آنکھوں سے ٹپ ٹپ برستے آنسوں،چہرے پر جھلکتی نحوست،
عار شرمندگی کے بوجھ سے جھکی نگاہیں، ہلکان ہوتے جذبات، بیچین طبیعت پر
ضمیر وانسانیت کے احساسات کے کچوکے- یاس، حسرت اور پشیمانی نے کلیم کی
زندگی کو جہنم کدہ بنا دیاتھا- وہ مارا مارا پھر رہا تھا- طنز بھری نگاہیں
اس کے ٹوہ میں تھی،نقد بھرے فقرے اس کا تعاقب کر رہے تھے، لعنت،پھٹکار ہر
جگہ اس سے پہلے موجود ہوتی- اس کا جرم ہی کچھ ایسا تھا، وہ کتے سے بدتر
بناتھا،کتا روٹی کے ٹکڑے کے لیے دوسرے کو زخمی کرتاہے مگر اس ظالم نے دوگز
زمین کے ٹکڑے کیلیے اپنے ماں جائے بھائی کو قتل کردیا- ہوتا تو یہ کہ وہ
بھائی کا بازوبن کر اعانت کرتا،سہارا بنتا مگر اس درندے نے بھائی کے مقدس
لہو سے اپنے ہاتھوں کو رنگا اور ناپاک کیا- اسے سنائی نہ دیا اﷲ کاکلام
پکار پکار بتارہا:بھائی کا قاتل شقی، محروم، بدنصیب ہوجاتاہے،اس کی
دنیاتباہ اورآخرت برباد ہوجاتی ہے- انسانی دنیا میں سب سے پہلا قتل بھائی
کا ہوا- قابیل کے خوفناک انجام سے عبرت پکڑنے کے بجائے اس کا طریق اختیار
کیا،ہائے بدنصیبی- قابیل قاتل بن کر نبی کی صحبت، ایمان کی دولت، رب رحمن
کی مہربانی سے محروم ہوا،اور شیطان کی جھولی میں جاگرا- اﷲ تعالی اس کے
انجام بد کاتذکرہ فرماکر انسانوں کو درس دے رہے ہیں کہ ایسے مت بنیو! قرآن
بتاتاہے ایک قتل کی دھمکیاں دے رہاتھا، حسد، غصے سے پھٹ رہاتھا- دوسرا
نرمی،محبت اور شفقت بھرے لہجے میں کہ رہاتھا، تو مجھے قتل ہی کیوں نہ کردے
میں تو بھائی پر ہاتھ اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکتا- حضرت ابن عباس رضی اﷲ
عنہما فرماتے ہیں، جب قابیل نے ہابیل کو قتل کیا حضرت آدم علیہ السلام مکہ
مکرمہ میں تھے، قتل ہونیکے بعد درخت خار دار ہوگئے،کھانے سڑنگ لگے، پھلوں
میں ترشی پیداہوگئی،پانی شور(کھارا) ہوگیا اور زمین غبار آلود ہوگئی-
شرک کے بعد سب سے بڑا جرم قتلِ ناحق ہے- وہ بھی گر بھائی کا ہو! اس کی شدت،
سنگینی کا اندازہ لگانا آسان نہیں، قرآن وسنت میں صرف قطع تعلق پر جو
وعیدیں ہیں اسے سن کر انسان کانپ اٹھتا ہے- اﷲ فرماتے ہیں: قطع تعلق کرنے
کا والا خسارے اور ٹوٹے میں ہے،سورہ رعد میں ان پر لعنت برساتے ہیں اور برے
ٹھکانے سے آگاہ فرماتے ہیں- سورہ محمد میں فرماتے ہیں کہ اﷲ نے انہیں اندھا
وبہرا کردیا ہے، نہ انہیں حق دکھے گا نہ سیدھی وسچی بات سن وسمجھ سکیں گے-
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ''لاي د خل الجن? قاطع'' رشتہ ناتہ توڑنے
والا جنت میں داخل نہیں ہوگا- احادیث میں یہاں تک آیاہے، کہ وہ جنت کی
خوشبو تک نہیں پاسکیگا- رشتہ اﷲ رب العزت کی صفتِ رحمن کی شاخ ہے- جو اسے
توڑتاہے اﷲ اسے توڑ کر رکھ دیتاہے- اس کی بڑی نحوست یہ ہے کہ عمال قبول
نہیں ہوتے، اس کی سزا دنیا میں ملتی ہے اور آخرت میں بھی-
ماں کی بیلوث ممتا، باپ کی پیار بھری شفقت کے بعد کوئی خلوص،وفا سے
گندھاہوا رشتہ ہے تو وہ بھائی کاہے- ایک ہی ماں باپ کی مذکر اولاد بھائی
کہلاتی ہے، جسے فارسی میں برادر،عربی میں أخ کہتے ہیں- یہ نہایت اعتماد،
پیار،اپنائیت بھرا رشتہ ہے- جسے سماج، معاشرے، عرف میں ایک خاص مقام حاصل
ہے- کسی کے تئیں خلوص،الفت کے اظہار کے لیے یہی لفظ کام آتاہے- دل میں
بھائی کے لیے جو ہمدردی ہے اس کا پرتو، عکس اور کچھ حصہ مستعار لینے کے لیے
اسی مقدس لفظ کا سہارا لیتے ہیں- جیسے ''المسلم أخ المسلم'' مسلمان مسلمان
کا بھائی ہے، یعنی جو جذبات بھائی کے لیے ہیں،ان کا حتی المقدور رخ مسلمان
بھائیوں کی طرف ہوجائے-صلہ رحمی کرنے والا جنت میں داخل ہوگا، رب رحمن کی
خصوصی عنایتیں نصیب ہوتی ہیں،جوچاہے اس کے گھر، خاندان، قبیلے میں آپسی
محبت ہو،اس کے رزق میں وسعت، مال میں زیادتی، اور عمر میں اضافہ ہو اور بری
موت سے محفوظ ہو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے-والدین کے بعد صلہ رحمی کا سب
سے زیادہ مستحق بھائی ہے بھائی-
بخاری شریف میں ہے: ''لیس الواصل بالمکافی''بدلہ لینے والا صلہ رحمی کرنے
والا نہیں ہے- بے شک بھائی سے بدلہ کیسا؟ تمام مال ومنال جائیداد وجاگیر
دیتیہوئے بھی بھائی کا قرب حاصل ہو تو واﷲ سستا سودا ہے- حدیث میں ہے'' صل
من قطعک'' جو توڑے اس سے جوڑو،وہ دیکھو! کعبۃ اﷲ کے جوار میں جانی دشمن،
لڑائیاں، جنگ وجدال بھڑکانے والے،ہر طرح کی ایذائیں دینے والے دشمن،
سرجھکائے بے بس قیدیوں کی طرح کھڑے ہیں، نگاہیں زمین پر گڑی ہوئیں، چہرے
زرد پڑے ہوئیہیں، شہنشاہِ بطحا فرماتے ہیں ''لاتثریب علیکم الیوم''۔ نقش
پائے مرشد چوم کر ایک اور منظر دیکھتے ہیں- نبوی جمال، شاہی جلال کے ساتھ
ایک ذی شان شخصیت جلوہ افروز ہیں- سامنے کھڑے افراد مہربانی،لطف اورعنایت
کی آس لگائے، کھوٹے سکوں کے بدلے بطور صدقہ غلہ طلب کررہے ہیں- شاہِ مصر کے
ذہن کی سلوٹوں میں نقش ابھرتے ہیں،وہ منظر گردش کرنے لگتا ہے جب اسے اپنے
کرم فرما باپ سے فریب، جھوٹ،اور دجل سے حاصل کیا جاتاہے- سخت دل بھائی
مارتے، پیٹتے، ہانکتے مقتل کی طرف لے جاتے ہیں- وحشت، خووف بھرے اندھیرے
کنویں میں ڈال دیتے ہیں، وہ منڈھیر پکڑتا ہے، چیخ، پکار کر رحم طلب نگاہوں
سے برادران کو دیکھتاہے، مگروہ سفاک دھکا دیکر اوپر پتھروں کی بارش کردیتے
ہیں-
ایسے ظالم وجابر مظلوم کے سامنے بے دست وپا کھڑے ہیں،یوسف علیہ السلام
چاہیں تو ابرو کے اشارے سے انکا تیا پانچا کردیں، مگر وہ اپنائیت بھرے لہجے
میں فرماتے ہیں: ''قال ہل علمتم مافعلتم بیوسف وأخیہ اذ أنتم جاہلون''
تمہیں خبرہے! کیاکیا تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ جبکہ تم ناسمجھ
تھے- پھر فرمایا ''لاتثریب علیکم الیوم''آج تم پر کوئی الزام نہیں ہے- ایک
بھائی کی زبان پر بھائیوں کے لیے یہی الفاظ جچتے،سجتے ہیں- اﷲ ہمارے ظالم
بھائیوں کو ندامت اور مظلوم بھائیوں کو یہ حوصلہ نصیب فرمائے- بھائی کے
حقوق پر اہم،جاندار جامعہ علوم الاسلامیہ کا فتوی پیشِ خدمت ہے۔
''یوں تو سبھی مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، اور مسلمان کے دوسرے مسلمان
بھائی پر بہت سے حقوق ہیں، لیکن آپ کا سوال رشتے کے بھائی کے متعلق ہے کہ
ایک بھائی کے اپنے بھائی پر کیا حقوق ہیں؟ ان حقوق کی تفصیل بہت طویل ہے،
چند بنیادی باتیں درج کی جارہی ہیں:
1- اپنے بھائی کے ساتھ نیک سلوک کرنا اور معاملے میں نرمی برتنا: رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اپنے ماں باپ اور بہن بھائی کے ساتھ نیک
سلوک رکھو، پھر درجہ بدرجہ دوسرے رشتے داروں کے ساتھ''۔ آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے اپنی رضاعی بہن کے لیے اکراماً چادر بچھائی تھی۔ خصوصاً بڑا بھائی
باپ کی مانند ہوتا ہے، اور باپ کی طرح اس کا احترام بھی ضروری ہے، اور بڑے
بھائی پر چھوٹوں کی تربیت کی ذمہ داری بھی ہے، لیکن اس حوالے سے شرعی
تعلیمات ہر پہلو سے سامنے رکھنی چاہئیں۔
2- اپنے بھائی کے لیے دعا کرنا: حضرت موسی علیہ السلام کی دعاؤں میں سے ہے:
''رب اغفر لی ولاخی وادخلنا فی رحمتک وانت ارحم والراحمین''۔ (اعراف) ''اے
اﷲ! میری اور میرے بھائی کی مغفرت فرما اور ہمیں اپنی رحمت (کے سائے) میں
داخل فرما، تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے''۔
3۔ غلطی پر چشم پوشی اور درگزر سے کام لینا: حضرت یوسف علیہ السلام کے
بھائیوں نے ان کے ساتھ جو رویہ اپنایا وہ کس قدر تکلیف دہ تھا، لیکن خود
انہوں نے موقع پانے پر انتقام لینے کے بجائے درگزر سے کام لیا: ''لاتثریب
علیکم الیوم، یغفراﷲ لکم وھو ارحم الرحمین''۔ (یوسف)
4- باہمی رابطہ مضبوط رکھنا، تاکہ کسی قسم کی غلط فہمی پیدا نہ ہو: عام طور
پر دیکھا جاتا ہے کہ بھائیوں کے درمیان دوری سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں،
اور اولادوں تک میں دوریاں پیدا ہوجاتی ہیں، صلہ رحمی شریعت کے بنیادی
احکام میں سے ہے، اور بھائی اس کے ابتدائی حق داروں میں سے ہے۔
۵- معاملات صاف رکھنا: دوریوں کی ایک بڑی وجہ معاملات کی پیچیدگی بنتی ہے،
اس لیے معاملات کی صفائی باہمی تعلقات برقرار رہنے کے لیے بہت ضروری ہے۔یہ
چند بنیادی احکام ہیں، تفصیلات کے لیے کتب حدیث اور کتب فقہ میں ابواب کے
ابواب درج ہیں۔فقط واﷲ اعلم''*بھائی کے بھائی سے کچھ تقاضے بھی ہیں*صحن میں
دیوار اپنی جگہ* |