تحریر: بنت ارشاد ، لاہور
دنیا میں انسانی حقوق ایک سے بڑھ کر ایک تنظیمیں دیکھیں اور سنیں۔ سب کا
کام انسانوں کے لیے حقوق کی جدوجہد کرنا ہے۔ کل جب فلسطین میں قتل عام ہوا
میں مجھے امید تھی کہ وہ تنظیمیں اب اٹھ کھڑی ہوں گی مگر ایسا نہیں ہوا۔
پھر کشمیر میں قتل عام ہوا، اب مجھے پوری امید تھی کہ کچھ ہوگا، مگر پھر
بھی کہیں سے کوئی آواز سنائی نہیں دی۔ اس کے اگلے روز افغانستان میں معصوم
بچوں کو خاک و خون میں تڑپا دیا گیا۔ میرا دل پھر دھڑکا کہ اب شاید بچوں کے
لاشے دیکھ کر کسی کے لب ہلیں اور صدائے احتجاج بلند ہو مگر میری حسرت
ادھوری کی ادھوری رہ گئی۔ میں حیراں و پریشان بیٹھی یہ سب دیکھ رہی تھی اور
سوچ رہی تھی کہ کسی نے مجھے آہستہ سے آواز دی۔ جس کی امید لگائے بیٹھی ہو
وہ نہیں ہوگا۔ میں نے پوچھا کیوں کیا وہ انسان نہیں، کیا ان کا خون خون
نہیں تو آواز آئی شاید نہیں کیوں کہ وہ مسلم ہیں۔ کیا مسلمانوں کے لیے الگ
قانون ہے۔ میرا دل زور سے چیخیں مارنے لگا۔ خود کو سنبھال کر میں نے اپنا
قلم تھاما اور مگر کچھ لکھا نہ گیا۔ میں نے ایک بار مسلمانوں کے اوپر سے
دیکھا تو مجھے مسیح نظر آئے۔ مگر خون نہیں دیکھائی دیا۔ مجھے یہودی نظر آئے
مگر خون نہیں دیکھائی دیا۔ مجھے بت پرست نظر آئے مگر خون وہاں بھی دیکھائی
نہیں دیا۔ جب میں نے ان کے پنچے اور منہ کی جانب نظر دوڑائی تو مجھے
مسلمانوں کے چیٹھڑے اور خون وہاں سے بہتا ہوا ملا۔ جن سے ہم امن کی بھیک
مانگنے نکل پڑے تھے وہیں تو ہمارے قاتل تھے۔ مجھ سے کچھ نہیں لکھا گیا
سوائے چند سوالوں کے۔ اے مسلمانو! اپنوں کا خون بہتا دیکھ کے خاموش کیوں ہو؟
کیوں ایک مٹھی بن کر دشمن کو منہ توڑ جواب نہیں دیتے؟ کیوں نہیں بتاتے کہ
کسی کلمہ گو کا خون بھی اتنا ہی قیمتی ہے جتنا امریکا میں بسنے والوں کا ہے۔
باہر کے ملکوں میں نایاب نسل کے جانوروں کو مارنے کی بھی سزا ہے۔ تو پھر
شام ، عراق وغیرہ میں مارے جانے والے مسلمانوں کے خون کی سزا کیوں نہیں ؟؟کون
کہتا ہے کہ حق و باطل کی جنگیں ہوا کرتیں تھی۔ وہ آج بھی جاری ہیں۔ آج بھی
مسلم سر پہ کفن باندھے سر مقتل کھڑے ہیں۔ یہودو نصاریٰ کی اسلام سے جنگ
پرانی ہے مگر اب ظلم کی انتہا ہے کہ وہ مسلم بچوں پہ ہتھیار کسے ہوئے ہے۔
وہ مردوں عورتوں کا خون بہا چکے۔ اب وہ بچوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مگر
شاید وہ بھول رہے ہیں کہ دنیا مکافات عمل ہے۔ جو بویا جائے گا وہ ہیں کاٹنا
تو پڑے گا۔ کانٹے اگا کر پھول نہیں نکلا کرتے۔ جب ماؤں کے کلیجے کی ٹھنڈک
باپ کے آنکھوں کے نور چھینیں گے تو گھر گھر سے کوئی نکلے گا۔ عرش والے کا
اصول ہے۔ ظلم تو ظلم جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ |