بابا جی کا مسئلہ جوں کا توں

آج میرا مسلسل تیسرا دن تھا کہ میں اپنے ایک کام کے سلسلے میں تعلیمی بورڈ کا چکر کاٹ رہا تھا۔اور آج بھی میرا کام کاہونا مشکل لگ رہا تھاکیوں کہ متعلقہ افسران امتحانی مراکز کے معائنوں کے لئے جاچکے تھے۔ بس ایک اُمید تھی کہ شاید جلد واپس لوٹ آئیں اور میرا کام ہوجائے۔اسی آس کو لے کر میں ایک ٹوٹے پھوٹے تین بندوں والے بینچ پر بیٹھ گیا تھا۔یہ بینچ کم اور جھولا زیادہ تھا اور ٹیک لگانے سے وہ ہوا میں سُر بکھیر رہا تھالیکن وہاں اس سے مناسب جگہ بیٹھنے کے لئے کوئی اور نہ تھی اور اسی کے سامنے ناظم امتحانات اور سیکرٹری کے آفس بھی تھے۔یوں اس جھولا نما بینچ پر بیٹھے بیٹھے میں دوسرے لوگوں کا مشاہدہ بھی کر رہا تھا۔ایک سفیدداڑھی والا بابا جی ہرپانچ ، دس منٹ ٹہلنے کے بعد اپنے جمع کردہ ڈاکومنٹ بارے پوچھنے لگتا لیکن اُس کو کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل رہا تھا۔ مجھے بھی یہاں آئے کوئی آدھ گھنٹاہوچکا تھالیکن آج میرا مسلسل تیسرا دن تھا لہٰذا میں اس ماحول کا عادی بن چکا تھا۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس بابا جی کی پریشانیمیں اضافہ ہو رہا تھا۔ یہ انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ کوئی بھی کام رُک جائے اور حل نہ ہو تو ہر گزرتا لمحہ بھاری محسوس ہونے لگتا ہے۔ اس بابا جی کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔میں نے اپنے بیگ سے پانی کی بوتل نکالی اوراُس کو پانی پینے کا اشارہ کیا۔ وہ بلا تامل میرے ہاتھ سے پانی کی بوتل لے کر شکریہ ادا کرتے ہوئے بینچ پر بیٹھ گیا ۔ پوچھنے سے پتہ چلا کہ بابا جی کا تعلق شمالی وزیرستان ایجنسی کی تحصیل میرعلی سے تھااور وہ اپنے بچے کے ڈاکومنٹ کے سلسلے میں آیا تھا، اُس نے اَرجنٹ فیس بھی جمع کی تھی تا کہ کام جلد ہو جائے اور وہ واپس میرعلی چلا جائے لیکن یہاں تو معاملہ ہی اُلٹ تھا۔ اَرجنٹ فیس جمع کرنے کے باوجود بھی آج اُس کاکام مشکل ہوتا نظر آرہا تھاکیوں کہ ڈاکومنٹ پر جن متعلقہ افسران نے دستخط کرنے تھے وہ اپنی کرسیوں پر موجود نہ تھے۔ میں نے بابا جی سے کہا کہ اگروہ مناسب سمجھیں تویہ کام میرے ذمے چھوڑ دیں اور میں اُن کو بذریعہ ڈاک بھیج دوں گا۔ ’’آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن آپریشن ضرب ِ عضب کی و جہ سے ابھی تک ڈاک کا نظام پہلے کی طرح بحال نہیں ہوسکا ہے‘‘۔ بابا جی نے دعا دیتے ہوئے کہا۔’’ اور ڈاکومنٹ کہیں گم نہ ہوجائیں ‘‘۔بابا جی کا اندیشہ بجاتھا۔

بابا جی کے علاوہ اور بھی لوگ اسی طرح کے دھکے کھاتے پھر رہے تھے جس کی بنیادی وجہ افسران کی اپنی کرسیوں سے غائب ہونا تھا۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ وہ امتحانی مراکز کے دوروں پر گئے ہوئے تھے۔تعلیمی بورڈوں میں یہ تاخیر روز کا معمول بن چکی ہے۔حالاں کہ آن لائن ٹیکنالوجی کی بدولت بہت سی سہولیات عوام کو گھروں کی دہلیز پر مہیا کی جاسکتی ہیں۔یاد رہے کہ اس بار میٹرک امتحانات کے لئے خیبر پختون خوا کے مختلف تعلیمی بورڈں میں لاکھوں روپے کی لاگت سے کنٹرول روم بنائے گئے جہاں سے امتحانی مراکز کو آن لائن کیمروں کے ذریعے سے مانیٹر کیا گیالیکن باوجود اس سہولت کے تعلیمی بورڈکے افسران خود امتحانی مراکز جاتے رہے ، معائنہ ٹیمیں تشکیل دیں اور معائنہ کے لئے افسران کی ڈیوٹیاں بھی لگائی گئیں ، یعنی ٹی اے اور ڈی اے کی مد میں لاکھوں روپے خرچ کئے گئے جو اس نئے متعارف کئے جانے والے نظام پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ امتحانوں کے لئے اس نئے آن لائن مانیٹرنگ سسٹم کی جانچ پڑتال کی جاتی اور اس کو مؤثر بنایا جاتا۔کنٹرول روم میں ایک ٹیم کو بٹھایا جاتا جس کا سربراہ ڈیٹا اینالسٹ ہوتا جو دن بھر کی کاروائی کا تجزیہ کر کے رپورٹ اعلیٰ حکام کو جمع کرواتا جس پر کاروائی عمل میں لائی جاتی ۔ لیکن افسوس ! ہمارے ہاں صرف متوازی نظام بنائے جاتے ہیں اور عوام کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں اوریوں بابا جی اور دوسرے لوگ روزانہ رُلتے ہیں۔
 

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 205 Articles with 264722 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.