جس معاشرے میں علم دولت کے مقابلے میں دولت کو فوقیت حاصل
ہوں. عالم کو بے توقیر جانا جاتا ہوں. اس معاشرے میں جہالت پروان چڑھتی ہے.
قوموں کی ترقی میں نوجوانوں کا کردار اہم ہوتا ہے. نوجوان اگر کتاب دوست
ہوں تو علم، دلیل، مکالمہ، تہزیب اور تعلیم یافتہ کا کلچر عام ہوتا ہے. ایک
دوسرے کو سننے اور سمجھنے کی روایت پیدا ہوتی ہے. اسکے برعکس نوجوان اگر
کتاب سے دور ہوں تو معاشروں میں ہیجان، جذباتیت، بداخلاقی، موج مستی، حرام
خوری، بدعنوانی، فراڈ، جعل سازی، جرائم، انتہا پسندی اور گروہی تعصبات
پھلتے پھولتے ہیں اور جہالت کو فروغ ملتا ہے.
نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ کتابوں سے رشتہ مضبوط و مربوط کرے. یہ بات روز
روشن کی طرح عیاں ہے کہ کتاب بہترین ساتھی ہے کتاب پڑھنے سے سوچ کے بند
دریچوں کھلتے ہیں اور فکر و نظر میں وسعت آتی ہے. ہم کسی گروہ یا جماعت کا
مستقبل نہیں بلکہ اس ملک کا مستقبل ہیں اور آنے والا دور ہم سے ہوگا ہمیں
خود کے بارے میں فکر مند رہنا چاہیے.
ہم ماضی کے اوراق کو پلٹے تو تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ کتب
خانوں کو بہت اہمیت دی ہزاروں سال مسلمان برصغیر میں حکمران رہے تو انہوں
نے بہت سے کتب خانے قائم کیے. مسلمانوں کے زوال کے ساتھ انگریز ان کتب
خانوں کا نایاب ذخیرہ بھی ساتھ لے گئے اور پھر ان کتب سے مستفید ہوکر دنیا
کو نت نئی ایجادات فراہم کی. برصغیر پاک و ہند کے کتب خانوں کے نام اگر
لکھے جائیں تو معلوم ہوگا کی کتب بینی اس دور میں بھی نہایت اہم سمجھی جاتی
تھی.
ہم کسی کو پسند کرے یا ناپسند کسی سے متفق ہوں یا کسی سے اختلاف کرے یہ
ہمارا حق ہے. مگر ہم کسی کو پسند کرے تو دلیل کے ساتھ کسی کو ناپسند کرے تو
بھی دلیل کے ساتھ کسی کی ہر بات کو درست کہنا اور کسی کی ہر بات کو غلط کو
غلط کہہ دینا درست رویہ نہیں.
ہم نوجوان کتب خانوں کو آباد کریں ان سے ناتہ جوڑیں. کتب بینی کو اپنی
زندگی کا شیوہ بنالیں تو پھر کامیابی ہماری دہلیز پر براجمان ہوگی. ہم
کتابوں سے قربت بڑھائے گے تو ہمارے علم میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ برداشت،
فراخدلی اور شخصیت میں نکھار آئے گا. اور اگر ہم کتاب سے لاتعلقی اختیار
کرے گے تو ہمارے مزاج میں عدم برداشت پیدا ہوگا، دماغ شدت پسندی کا گھر بن
جائے گا،آنکھوں پر تعصب کی عینک لگ جائے گی اور سوچ میں تنگی آجائے گی.
پاک دھرتی کے نوجوانوں کا یہ وطیرہ ہونا چاہیے کہ وہ پڑھے لکھے لوگوں کی
طرح حالات پر نظر رکھے اور باعلم لوگوں کی طرح حالات کا تجزیہ کیا کرے.
ہمارا آج کا نوجوان سیاسی اختلاف میں اخلاقیات کا دامن جلد ہاتھ سے چھوڑ
بیٹھتا ہے جو کہ کسی بھی طرح سے درست رویہ نہیں. ہم میں سے ہر ایک کو یہ
بات سمجھ لینا چاہیے کہ ہر سیاسی جماعت کے اندر کچھ خوبیاں اور خامیاں
موجود ہیں کوئی بے داغ نہیں.
بقول شاعر
داغ داغ مت کہو سب داغ دار ہے
بے داغ تو وہی ہے جو پروردگار ہے
ہم نوجوانوں کو چاہیے کہ ہم سیاسی اختلافات میں ہر ایک کی خوبیوں اور
خامیوں دونوں کو پیش نظر رکھ کر حالات پر تبصرہ کیا کریں. ہر سیاسی جماعت
اور اسکے لیڈر میں کچھ خامیاں اور کچھ خوبیاں موجود ہیں. ہمیں ملک میں عدم
برداشت کے بڑھتے رجحان کا خاتمہ کرنا ہوگا. ہمیں اختلافات میں گالم گلوچ
اور لعن طعن و الزامات کی بری روایت کو بھی روکنا ہوگا. ہماری سیاست کے
بارے میں رائے ذاتی پسند نا پسند یا ذاتی ترجیحات پر نہیں بلکہ زمینی حقائق
پر ہونی چاہیے.
فرشتہ صفت کوئی نہیں اور انسان خاک کا پتلا ہے غلطی جس سے نہ ہو وہ انسان
ہی نہیں. کتاب ہمیں تمیز، اخلاقیات اور برداشت سیکھاتی ہے. اختلاف رائے کو
سننا اور اسکا احترام کرنا دلیل سے جواب دینا اور مکالمہ کرنا. کتاب دوست
نوجوان ہمیشہ جھگڑے اور فساد سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں اور معاشرے میں
امن و امان کے استحکام و قیام کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں.
کتاب ذہن کو سیراب کرتی ہے جیسے بنجر زمین پانی سے سیراب ہوجایا کرتی ہے.
کتابوں سے دوستی کیجیے. کتاب جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم کی روشنی سے
روشناس کراتی ہے. یہ تنہائی میں بہترین ساتھی مصیبت میں بہترین دوست ماضی
سے واقفیت کرانے کا بہترین سبب حال کو بہتر بنانے کا راستہ اور مستقبل کو
تابناک بنانے کا واحد ذریعہ ہے. تاریخ گواہ جن اقوام نے کتب بینی کو اپنائے
رکھا کتب خانوں کو آباد کیا اور کتابوں سے الفت رکھی وہ کامیاب و کامران
ہوئی. آئیے ہم نوجوان یہ عہد کرے کہ ہم اپنے احباب کی فہرست میں کتاب جیسے
بہترین دوست کا اضافہ کرکے اس کے گھر (کتب خانے) کو آباد بھی آباد کرے گے.
سید ثاقب شاہ |