عدم برداشت

 کسی بھی معاشرے میں امن و سکون ایک دوسرے کو معاف کرنے,انصاف کرنے,برداشت کرنے اور تحمل مزاجی سے کام لینے سے ہی قائم ہو سکتا ہے۔لیکن جہاں یہ خوبیاں موجود نہ ہوں تو اس معاشرے میں لاقانونیت ,تشدد,غصہ,عدم برداشت اور بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں.ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بھی کئی برسوں سے عدم برداشت کا رحجان تیزی سے بڑھ رہا ہے.رواداری جیسی عظیم صفت ختم ہوتی جارہی ہے۔عدم برداشت کا موذی مرض ہماری زندگیوں میں مکمل طور پر سما چکا ہے۔جس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں مثال کے طور پر گھروں میں عدم برداشت کے جراثیم بہت حد تک پائے جاتے ہیں میاں بیوی کا چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑا کرنا,ایک دوسرے پر حاوی رہنے کی کوشش کرنا عدم برداشت کا ثبوت ہے جس کے منفی اثرات ان کے رشتے پر تو پڑتے ہی ہیں اس کے ساتھ ساتھ بچوں پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔بچے جیسا رویہ والدین کا دیکھتے ہیں ویسا ہی رویہ سکول اور گھر سے باہر اپنے دوستوں کے ساتھ اپناتے ہیں جس طرح ماں باپ کی بحث و تکرار دیکھتے ہیں ایسے ہی اپنے دوستوں کے ساتھ بھی کرتے ہیں.جو کہ بچوں کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے خوفناک رحجان کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔مثال کے طور پر سکول میں اساتذہ بھی عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں گھریلو ملازم تشدد کا بہت زیادہ شکار ہوتے ہیں مالکان اپنا سارا غصہ معصوم ملازموں پر نکال دیتے ہیں اور بے دردی سے تشدد کرتے ہیں.

عدم برداشت کا ایک بہت بڑا واقعہ گزشتہ سال مردان یونیورسٹی میں بھی پیش آیا جہاں توہین مذہب کے الزام میں ایک نوجوان مشال خان کو بدترین تشدد کر کے قتل کر دیا گیا.

عدم برداشت کا مظاہرہ خاص طور ٹریفک سگنلز پر کیا جاتا ہے۔جہاں اشارہ ملنے کی ہی دیر ہوتی ہے اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ میں ہم اپنا ہی نقصان کرتے ہیں اور اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو ایک دوسرے کو الزام دیتے ہیں یہاں تک کہ بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اپنی غلطی تسلیم کر کے معاملہ وہاں ہی ختم کیا جا سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کا چال چلن بلکل ہی بدل چکا ہے۔عوام تو عوام رہی,بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان بھی عدم برداشت کی بیماری میں مبتلا ہیں.ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں لگے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق کرنے پر راضی ہی نہیں اور نہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔

قارئین کرام!دیکھا جائے تو ہر فرد ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی بجائے کھانے کو دوڑتا ہے۔بے چینی,بے صبری غصے نے ہر طرف اپنی جڑیں مضبوط کر رکھی ہیں ہر شخص سمجھتا ہے کہ جو وہ سوچتا ہے وہ کہتا ہے وہی ٹھیک ہے۔لیکن اگر حقیقت اس کے برعکس نکل آئے تو برداشت کا مادہ ختم ہو جاتا ہے کوئی بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں،جہالت,خودپسندی,نا انصافی,عدم برداشت کی اہم وجوہات ہیں.

ہمارا مذہب اسلام ہمیں برداشت کا درس دیتا ہے,اور برداشت کامیابی کی طرف پہلا قدم بھی ہے۔لیکن افسوس کہ ہم اس درس کو بھولتے جا رہے ہیں عدم برداشت ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کر رہی ہے۔اور جس معاشرے میں صبر,برداشت,رواداری,میانہ روی,ختم ہو جاتی ہے تباہی اس پر حاوی ہونے لگتی ہے۔عدم برداشت کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مستقل مزاجی سے کام لیں چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسلہ نہ بنائیں کسی کے بارے میں منفی رائے قائم کرنے سے گریز کریں تحمل سے کام لینے کی کوشش کریں معاف کرنا سیکھیں ضرورت صرف اپنے مائینڈ سیٹ کو مثبت کی طرف لے کر آنے کی ہے۔کیونکہ مثبت سوچ مثبت تبدیلی لاتی ہے اور مثبت تبدیلی معاشرے میں امن و سکون کے لیے بے حد ضروری ہے۔

Arq-e-Hayat
About the Author: Arq-e-Hayat Read More Articles by Arq-e-Hayat: 5 Articles with 10126 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.