بچوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات: ایک لمحۂ فکریہ

پاکستان سمیت دنیا بھر میں خود کشی اور اقدام خود کشی کے واقعات میں ہر سال ڈرامائی انداز میں اضافہ ہو رہا ہے۔جس کا اندازہ پچھلے بیس برسوں میں دنیا کے اندر خودکشی کے واقعات میں 150 فیصد سے زائد اضافہ سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔یہ مسئلہ سنگین اور خطرناک طور پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں تیزی کے ساتھ ابھر رہاہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں ہر سال پندرہ ہزار لوگ خود کشی کرتے ہیں جن میں 25 فیصد Teens اور 50 فیصد تیس سال سے کم عمر نوجوان شامل ہیں۔بدقسمتی سے یہ مسئلہ جس شدت کے ساتھ سر اُٹھا رہا ہے لیکن حکومتوں اور معاشرے کے ذمہ دار طبقوں کی نظروں سے اُوجھل ہے۔ اور جس پر صحیح اور راست سمت میں کام بھی نہیں ہو رہا ہے۔

پاکستان میں اس وقت کوئی ایسا ڈیٹا بیس موجود نہیں ، جس سے خود کشی اور اقدام خود کشی کے واقعات کا صحیح اندازہ لگایا جاسکے، ایسے بہت سے واقعات جلد ہی گمنامی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً پانچ سے دس فیصد واقعات میڈیا کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں، جو پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا پر صرف ایک چھوٹی سی خبر کے ساتھ گمنامی کی دلدل میں دفن ہوجاتے ہیں۔ تقاضا تو یہ تھا کہ ان کے پیچھے محرکات کو تلاش کرکے روک تھام کے اقدامات اٹھائے جاتے۔ لیکن حکومتوں اور معاشرے کے ذمہ دار طبقوں کی عدم دل چسپی کے باعث یہ مسئلہ دن بہ دن سنگین نوعیت اختیار کررہاہے۔گزشتہ روز اسی قسم کا ایک واقعہ اخبارات میں آیا۔جس میں صرف یہ بتایا گیا کہ ’’ دس سالہ طالب علم نے خود کشی کرلی، وجوہات معلوم نہ ہوسکیں‘‘۔کراچی پولیس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ پچھلے سال کراچی میں ایک ہزار اقدام خود کشی کے واقعات رونما ہوئے، جو چودہ سے تیس سال کی عمر کے نوجوانوں پر مشتمل تھے۔ اور جن کے محرکات پر حکومت کی چُپ اور غفلت کی وجہ سے یہ تعداد امسال دگنا ہوسکتی ہے۔

خود کشی کا ایک واقعہ گزشتہ برس کراچی میں پیش آیا۔ سولجر بازار کے ایک نجی اسکول میں دو طالب علموں 17 سالہ نوروز حمیدی اور 15 سالہ صبا فاطمہ بشیر نے پستول سے فائرنگ کرکے اپنی زندگیوں کے چراغ گل کردیئے۔اسکول بیگ سے ملنے والے خطوط میں لکھا گیا تھا کہ ہمارے والدین ہماری دوستی سے ناخوش تھے۔جاپان کابینہ آفس کی رپورٹ کے مطابق 1972 سے لیکر 2013 تک آٹھارہ ہزار سے زائد بچوں نے خود کشیاں کیں۔جن میں 131 واقعات یکم ستمبر کو پیش آئے۔یاد رہے کہ اس دن جاپان میں موسم سرما کی تعطیلات کے بعد اسکول کھلتے ہیں۔

خود کشی اور اقدام خود کشی کے بڑھتے ہوئے واقعات معاشروں کے لئے ایک نیا چیلنج بن کر سامنے آرہے ہیں۔ابھی تک ان کے پیچھے جو محرکات نظر آتے ہیں ، اُ ن میں گھریلو ناچاقیاں، اچھے تعلیمی اداروں میں داخلہ نہ ملنا اور دیگر تعلیمی مسائل، معاشی مسائل، ذہنی صحت، ڈیپریشن، اور والدین کی بچوں سے غیر حقیقت مندانہ توقعات سر فہرست ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ خودکشی کی وارننگ علامات کچھ بھی ہوں ، اُن کا فوری علاج تلاش کرنا چاہیے۔اگر والدین یا اساتذہ بچوں کے اندر ایسے منفی جذبات دیکھتے ہیں ، تو اُن کو فوری طور پر کسی نفسیاتی ماہر یا ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ تا کہ مستقبل میں پیش آنے والے بد ترین واقعہ سے بچاجا سکے۔

ہمارا تعلیمی نظام ہر دور میں وسائل کو رونا روتا ہے، مگر اُن کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔ جی ڈی پی کا لگ بھگ تین فیصد تعلیم کے لئے مختص کیا جاتا ہے۔تو ایسی صورت حال میں مشاورت اور رہنمائی کیسے ممکن ہو، اور نفسیات کے ماہرین کی اسکولوں اور کالجوں میں تعیناتی کیوں کر ممکن ہوسکتی ہے۔ اگرچہ ہمارے اساتذہ تربیتی پروگراموں میں نفسیات پڑھتے ہیں لیکن اس کا لیول صرف تعلیمی نفسیات تک محدود ہوتا ہے۔ جن کے ذریعے اساتذہ اپنی تدریسی سرگرمیوں کو نہ صرف نکھار تے ہیں بلکہ بچوں کو بہترین تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ کرتے ہیں۔طالب علموں میں خودکشی جیسے اقدامات کی روک تھام کے لئے یہ ضروری ہے کہ اساتذہ کے لئے کلینکل سائیکالوجی کا مضمون شامل کیا جائے ۔ اور حاضر سروس اساتذہ کو یہی مضمون اِن سروس تربیتی ورکشاپوں کے ذریعے پڑھایا جائے۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 226 Articles with 301478 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.