کہتے ہیں کسی معاشرے میں عورت کا مقام دیکهنا کو تو اس
معاشرے کے لوگوں کا عورتوں سے سلوک دیکهنا چاہیئے کہ وہاں کے مرد عورتوں کے
ساتھ کیا رویہ رکهتے ہیں ان سے کس طرح سے معاملات کرتے ہیں. جہاں مغرب میں
عورتوں کو برابری کی بنیاد پر کس قدر تزلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے برابری
کے نام پر انکا مقام جوتيوں تلے روندا جاتا ہے تو ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے
سب سے بڑے علمبردار بهی انہیں کہا جاتا ہے اور ہمارے کچھ لوگ اس کلچر کو
اپنا بنانے کے پر تولتے نظر آتے ہیں چاہے وہ عورت کی برابری والی تحریک ہو
یا سارے مردوں کو چند لوگوں کی غلط حرکات کا قصور وار ٹھرا کر تعصب کا
نشانہ بنانا ہو۔ جب کے ہمارے خطے میں عورت کا جو مقام و مرتبہ ہے سب سے
جداگانہ ہے. اکثریتی رویے کے مطابق جس طرح عورتوں کو اکثر مقامات پر
پروٹوکول ملتا ہے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں. آج کل ہمارے یہاں جو مردوں سے
برابری کا بهوت لیے کچھ ذہنی مریضہ خواتین عجیب سے نعرے لیے سڑکوں پر نکل
آئی ہیں کوئی ان سے پوچهے کہ یہ کس طرح کی برابری چاہتی ہیں؟ کیا یہ چاہتی
ہیں کہ صرف مرد ہی عورتوں کی طرح اپنی روٹیاں بنالے،کپڑے دهولے یاگهر کی
صفائی کرلے؟ یا عورتوں خد بهی تیار ہیں کے صبح ناشتے کی لائن میں مردوں کے
برابر لگ سکیں یا چلتی بس سے چلانگ لگا سکیں؟ یہ مہم صرف ایک بهونڈا مزاق
کے سوا کچھ نہیں. اسلام نے عورتوں کو اس قدر حقوق دیے ہیں کہ دنیا کا کوئی
مذہب نہیں دے سکتا لیکن افسوس ہمیں علم ہی نہیں. ہمارے آقاﷺ نے دنیا میں
عورتوں کو وہ حقوق دیے کے عورت اپنے عورت ہونے پر ناز کر سکتی ہے. حضور
اکرمﷺ نے اپنی زوجہ اور ہماری امی عائشہؓ سے جس طرح رشتہ نبھایا وہ رہتی
دنیا تک مرد و عورت کے لیے سبق ہے۔ اسلام تو بیوی کو بلاوجہ نیند سے بیدار
کرنے سے بھی منع کرتا ہے اور اسی طرح اقوال بھرے پڑے ہیں تو ہم کیوں ان
تعلیمات کو چھوڑ کر مغربی رنگ اپنانا چاہتے ہیں؟ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم
مغربی آزادی کے ساتھ ساتھ اسلامی حقوق بھی مانگتے ہیں تو گویا نا ہم اسلامی
ہیں نا لبرل جیسے آدھا تیتر آدھا بٹیر۔عورت ہو یا مرد انہیں انکا حق اسلام
کے سوا کہیں نہیں ملے گا ہمیں ایک دوسرے کو انکا حق دینے کے واسطے اسکا علم
حاصل کرنا ہوگا اور علم اس وقت تک بیکار ہے جب تک اس پر عمل نا کیا جائے۔ |