ سال کا اﷲ بخش ساتھ تھا ۔عطا محمد فیصل آبادسے اور اﷲ بخش منظور کالونی،کراچی میں اپنے گھر سے بھاگا ہوا تھا ۔عطا محمد نے بہت باتیں کیں ۔اس کے والد نے دوسری شادی کرلی تھی اور سوتیلی ماں اس پر بہت ظلم کرتی تھی ۔اﷲ بخش کے گھر میں مسلسل فاقے ہوتے لہذااس نے بھوک سے تنگ آکر گھر چھوڑ دیا ۔ان بچوں نے نہ صرف یہ بتایا کہ وہ چھوٹا موٹا کام بھی کرکے اپنا خرچ چلاتے ہیں۔لیکن ان کی باتوں یہ اندازی ہوا کہ وہ جرائم کی چھوٹی موٹی وارداتیں کرتے ہیں ۔ان بچوں کا سڑک پر جینا آسان نہیں ،وہ برباد ہوچکے ہیں او معاشرے میں ان کی کوئی حیثیت نہیں، لوگ انہیں حیوان سمجھتے ہیں ۔ان سے تعلق رکھنے والا ہر شخص چاہتا ہے کہ یہ بچے اُسے’’خوش رکھیں لیکن کوئی انہیں خوشی دینے کی بات نہیں کرتا-

سدر مین امپریس مارکیٹ کے سامنے بیٹھے چند بچوں کے ساتھ بھی گفتگو ہوئی انہوں نے اپنے نام بتانا مناسب نہیں سمجھا لیکن ان میں سے تین کچرا چننے ،جوتے پالش کرنے،گاڑیاں دھونے والے اور دو بچوں کے چہرے بتا رہے تھے کہ وہ نشے کے عادی ہیں ۔ان بچوں کی عمر آٹھ تا پندرہ برس تھیں ۔کسے نے اپنا نام صحیح نہیں بتایا ان بچوں کے ساتھ گفتگو جاری تھی کہ دوتین افراد کی نظریں ان پر محسوس ہوئیں اور وہ لوگ شکل سے جرائم پیشہ لگ رہے تھے اور شاید ان ہی کی موجودگی کی وجہ سے یہ بچے ہر سوال کا گول مول انداز میں جواب دے رہے تھے۔

سرکاری شعبہ ان بچوں کے لیے کیا کر رہا ہے؟اس بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن پتا نہیں چلنے دیا مگر کچھ قریب ہمراہ سے پتا چلا کے ان بچوں کی کل تعداد 5000 1 درج ہے۔جن میں عورتیں بھی شامل ہیں لیکن یہ سرکاری ادارے کب،کہاں اور کتنا کام کرتے ہیں ؟اس بارے میں کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔۔

شیر شاہ کی پل کے نیچے کچھ افراد اور بچوں سے گفتگو کی گئی جن سے بہت معلومات حاصل ہوئیں ۔ان بچوں کی باتوں سے دو نہایت اہم باتیں سامنے آئے۔اول یہ کہ انہوں نے حتمی طور پر یہ سمجھ لیا ہے کہ اب یہ ہی سب کچھ ان کی زندگی ہے اور غربت،جہالت، جرائم اور نشے کی ولدل سے وہ نہ خود باہر آسکتے ہیں اور نہ کوئی انہیں نکالنے والا ہے۔دوم معاشرہ انہیں ساری زندگی اس طرح دھتکارتا اور پھٹکارتار ہے گا۔یہ احساسات بہت خطرناک ہیں ،کیوں کے ان کی وجہ سے یہ بچے اندر سے کھوکھلے ہو چکے ہیں ۔کیا یہ ماتم کی گھڑی نہیں ہے؟
حکمرانوں نے اس معیار کو بہتر نہ بنایا تو ان بچوں کی تعداد اور بڑھتی جائی گی

ضیأ اعوان ایڈوکیٹ۔۔۔ سربراہ مددگار ہیلپ لائن
دس برسوں مین پاکستان بھر میں ان بچوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوگیا ہے۔پاکستان میں کسی بھی حکومت نے مجموعی طور پر اس مسئلے پر توجہ نہیں دی کہ یہ کہاں سے اور کیوں سڑکوں پر آتے ہیں،کہاں کہاں جاتے ہیں اور کیا کرتے ہیں۔ان بچوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہو گیا ہے ۔اور ان کی سرپرستی گاڑیوں کے ڈرائیور اور ان کے گروہوں کے سرپرست کرتے ہیں ۔ان کے تحفظ کے لیے قانون کہیں سرگرم عمل نظر نہیں آتا۔یہ راتوں کو جاگتے،نشہ کرتے اور غلط جسمانی افعال کرتے ہیں۔لیکن اصل مسئلہ انہیں رات کے وقت تحفظ فراہم کرنے کا ہے ، کیوں کے رات کے وقت ہی یہ صرف نشہ وغیرہ کرتے ہیں اور غلط قسم کے لوگ ان کے ساتھ بدفعلی کرتے ہیں۔
صرف کراچی میں ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد25000 سے زائد ہے ۔ان بچوں کے پاس ،چونکہ کوئی شناختی دستاویز یا قومی شناختی کارڈ نہیں ہوتا،لہذا انہیں بیت المال اور کسی سرکاری ادارے سے انہیں امداد نہیں ملتی۔یہ چوں کہ ووٹرز نہیں ہوتے ،حکومت ان کیلئے پالیسی نہیں بناتی۔ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ آج ہمارے ملک کی اقتصادی ترقی کھوکھلی اور سطحی ہے۔جس کی وجہ سے لاکھوں افراد بے روزگار ہیں۔جب باپ بے روزگار ہوجاتا ہے تو گھروں میں فاقے اور جھگڑے ہوتے ہیں ،جس کی وجہ سے بچے گھروں سے بھاگ جاتے ہیں ۔ دینی مدارس میں اس لیے بڑی تعداد میں جاتے ہیں کہ والدین یہ دیکھتے ہیں کہ وہاں انہیں خوراک ،لباس اور رہائش کی سہولت مل جائے گی اور وہ قُرآن کی تعلیم حاصل کرتے رہیں گے۔

پاکستان میں بچوں کو گود لینے کی کوئی باقائدہ پالیسی نہیں ہے،لہذا جو بچے گود لیے جاتے ہیں،ان پر نظر رکھنے کا کوئی نظام نہیں ہے۔ان کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے یا انہیں نوکر بنا کر خدمت لی جارہی ہے۔جو بچے مستقل طور پر سڑکوں پر رہتے ہیں،وہ کسی نہ کسی گروہ میں شامل ہوجاتے یا زبردستی شامل کرلیے جاتے ہیں۔ہمارے ادارے کے ایک سروے سے پتا چلا کہ کینٹ اسٹیشن پر ایک شخص ٹرین سے آنے والے اکیلے بچوں پر نظر رکھتا ہے اور پھر انہیں کسی نہ کسی طرح اپنے گروہ میں شامل کر کے بھیک مانگنے پر مجبور کرتا ہے ۔سب سے پہلے ان بچون کو خوراک اور رہائش کی لالچ دی جاتی ہے،جواس وقت ان کی فوری ضرورت ہوتی ہے،کیوں کہ وہ کراچی میں اجنبی ہوتے ہیں۔ان بچوں کے چھوٹے اور بڑے گروہ ہوتے ہیں۔یہ بچے گاڑیاں ساف کرتے،بھیک مانگتے،جوتے پالش کرتے اور چوری وغیرہ کرتے ہیں۔

ان بچوں کے لیے زندگی تاریخ ہوتی ہے
انور کاظمی ،سماجی کارکن،انچارج ایدھی انفارمیشن بیورو
سڑکوں پر رہنے والے زیادہ تر بچوں کے خاندان بہت غریب ہوتے ہیں اور بچے غلط صحبت میں رہنے کی وجہ سے چوری یا دیگر غیر اخلاقی اور غیر قانونی کام کرنے لگتے ہیں،جس پر ان کے والدین ان پر تشدد کرتے ہیں تو وہ گھر سے بھاگ جاتے ہیں ۔یاں کسی کے ماں باپ انتقال ا ور سرپرست نہ ہونے کی وجہ سے بچے سڑکوں پر آجاتے ہیں۔گھر سے بھاگنے والے بچوں کی تعداد کم ہوتی ہے ۔کراچی میں کھارا در،صدر،لیاقت آباد،عبداﷲ شاہ غازی کا مزار ،لیاری،موسیٰ لین،،لانڈھی اور سائٹ ،وغیرہ میں ان بچوں کے ٹھکانے ہیں۔پہلی مرتبہ اکیلے کراچی آنے والے بچے عموماََ ایدھی فاؤنڈیشن تک پہنچا دیے جاتے ہیں ۔یہ بچے 5یا 10کے گروہ میں رہتے ہیں۔ان کی اکثریت گلیو Glueسونگھ کر نشہ کرتے ہے،کیوں کہ وہ سستا اور آسانی ہر جگہ دست یاب ہوتا ہے ۔اگر کسی بچے کے ہاتھ میں زیادہ پیسے ہوں تو وہ ہیروئنHeroin کا نشہ کرنے لگتا ہے۔

صدر کے علاقے میں پولیس نے1992 ء میں ایسے 16بچوں کا گروہ پکڑا تھا۔ان میں سب سے چھوٹے بچے کی عمر سات برس تھی ۔گروہ کے سرغنہ کے گلے میں سونے کی زنجیر،ہاتھ میں قیمتی سگریٹ کا پیکٹ اور مہنگی گھڑی تھی۔پکڑے جانے والے بچے ایدھی میں بھیجے گئے،جہاں انہوں نے بتایا کے وہ بھیک مانگ کر گروہ کے سرغنہ کو پیسے دیتے تھے۔پہلے بھی کچھ بچے ایدھی ہوم کا گیٹ توڑ کر فرار ہوگئے تھے،ایدھی فاؤنڈیشن کی مشکل یہ ہے کہ اگر ایسے بچے زیادہ تعداد میں ایدھی ہوم رکھے جائیں تو بہت ہنگامہ کرتے اور پہلے سے وہاں رہنے والے بچوں کو ورغلا کر خراب کرنے لگتے ہیں،لہٰذا انہیں زیادہ عرصے تک رکھنا مشکل ہوتا ہے،البتہ ایدھی فاؤنڈیشن کے مراکز پر ان کے نہانے،کھانے،اور کپڑے وغیرہ کا بندوبست کردیا جاتا ہے۔ہر سال 50 تا 60 ایسے بچے ایدھی فاؤنڈیشن کے حوالے کیے جاتے ہیں۔ان میں سے 16سال سے زائد عمر کے بچے بھاگ جاتے ہیں۔جورک جاتے ہیں انہیں تعلیم اور تربیت دی جاتی ہے اورایدھی فاؤنڈیشن کے کاموں میں لگ جاتے ہیں۔کراچی میں ان بچوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے ۔عوام سے ہماری درخواست ہے کہ وہ مستحقین افراد کو خیرات دیں۔صحت مند افراد بچوں کو پیسے دے کر ان کی ہمت افزائی نہ کریں ۔لوگ ان بچوں کو نفرت سے نہ دیکھیں۔اگر کبھی کوئی ایسا بچہ ،ان کے سامنے آجائے تو اسے محبت اور کچھ وقت اور عام زندگی کی طرف لوٹنے کی ترغیب دیں۔۔۔

یہ بچے ہمارے معاشرے کا ایسا اہم مسئلہ ہیں ،جس پر سرمایہ واپس چلا جائے گا۔ملک میں حکومت کے تمام تر دعوؤں کے باوجود غربت میں اور اس کے نتیجے میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم جب تک قانون کے نفاد اور لوگوں کی زندگی کا معیار بہتر بنانے کی مدت میں فنڈز خرچ نہیں کریں گے تب تک ہمارا سماجی ڈھانچہ تبدیل اور قوم خوشحال نہیں ہوگی اور یہ بچے آج بھی پہلے والے مسائل کا شکار ہیں ۔۔

اگر ان بچوں پر مناسب توجہ نہیں دی گئی تو کراچی میں اسٹریٹ کرائیمز کی شرح میں بے تحا شا اضافہ ہو جائے گا۔۔
بھوک پھرتی ہے میرے ملک میں ننگے پاؤں۔
رِزق ظالم کی تجوری میں چھپا بیٹھا ہے۔

 

Hafiz Gadal
About the Author: Hafiz Gadal Read More Articles by Hafiz Gadal: 6 Articles with 8110 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.