پختون بھائیوں اور بہنوں سے ایک درخواست

نقیب اللہ محسود کراچی کا ایک پٹھان دکاندار تھا، کراچی میں کروڑوں پختون بستے ہیں اور نقیب اللہ محسود بھی انہی میں سے ایک تھا میڈیا پر اُس کی رنگارنگ تصویریں دیکھ کر اس سٹائلش نوجوان کی موت کا افسوس سب کو ہی ہوا۔ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا کردار بھی زیر بحث آیا اور شدید ترین عوامی تنقید کا نشانہ بنے اُن کو پکڑنے کے لیے اعلیٰ سطح پر کوششیں کی گئیں آخر کار یہ گرفتاری عمل میں آبھی گئی ۔راؤ انوار کی شہرت کچھ اچھی نہیں تھی کہ لوگ اُس کے ساتھ کوئی ہمدردی کرتے ،پہلے بھی کئی جعلی مقابلے اس پولیس افسر کے نام اور ریکارڈ پر موجود تھے لہٰذا لوگوں کی ہمدردیاں خود بخود نقیب اللہ محسود کی طرف ہوتی گئی۔ یہ معاشرے کا اچھا رُخ ہے کہ بے گناہ کے ساتھ کھڑا ہواور گناہ گار کی سزا کا مطالبہ کرے اور اسے سزا دلوائے لہٰذا اس کے لیے غیر ضروری انداز اپنانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن کچھ نوجوانوں نے نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کو اپنی شہرت کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ کیا اور اسے باقاعدہ تحریک کی صورت اور نام دینے کی کوشش شروع کردی۔ بات دراصل یہ ہے کہ دشمن بھی نوجوانوں پر کام کرنے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ اُن کی نا تجربہ کاری اور جوش کو بہت آسانی سے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بروئے کار لایا جا سکتا ہے لہٰذا ایسے ہی ایک نوجوان منظور احمد پشتین کو میدان میں لایا گیا جس کا تعلق وزیرستان سے ہے ۔1992 میں پیدا ہونے والے اس لڑکے کے بارے میں اگر آپ تحقیق کریں تو اس 26 - 25 سالہ نوجوان کے لیے وکی پیڈیا پر لکھا گیا ہے کہ وہ سالوں سے پختونوں کے حقوق کے لیے جدو جہد کر رہا ہے یہ لڑکا ابھی خود گومل یونیورسٹی میں وٹرنری سائنس کا طالبعلم ہے لہٰذا یہ سالہا سال سے کیسے جدوجہد کر رہا ہے ہاں یہ ممکن ہے کہ دشمن اس بچے پر سالوں سے کام کر رہا تھا اور اب جب کہ وہ اس قابل ہوگیا ہے کہ چار لوگوں کے بیچ میں کھڑے ہو کر بات کر سکے تو اُسے لانچ کر دیا گیا اس سے پہلے بھی اُسے چھوٹی موٹی اسائنمنٹ دی جاتی رہی تھی جس پر وہ کام تو کر رہا تھا لیکن ایک دم شہرت ملنے کا موقع ابھی اُسے نہ ملا تھا۔ منظور پشین کے والد پرائمری سکول ٹیچر تھے جو آپریشن راہ نجات کے وقت اپنے علاقے سے پناہ کے لیے ڈیرہ اسماعیل خان اپنے کنبے کے ساتھ آئی ڈی پی بن کر آئے ان آئی ڈی پیز کی ملک میں امن کے لیے قربانی سے کسی کو انکار نہیں اور قوم نے ان کی اس تکلیف اور مشکل وقت کو محسوس بھی کیا اور اس کی قدر بھی کی۔ اس بات سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ پختونوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اٹھایا اور سب سے زیادہ قربانیاں دیں لیکن اس کو منفی انداز میں استعمال کرنا کسی طرح بھی مناسب نہ تھا ۔شروع شروع میں پشتین نے 2014 میں محسود تحفظ تحریک کی بنیاد رکھی جو ایک سماجی تحریک تھی اور اس نے اس کا مقصد بارودی سرنگوں کا صاف کرنا بتایا علاقے میں کچھ جان پہچان کرانے کے بعد اُس نے محسود سے پشتون تک کا سفر طے کیا اور اپنی تنظیم کا نام بدل کر پشتون تحفظ تحریک رکھ دیایہاں تک بھی اُس کا دائرہ اثر انتہائی محدود رہا ۔اسی دوران اللہ تعالیٰ کے کرم، پاک فوج کی قربانیوں اور پاکستانی عوام کے تعاون سے دہشت گردی میں کمی آئی اور تحریک طالبان اور اس جیسی دوسری دہشت گرد تنظیموں کا اثر کافی حد تک ختم ہوا تو دشمن کو غلط فہمیاں اور بدامنی پیدا کرنے کے لیے پھر سے کسی مہرے کی ضرورت پڑی اور نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد اس نوجوان کو اپنے مطلب کے لیے چُن لیا گیا۔ اس نے وزیرستان سے اپنا احتجاجی سفر شروع کیا اور پشاور سے ہوتا ہوا اسلام آباد پہنچ کر اُس نے دھرنا دیا اور یوں منظور احمد پشتین میڈ یا کیمروں کی نظروں میں آنے میں کامیاب ہوا۔ پشتین نے اپنی تحریک کو پشتونوں کی حقوق کی تحریک بنا دیا اور اسفندیارولی اور محمود خان اچکزئی جیسے خود کو پختون ولی اور پختو نیت کے ٹھیکیدار کہنے والے لیڈروں نے فوراََ آگے بڑھ کر اُس کا ہاتھ تھام لیا۔ میں خود پختون ہوں لہٰذا پختونوں سے بے انصافی کو کسی صورت نہ پسند کر سکتی ہوں نہ برداشت لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پختونوں کو سب سے زیادہ نقصان ان دہشت گردوں نے پہنچایا کوئی پختون علاقہ ان کی دست بُرد سے محفوظ نہیں رہا ساتھ ہی پوری دنیا میں اِن کے امیج کو بر باد کیا گیالہٰذا دہشت گردی کے خلاف جنگ کسی طرح پختونوں کے خلاف نہیں۔ پشتین کو فوراََ ہی افغانستان سے امداد کا ملنا اور صدر اشرف غنی کا اُس کی حمایت میں بول اٹھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اُسے افغانستان اور اُس کے وقتی آقا بھارت سے امداد مل رہی ہے۔ کابل میں اُس کے حق میں مظاہرہ ہونا بھی اُس کو دنیا کے سامنے لاکر پاکستان میں نئے مسائل کو اٹھانے کی ایک کوشش تھی ۔پشتین ایک عام پاکستانی شہری ہے اس ملک میں ہر سہولت کا فائدہ اٹھا رہا ہے وہی وزیرستان جو صدیوں میں وہ ترقی نہیں کر سکا جواب وہ کر رہا ہے وہ اُس کوحقوق دلانے کی بات کر رہا ہے اپنے حق کے لیے بات کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ ایسا ہونا چاہیے اور بالکل ہونا چاہیے لیکن جائز طور پر۔پشتین یہ تو کہتا ہے کہ اُس کے علاقے میں چیک پوسٹیں ہیں جو لوگوں سے پوچھ گچھ کرتی ہیں اور انتہائی مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے اُس نے ظلم وستم کی فرضی داستانیں گھڑیں انہی داستانوں کو کا بل میں ان افغانیوں نے اُس کے حق میں دہرایا جو پاکستان کے ٹکڑوں پر پلے بڑھے تھے لیکن ان سب کچھ کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آرنے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں ایک سوال کیا کہ اگر پرائیوٹ اداروں کی چیک پوسٹیں آپ کو روکتی ہیں اور آپ کی تلاشی لیتی ہیں اور جب آپ احتجاج کریں تو آپ سے معذرت کی جاتی ہے کہ ایسا حالات کی وجہ سے کیا جارہا ہے تویہ چیک پوسٹیں بھی عوام کے تحفظ کے لیے ہیں لہٰذا اُس کا یہ اعتراض تو کسی طرح قابلِ قبول نہیں۔پشتین کو تمام اعتراضات پاکستان پر ہی ہیں نہ تو پاکستان میں موجود افغانوں کی شرپسندی پر ہے نہ افغانستان میں پاکستان کی سرحد پر قطار در قطار بھارتی قونصل خانوں پر جو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں اور پاکستان میں دہشت گردی کے منبے ہیں یہی پر دہشت گرد اور خود کش تیار ہوتے ہیں اور پھر پاکستان بھیج دیے جاتے ہیں لیکن پھر بھی منظور پشتین کو اس پر اعتراض نہیں اس کو یہ بھی اعتراض نہیں کہ یہی بھارت کراچی،خیبر پختونخواہ اور فاٹا میں کیوں بے دریغ بلوچوں اور پختونوں کا خون بہا رہا ہے اور کلبھوشن جیسے جا سوس بھیجتا ہے جن کی وجہ سے چیک پوسٹیں لگانا پڑتی ہیں،افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانا پڑتی ہے اِس پر بھی افغانوں کو اعتراض ہے اور پشتین بھی اُس کو نہیں سراہ رہا ۔اُس نے اپنے ایک انٹرویومیں کہا کے وہ دہشت گردی کے خلاف ہے چاہے وہ طالبان کی طرف سے ہو یا یونیفارم پہنے فوجیوں کی طرف سے ہو وہ فوج کے اقدامات کو بد معاشی کہہ رہا ہے تو اِسے وہ کیوں نظر نہیں آرہا کہ فوج نے اُس کے علاقہ کو بد معاشوں اور دہشت گردوں سے پاک کر کے ترقی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔وہ جگہ جگہ جلسے کرتا پھر رہا ہے اور بد امنی پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے آخر کس کی ایما اور اخراجات پر۔ایک درخواست میری پختون بھائیوں اور بہنوں سے بھی ہے کہ کہ غیر ملکی ایجنڈا پورا کرنے ،اپنے آپ کو پختونوں کا لیڈر ثابت کرنے اور اپنی جیب بھرنے والے اس نوجوان کو سیدھی راہ پر ڈالنے کی کوشش کریں نہ کہ اُس کے ہاتھوں میں کھلونا بنیں اورنہ اُس کی ڈور ہلانے والے افغانستان اور بھارت کے ہاتھ میں۔
 

Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552611 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.