زیادہ عرصہ ہم دور نہیں جاتے ہیں سردیوں کے شروع ہونے سے
چند دن قبل میانمر(برما) کے مسلمانوں کے حالات پراُمت مسلمہ کا رونا دھونا
کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا ، اس رونے دھونے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر
تصاویر شیئر کر کے اور اپنی پروفائل پکچرپر میانمر(برما) کا ٹیگ لگا کر ہم
نے مسلمان ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے میانمر (برما)کے مسلمانوں کو یہ باور
کروادیا تھاکہ ہم ان کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی میں ان کے ساتھ ہیں
اور اس دکھ کو محسوس کررہے ہیں جو ان پر بدھ مت کے پیروکار اور میانمر(برما)
کی فوج کر رہی ہے۔کچھ مسلمانوں نے بدھ مت کے پیروکاروں اور میانمر(برما) کی
فوج کے خلاف گالیاں نکال کر ،کچھ نے پاکستانی فوج ایٹم بم اور کچھ نے دنیا
کی ساری مسلمان آبادی کی غیر ت کوجگاتے ہوئے اپنا حق ادا کیا ،اس معاملہ
میں میڈیا کی بے حسی کو بھی آڑے ہاتھوں لینے والوں کی کمی نہیں تھی ۔خیر
وقت گزرتا گیا ہم میانمر(برما) کے مظلوم مسلمان بھی بھول گئے ،طارق بن زیادؒ،
محمد بن قاسمؒ، سلطان صلاح الدین ایوبیؒ اور نور الدین زنگی ؒکی طلب بھی
چھوڑ دی ۔ نومبر دسمبر میں ڈھل گیا اور دسمبر نئے سال کی شروعات کی طرف
جانا شروع ہوا۔میانمر (برما ) کے مسلمانوں کی پریشانیاں اور تکلیفیں نئے
سال کے شروعات میں بھی کم ہوئیں اور نہ ہی ختم ہوئیں مگر یہ ہے کہ امت
مسلمہ کے مسلمانوں خاص کر نوجوانوں نے چوراہوں، ہوٹلوں، بازاروں،یونی
ورسٹیز اور کالجز میں نئے سال کی وہ خوشی منائی وہ خوشی منائی کہ نہ چادر
کا تقدس اور نہ حیاء کی لاج۔ہاتھ میں جام اور بانہوں کی پینگ بنائے مدہوشی
کے عالم میں ان مسلمان نوجوانوں کے جسم نئے سال کی خوشی میں وہ تھرتھراتے
کہ نہ میانمر کے مسلمان یاد رہے اور نہ ان کی کس مپرسی کی حالت۔
جنوری پھر فروری میں ڈھلنا شروع ہوا ، محبت ایک ازلی اور ابدی احساس کا نام
دے کر ویلنٹائن ڈے کی تیاریاں ، بازار سرخ گل اور دستوں سے سجے ، آنکھوں
میں ہوس محبت کی صورت میں چھلکنے لگی ۔محبت ازلی و ابدی حقیقت چند لمحوں کی
محتاج ہو کر ختم ہوگئی ۔فروری مارچ میں ڈھلنا شروع ہوا تو شام کے مسلمانوں
کے خون سے لتھڑی لاشوں کی تصاویر اور وڈیوز سوشل میڈیا کی زینت بنی اور اس
طرح ایک بار پھر مسلمانوں کی غیرت جاگی ،سوشل میڈیا کے جال میں پھنسے
مسلمانوں نے اپنی تصاویر کے ساتھ شام کے مناظر کو لگا کر سوشل میڈیا پر
پھیلایا ، وہی حکمرانوں کو گالیوں کا سلسلہ شروع کیا ، وہی لعن طعن کفار کو
، وہی طارق بن زیادؒ، محمد بن قاسمؒ ، سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ اور نور
الدین زنگی ؒ کی طلب، وہی ایٹم بم اور بہترین فوج کا طعنہ ، وہی ماضی کی
عظیم و الشان کہانیاں بیان کر کر کے دوسروں کے ایمان کو پرکھنے کا سلسلہ
شروع ہوا ہی تھا کہ ہندوؤں کی دیوالی نے مسلمانوں کی غم زدہ زندگی کو رونق
بخشی،یونی ورسٹیز ، کالجز اور سکولوں میں مخلوط اجتماعات کو ترتیب دیا گیا
، نئے سفید کپڑے رنگ دار کرنے کے لیے بنائے گئے جنھوں نے نئے نہیں بنوائے
انھوں نے پہلے تیار شدہ نسبتاً نئے کپڑوں کے ساتھ چہروں کو سجایا اور
اجتماعات میں شرکت کی ، رنگ پھینکے گئے اور رنگ میں رنگا گیا ۔۔۔جی ہاں یہ
مسلمانوں نے ہندوؤں کی عید دیوالی منائی ۔اس پر اعتراض کرنے والوں نے جب دو
قومی نظریہ اور اسلامی تہذیب و ثقافت کا حوالہ دے کر مسلمان نوجوانوں کی اس
بے راہ روی کا تذکرہ دیا تو سیانوں نے اس دیوالی کو ــ’’کلرڈے(Colour
Day)کا نام دے کر بات کو گول کردیا مگر جانتے سبھی ہیں بہرحال مانتا کوئی
کوئی ہے ۔
آج فلسطین کے مسلمانوں پر مظالم کے سلسلہ کو ایک صدی سے زائد بیت چکا ہے ،
کشمیر کی گلی گلی مسلمانوں کے خون سے رنگی ہوئی ہے ، عراق تباہ وبرباد ہو
چکا ہے ، شام میں بچے سسک سسک کر مر رہے ہیں ، افغانستان میں مسلمانوں کے
سروں کی بولیاں لگی ہوئی ہیں ، میانمر (برما) کی مائیں بچوں کی لاشیں
کوئلوں کی صورت میں جمع کر کر کے تھک چکی ہیں ، چیچنیا کے مسلمان آہ و بکا
کر کے تھک گئے مگر ہم چپ ہیں کیوں کہ ہم بچے ہوئے ہیں،تبھی تو ہم کبھی
دیوالی مناتے ہیں کبھی بسنت ، کبھی ویلنٹائن ڈے تو کبھی نئے سال کی
خوشی۔۔۔اپنے مسلمان بہن بھائیوں پر ہونے والے ظلم پر غم مناتے ہیں تو کیا
خوب کبھی سوشل میڈیا پر گالیاں دے کر کبھی اپنی پروفائل پکچر کو کالا کر کے
کبھی وڈیو شیئر کر کے تو کبھی گلے شکوے کر کے اور امید لگائے بیٹھے ہیں کہ
مشرق سے طارق بن زیادؒ آئے گا یا مغرب سے سلطان صلاح الدین ایوبیؒ، جنوب سے
محمد بن قاسم ؒ یا شمال سے نور الدین زنگیؒ۔۔۔آئیں گے ضرور آئیں مگر پہلے
اپنے دل سے کفار کی چمٹی اس محبت کو تو نکالیں جو کبھی دیوالی منانے پر خوش
کرتی ہے تو کبھی ویلنٹائن ڈے ، کبھی نئے سال کی خوشی میں بدمست کرتی ہے تو
کبھی بسنت میں۔۔۔جی ہاں آئیں گے ضرور آئیں گے مگر تب جب تمام مسلمان اس
فرمان رسول عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کے مطابق ڈھل جائیں گے :’’تمام مسلمان
ایک شخص کی مثل ہیں کہ اگر اس کے سر میں درد ہوتا ہے تو تمام بدن میں درد
ہوتا ہے اور اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہوتی ہے تو سارا بدن تکلیف زدہ ہوتا
ہے‘‘(رواہ مسلم)
|